ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ بوبی کی ماں نے دونوں بیٹوں کی خواہش کے مطابق ایک ساتھ دو مرغیوں کو دس دس انڈوں پر بٹھایا ۔ مقررہ دنوں کے بعد گھر میں خوشی کی خبر پھیل گئی کہ دونوں مرغیوں کے انڈوں سے سات سات چوزے نکل آئے ہیں۔ اصل میں تین انڈے خراب ہوگئے تھے جس سے کوئی چوزہ نہیں نکلا۔ بوبی اور اس کا بھائی وکی چوزوں کو دیکھ کر خوشی سے پھولے نہیں سما رہے تھے۔ بوبی نے سارے چوزوں پر قبضہ جمانے کا ارادہ کیا ۔ ادھر امی کو پتا چلا تو کالی مرغی اور اس کے بچے بوبی کے نام کردیے اور سرخ مرغی بچوں سمیت وکی کے حوالے کرکے اپنا حتمی فیصلہ سنا دیا۔
بوبی اور وکی نے اپنی اپنی مرغیوں کے لیے چھوٹے چھوٹے ڈربے بنائے تاکہ چوزے ایک دوسرے سے نہ لڑیں اور کیٹو بلی سے بھی امن میں رہیں۔
جب چوزے دو ہفتوں کے ہوئے تو خود دانہ چننے کے قابل ہوگئے۔ اس کے باوجود ماں اس کے لیے خوراک کا بندوبست کرتی۔ بوبی اور وکی چوزوں کا بہت خیال رکھتے۔ دونوں ہمیشہ روٹی پانی میں نرم کرکے چوزوں کو کھلاتے۔ ایک دن وہ دونوں چھت پر ہوم ورک کررہے تھے اور مرغیاں بچوں سمیت نیچے کچھ کھا رہی تھیں کہ کہیں سے بدمعاش کیٹو بلی نکل آئی۔ اس نے چوزوں کو دیکھا تو منہ میں پانی بھر لائی۔ جھٹ سے کیٹو نے کالی مرغی کے بچوں پر حملہ کیا اور ایک چوزے کو پکڑنا چاہا۔ مرغی کو جب اندازہ ہوا تو وہ اس پر جھپٹ پڑی۔ اس نے کیٹو کو پنجے مارنا شروع کیے۔ اس پر کیٹو کو بھی غصہ آگیا ۔ اس نے چوزہ چھوڑ کر مرغی پر حملہ کردیا۔ دونوں نے ایک دوسرے کو خوب پنجے مارے جس سے مرغی کافی زخمی ہوئی۔ سارے چوزے سہمے ہوئے ڈربے کے اندر چلے گئے۔ اتنے میں بوبی نیچے آیا۔ اس نے مرغی کی حالت دیکھی تو بھاگا بھاگا آیا ۔ سب سے پہلے اس نے چپل اٹھا کر بلی کو بھگایا، پھر مرغی کو گود میں اٹھایا تاکہ کسی ڈاکٹر سے اس کا علاج کرے مگر وہ مر چکی تھی۔ اسی طرح بوبی کے سارے چوزے یتیم ہوگئے۔
کچھ دن بوبی مرغی کو یاد کرکے افسردہ رہا۔ وہ پہلے کی نسبت چوزوں کو زیادہ وقت دینے لگا۔
چوزے تو نا سمجھ تھے ، جلد ہی ماں کو بھلا کر یہاں وہاں جاکر شرارتیں کرنے لگے۔ ایک دن سارے چوزے مل کر پڑوس کے چوزوں سے لڑ کر آگئے۔ اگلے روز سارے چوزوں نے مل کر تربوز کے کھیت پر دھاوا بول دیا۔ چند دنوں کے بعد ایک چوزہ سیڑھیوں پر مستی کر رہا تھا کہ اچانک اس کا پاؤں پھسلا اور نیچے گر کر مر گیا۔
بوبی کو چوزوں کی ان شرارتوں کا علم ہوا۔ اس نے سوچا کہ ماں کے بغیر واقعی بچوں کی پرورش بہت مشکل ہوتی ہے۔ اس لیے تو اس کے چوزے روز بروز بگڑتے جارہے ہیں۔ اس مسئلے کے حل کے لیے وہ اسی رنگ کی دوسری مرغی لے آیا تاکہ وہ ان یتیم چوزوں کا خیال رکھے۔ چوزے بہت ہوشیار تھے ، انہوں نے جھٹ سے پہچان لیا کہ یہ پرائی مرغی ہے۔ یہ نئی مرغی بہت شریف اور بچوں کا خیال رکھنے والے تھی۔ پھر بھی وہ بچوں کی پرورش کرنے میں ناکام ہوئی کیونکہ چوزے اس کی کوئی بات نہیں مانتے تھے، اس کے ہاتھ کا کھانا نہیں کھاتے تھے۔ اس نے ان بچوں کو اپنانے کی بہت کوشش کی مگر بچے اسے کوئی لفٹ نہیں دے رہے تھے ۔
یہ سلسلہ چلتا رہا اور چوزے روز بروز بگڑتے رہے ۔ ادھر وکی کی سرخ مرغی نے بچوں کو اچھے اخلاق سکھائے۔ جس سے وہ سارے چوزے اچھی عادتوں کے مالک بن گئے۔ وہ نہ تو آپس میں لڑتے تھے اور نہ ہی پڑوسیوں کو پریشان کرتے تھے کیونکہ ان کی پرورش سگی ماں کی نگرانی میں ہورہی تھی ۔ گھر میں سب ان چوزوں سے بہت خوش تھے۔
ایک دفعہ بوبی کے چوزوں نے گھر کا کھانا کھانے سے انکار کیا۔ ان میں سے بڑے چوزے نے سوتیلی ماں سے کہا۔
” ہم روز روز گھر کا یہ بد مزا کھانا نہیں کھا سکتے۔ ہمیں بازار سے کچھ منگوا لو یا ہمیں پیسے دو تاکہ باہر ہی کچھ کھا پی لیں۔”
سوتیلی ماں نے چوزوں کو مطمئن کرنے کی کوشش کی اور کہا۔
” بازار کے گندے اور باسی کھانے سے بہتر ہے گھر کا صاف ستھرا کھانا کھایا جائے۔ اس کے ساتھ کھانے کو جو کچھ بھی ملے اس پر اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے۔ بعض چوزوں کو دن بھر ایک دانہ تک نہیں ملتا۔ وہ گندگی کے ڈھیر میں خوراک ڈھونڈتے ہیں ، آپ سب کو تو پھر بھی گھر میں تیار کچھ نہ کچھ مل جاتا ہے۔”
اس کے باوجود چوزوں نے گھر کا کھانا نہیں کھایا اور شوارما، پیزا اور برگر کی فرمائش کرنے لگے۔
ایک دفعہ سارے چوزے باہر میدان میں پڑوسی چوزوں کے ساتھ مل کر چھپن چھپائی کھیل رہے تھے۔ کھیل کے خاتمے کے بعد سب کو بھوک لگی تو ہر کوئی اپنے لیے خوراک ڈھونڈنے لگا۔ بوبی کی مرغی کا بڑا اور بگڑا بیٹا دوسرے چوزوں سے کل رات سوتیلی ماں سے کیے گئے جھگڑے کے متعلق باتیں کر رہا تھا۔ سوتیلی ماں نے اس کی باتیں سنی تو باقی چوزوں سے اس کو علاحدہ کرکے بڑے پیار سے سمجھایا۔
“دیکھو بیٹا! اچھے بچے گھر کی باتیں باہر نہیں کرتے۔ یہ برے لوگوں کی نشانی ہوتی ہے۔ اس سے خدا بھی ناراض ہوتا ہے۔”
چوزے نے بگڑی صورت بنائی۔
” لیکن میں کروں گا کیونکہ تم سب نے ہمیں ایک ہی قسم کے کھانے کھلانے کی قسم کھائی ہوئی ہے۔ میں تمہیں بتاتا چلوں کہ مجھ سے ایک ہی طرح کا کھانا بار بار نہیں کھایا جاسکتا۔”
‘وہ تو ٹھیک ہے بیٹا! مگر اس مہنگائی میں جو کچھ مل جائے، اس پر خدا کا اور اپنے گھریلوں مالک کا شکر ادا کرنا چاہیے، مہنگائی کی وجہ سے ہر چیز کو پر لگ گئے ہیں۔”
“لیکن ہمارے مالکوں کے پاس دولت کی کمی نہیں۔ مہنگائی کے باوجود ان کو چاہیے کہ ہمیں اچھی خوراک دے۔”
“بالکل وہ پہلے کھلاتے تھے مگر اس طرح کا بہترین کھانا نہیں کھلا سکتے آج کل۔ یہ بھی غنیمت ہے کہ ہمیں سب کچھ گھر میں تیار مل جاتا ہے ۔”
یہ نصیحتیں سن کر بھی اس چوزے پر کوئی اثر نہ ہوا۔ وہ منہ پھلائے وہاں سے چلا گیا ۔
اچانک اس نے ایک کمزور سی مرغی کو دیکھا جو گندگی کے ڈھیر سے اپنے بچوں کے لیے خوراک اکھٹا کر رہی تھی۔ بچے بھی ساتھ تھے جو بہتر خوراک نہ ملنے کی وجہ سے بیمار اور کمزور لگ رہے تھے۔ مرغی کو ڈھیر میں سے خوراک کا کوئی دانہ ملتا تو وہ فوراً بچوں کو آواز دے کر انہیں کھلاتی۔ ایک دانے کے لیے سارے بچے “چوں چوں” کرکے خوشی کا اظہار کرتے۔ یہ حالت دیکھ کر بگڑے چوزے کی آنکھیں کھل گئیں، اس نے دل میں خود کو مخاطب کرتے ہوئے کہا۔
“ان چوزوں کو کتنی مشکل سے خوراک ملتی ہے اور میں گھر میں تیار ،صاف ستھری چیز کھانے سے بھی انکار کرتا ہوں۔ میں کتنا ناشکرا ہوں۔”
اس کے بعد اس نے اپنے ڈربے جا کر سوتیلی ماں کی بانہوں میں بانہیں ڈال کر اپنی بدزبانی کی معافی مانگی اور ہمیشہ ہمیشہ کے لیے نیک بن کر دوسروں کو بھی نیکی کی دعوت دینے لگا ۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...