بجلی کی ٹیکنالوجی آ چکی تھی۔ اس کا اثر توقع سے بہت کم تھا۔ سب ویسے ہی چل رہا تھا، جیسا چلتا آیا تھا۔
جوزف سوان اور تھامس ایڈیسن نے 1870 کی دہائی میں بجلی کا بلب بنایا۔ اس سے چند برس بعد ایڈیسن نے بجلی بنانے کے سٹیشن نیویارک میں پرل سٹریٹ اور لندن میں ہالبورن میں نصب کروا دئے۔ ایک سال کے بعد وہ بجلی بیچ رہے تھے۔ اور اس سے ایک سال بعد بجلی کی مشین ایجاد ہو کر صنعتی مشینری چلا رہی تھی۔ لیکن 1900 تک پانچ فیصد سے بھی کم صنعتیں برقی مشینوں کو استعمال کر رہی تھی۔ زیادہ تر فیکٹریاں بھاپ کے دور میں ہی تھیں۔
بھاپ کی طاقت سے چلنے والی فیکٹری عظیم الشان سٹرکچر ہوا کرتا تھا۔ ایک بہت بڑے بھاپ کے انجن سے مکینکل طاقت آتی تھی۔ انجن ایک مرکزی فولادی شافٹ کو گھماتا تھا جو اتنی بڑی ہوتی تھی کہ کئی بار پوری بلڈنگ پر محیط ہوتی تھی یا اس سے بھی زیادہ۔ اس سے ثانوی شافٹ نکلتی تھیں جو بیلٹ اور گئیر کے ذریعے مرکزی شافٹ کے ساتھ منسلک ہوتی تھیں۔ ہتھوڑے اور پنچ، کھڈیاں اور پریس اس سے کام کرتی تھی۔ کئی بار اس سے عمودی شافٹ بھی نکلتی تھی جو اوپر والی دوسری یا تیسری منزل تک اس شافٹ کو لے جاتی تھی۔ مہنگے “بیلٹ ٹاور” اس کو ڈھانپ دیتے تھے تا کہ آگ نہ پکڑے۔ اس سب کو تیل دینے کے لئے الگ پیشہ ور تھے جو یہ کام کیا کرتے تھے۔
بھاپ کے انجن شاذ ہی کبھی رکتے تھے۔ ایک مشین نے بھی چلنا ہو تو کوئلہ کی بھڑکائی گئی آگ ہڑپ کرتے ہوئے یہ حرکت میں مصروف رہتے تھے۔ اس کے دھرے گھومتے رہتے۔ آواز دیتی بیلٹ گریس اور دھول کے ساتھ چکر لگاتی رہتی۔ اور کبھی کسی کا تسمہ یا آستین الجھ جاتا تو اس بدقسمت کو اپنی طرف کھینچ لیتی۔
انیسویں صدی کے آخر میں برقی مشینیں عام دستیاب ہو گئی تھیں۔ کچھ فیکٹری مالکان ان کو استعمال کرنے کا تجربہ بھی کر رہے تھے۔ بھاری بھرکم سٹیم انجن کو نکال کر صاف اور جدید برقی پاور کا استعمال بڑی سرمایہ کاری تھی لیکن اس کے بعد یہ توقعات پر پورا نہیں اتر رہی تھی۔ نہ صرف پرانے سٹیم انجن برقرار تھے بلکہ کئی نئے بھی نصب ہو رہے تھے۔ 1910 تک فیکٹری کے مالکان دونوں کا موازنہ کرتے تھے اور ان کا انتخاب کئی بار پرانی ٹیکنالوجی یعنی سٹیم انجن ہوتا تھا۔ آخر کیوں؟
اس کا جواب یہ ہے کہ بجلی کا فائدہ اٹھانے کے لئے محض انجن تبدیل کر دینا کافی نہیں تھا، سوچ کی تبدیلی بھی ضروری تھی۔ برقی ڈائنامو سٹیم انجن کے جگہ پر لگائے جا سکتے تھے اور بالکل ٹھیک کام کرتے تھے لیکن اس کا اصل فائدہ کچھ اور تھا۔
بجلی کی مدد سے پاور کو ٹھیک ٹھیک کہیں بھی پہنچایا جا سکتا ہے۔ چھوٹے سٹیم انجن بالکل بھی ایفی شنٹ نہیں لیکن چھوٹی برقی مشینیں ٹھیک کام کرتی تھیں۔ فیکٹریوں میں کئی جگہوں پر چھوٹی مشینیں لگائی جا سکتی تھیں۔ ہر ایک کی اپنی شافٹ ہو سکتی تھی۔ کام کرنے والی ہر جگہ پر اپنی چھوٹی مشین ہو سکتی تھی جس کو بجلی وہیں پہنچا دی جائے۔ پاور تقسیم کرنے کا طریقہ ایک بڑی گھومتی شافٹ کے بجائے بجلی کی تاروں کے ذریعے ہو سکتا تھا۔
بھاپ کے انجن کی فیکٹری کو مضبوط سٹرکچر ہونا تھا جہاں پر بڑی فولادی شافٹ سے طاقت پہنچائی جا سکے۔ جبکہ بجلی کے انجن کی فیکٹری روشن اور ہوادار ہو سکتی تھی۔ بھاپ کے انجن کی فیکٹری ڈرائیو شافٹ کی منطق پر منظم کی جاتی تھی۔ بجلی کی فیکٹری سے پروڈکشن لائن بنائی جا سکتی تھی۔ پرانی فیکٹریاں تاریک اور تنگ تھیں۔ نئی فیکٹریاں کشادہ ہو سکتی تھیں جن میں روشنی اور ہوا کا گزر ہو سکتا تھا۔ پرانی فیکٹریوں میں انجن کا راج تھا۔ سب کچھ اس کے ردھم پر چلتا تھا۔ نئی فیکٹری میں مزدور رفتار طے کر سکتے تھے۔
فیکٹریاں صاف اور محفوظ ہو گئیں۔ یہ زیادہ پیداوار دے سکتی تھیں کیونکہ صرف اس مشین کو چلایا جاتا تھا جس کی ضرورت تھی لیکن یہ سب اس وقت کیا جا سکتا تھا جب فیکٹری کا ڈیزائن نئی مشین سے فوائد حاصل کرنے کے لئے کیا جائے۔ محض انجن بدلنے سے کام نہیں چلتا تھا۔ آرکیٹکچر، پروڈکشن کا پراسس، مزدوروں کے کام کا طریقہ بھی بدلنا تھا۔اور چونکہ مزدور زیادہ خودمختار ہو سکتے تھے تو ان کی بھرتی، تربیت اور تنخواہ تک سب کچھ تبدیل کرنا تھا۔ پھر ہی اس کا فائدہ اٹھایا جا سکتا تھا۔
فیکٹری مالکان ہچکچا رہے تھے۔ اور اس کی وجہ سمجھنا آسان تھا۔ نہ صرف اس وجہ سے کہ لگایا جانے والا سرمایہ ضائع چلا جاتا، بلکہ انہیں خود معلوم نہیں تھا کہ یہ سب تبدیل کیسے کریں کہ نئی ٹیکنالوجی سے مستفید ہوا جا سکے۔
آخر میں تبدیلی آ ہی گئی۔ یہ ہونا ہی تھا۔ اس کی ایک وجہ بجلی کے گرڈ کا قابلِ اعتبار اور بجلی کا سستا ہونا تھا۔ لیکن کچھ غیرمتوقع عوامل بھی تھے۔ ان میں سے ایک ایجاد پاسپورٹ تھی۔ جنگ سے تباہ شدہ یورپ اپنے شہریوں کو باہر جانے سے روک رہا تھا۔ امریکہ میں مزدوروں کی قلت تھی۔ تنخواہیں بڑھ رہی تھیں۔ اب بھرتی کرنا مقدار کا نہیں، معیار کا کام رہا تھا۔ تربیت یافتہ مزدور خودمختاری سے کام کر سکتے تھے۔ ان عوامل نے صنعتوں میں برقی انجن آن کر دیا۔
جس طرح فیکٹری مالکان اس کو اپناتے گئے، صنعتوں کے ڈیزائن کے نئے خیالات بھی آتے گئے۔ 1920 کی دہائی میں صنعتی پیداوار کی شرحِ نمو جتنی رہی، نہ اس سے پہلے کبھی اتنی رہی تھی اور نہ اس کے بعد کبھی اتنی ہوئی۔ اس کی وجہ نئی ٹیکنالوجی نہیں تھی، بلکہ یہ تھی کہ پچاس سال پرانی ٹیکنالوجی کو ٹھیک سے استعمال کرنا آ گیا تھا۔ تمام سسٹم، آرکیٹکچر، لاجسٹکس، افرادی قوت اور پالیسیاں تبدیل ہوئے تو پھر برقی ڈائنامو سے عالمی صنعت کا انجن چلنا شروع ہوئے۔ جی، اس کو نصف صدی لگی۔
محض نئی ٹیکنالوجی کا ہونا کافی نہیں جب تک کہ اس کے اردگرد کا پورا سسٹم اس کے مطابق تبدیل نہ ہو۔ اسی طرح، اکیسویں صدی میں کئی اداروں نے کمپیوٹنگ ٹیکنالوجی کا فائدہ اٹھایا، کئی نے کمپیوٹننگ اور سسٹم تو لگائے لیکن کوئی خاص فائدہ نہیں اٹھا سکے۔ کیونکہ جنہوں نے اپنی آرگنائزیشن تبدیل نہیں کی۔ مرکزیت کی پالیسی نہیں بدلی، سپلائی چین کو ٹھیک نہیں کیا۔ اپنے صارف کو اس کی مدد سے بہتر معیار اور چوائس نہیں دے سکے تو محض کمپیوٹر کا ہونا کافی نہیں تھا۔ کامیاب وہ رہے جو اسے اپنا کر نئے طریقے سے کام کر سکے۔ اپنے نظام میں تبدیلی لا سکے۔ ٹیکنالوجی خود سے کچھ نہیں کرتی۔
انقلابی ٹیکنالوجی سب کچھ بدل دیتی ہے (اسی لئے انقلابی کہلاتی ہے)۔ لیکن سب کچھ بدلنا وقت لیتا ہے، نئے تصورات کا تقاضا کرتا ہے اور بہادری کا بھی۔ اور ساتھ بہت سی محنت کا۔
ٹیکنالوجی تبدیلی کو ممکن کرتی ہے۔ اس سے فائدہ اٹھانے والے نظام اسے کر کے دکھاتے ہیں۔ جو نہیں کر سکتے، بھاپ کے انجن کی طرح وقت انہیں ختم کر دیتا ہے یا میوزیم کا حصہ بنا دیتا ہے۔ برقی انجن ایک بار اپنا لئے گئے تو پھر بھاپ کے انجن واپس نہیں آئے، خواہ اس تک پہنچنے میں نصف صدی ہی کیوں نہ لگ گئی۔
ایجادات کا سفر پیچھے کے دروازے بند کرتا جاتا ہے۔ مشین چلتی رہتی ہے۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...