ہم جانتے ہیں کہ کائنات کا آغاز بگ بینگ سے ہوا- اس بارے میں سائنس دانوں میں کوئی اختلاف نہیں ہے- اگر آپ لوگوں سے یہ پوچھیں کہ کائنات کے آغاز میں کیا تھا تو اکثر تعلیم یافتہ لوگ جواب دیتے ہیں کہ کائنات کا آغاز ایک سنگولیریٹی سے ہوا- لیکن اگر آپ یہ سوال کریں کہ کائنات کا آغاز جس سنگولیریٹی سے ہوا وہ کیا تھی تو شاید اپ کو کوئی معقول جواب نہ مل پائے- زیادہ تر لوگ یہ کہیں گے کہ یہ وہ 'مقام' یا نقطہ تھا جہاں کائنات کا تمام مادہ یا تمام توانائی مرکوز تھی- اس مقام پر مادہ اور توانائی کی کثافت لامنتہا یعنی infinite تھی
لیکن یہ جواب درست نہیں ہے- اب ہم یہ انتہائی اعتماد کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ کائنات کے آغاز کے وقت کائنات میں کوئی سنگولیریٹی موجود نہیں تھی- اس سے پہلے کہ اس بات پر بحث کی جائے کہ کائنات کے آغاز کے وقت کوئی سنگولیریٹی موجود تھی یا نہیں، آئیے پہلے ہم یہ سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ سنگولیریٹی کسے کہتے ہیں
اگر ہم دو مادی اجسام (جن کے ماس m1 اور m2 ہوں اور ان کا درمیانی فاصلہ r ہو) کے درمیاں کشش ثقل کی قوت کی مقدار کیلکولیٹ کرنا چاہیں تو اس کا فارمولہ یہ ہے
F=Gm1m2/r²
اس فارمولہ میں r² کی ٹرم نسب نما یعنی denominator میں ہے- اس لیے جیسے جیسے r کی مقدار کم ہو گی دونوں اجسام کے درمیان کشش ثقل کی مقدار بڑھتی جائے گی- اگر دونوں اجسام کے درمیان فاصلہ صفر ہو جائے تو قوت ثقل کی ویلیو کیا ہو گی؟ ریاضی کا اصول ہے کہ کسی بھی مقدار کو صفر سے تقسیم کیا جائے تو جواب infinity آتا ہے- infinity کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ واقعی وہ مقدار لامنتہا ہو چکی ہے- infinity کا مطلب صرف یہ ہوتا ہے کہ جو مقدار کیلکولیٹ کی جا رہی ہے وہ denominator کے صفر ہونے پر undefined ہوتی ہے- مثال کے طور پر کشش ثقل کے فارمولے میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اس فارمولے سے r=0 کے لیے کشش ثقل معلوم نہیں کی جا سکتی- اس حالت کا دوسرا نام سنگولیریٹی ہے- یعنی کشش ثقل کا فارمولہ r=0 پر ایک سنگولیریٹی پیدا کرتا ہے جو اس بات کی علامت ہے کہ یہ فارمولہ r=0 کی کنڈیشن میں درست طور پر کام نہیں کرتا- (فی الحال اس مسئلے کو نظر انداز کر دیجیے کہ دو اجسام کے مرکز کے درمیان فاصلے کا صفر ہونا ناممکن ہے)
اسی طرح اگر آپ بھنور میں پانی کی رفتار کے فارمولے کو سٹڈی کریں تو اس میں بھی یہی دیکھنے کو ملتا ہے کہ اس فارمولے کی رو سے بھنور کے باہری کناروں پر پانی کے گھومنے کی رفتار نسبتاً سست ہوتی ہے- جیسے جیسے آپ بھنور کے مرکز کی طرف جائیں، پانی کی رفتار بڑھتی جاتی ہے- اس فارمولے کی رو سے عین بھنور کے مرکز میں پانی کی رفتار infinite ہو جاتی ہے- لیکن ہم جانتے ہیں کہ حقیقت میں ایسا نہیں ہوتا- ہوتا صرف یہ ہے کہ یہ فارمولہ بھنور کے مرکز پر پانی کی رفتار کی درست پیش گوئی نہیں کرتا
اسی طرح جب ریاضی کے فارمولے کسی طبعی خصوصیت کی مقدار معلوم کرنے کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں یعنی جب فزکس کے نظریات کو ریاضی کے فارمولوں کی شکل میں لکھا جاتا ہے اور اس فارمولے کا جواب انفینیٹی آتا ہے تو اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہوتا کہ اس طبعی خصوصیت کی مقدار infinite ہوگئی ہے- اس کا مطلب صرف یہ ہوتا ہے کہ یہ فارمولہ اس حالت میں اس خصوصیت کی مقدار کی پیش گوئی کرنے کے لیے استعمال نہیں ہو سکتا- جب ہم یہ کہتے ہیں کہ کائنات کا آغاز سنگولیریٹی سے ہوا تو دراصل ہم اس بات کا اعتراف کر رہے ہوتے ہیں کہ جس ریاضیاتی ماڈل سے ہم کائنات میں مادہ کی مقدار، کثافت، یا قابل مشاہدہ کائنات کی جسامت کی پیش گوئی کرتے ہیں، وہ ماڈل کائنات کے عین آغاز کے وقت درست جواب نہیں دیتا- گویا سنگولیریٹی کوئی طبعی چیز نہیں ہے بلکہ صرف اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ہمیں کائنات سے متعلق اپنے ماڈلز کو مزید بہتر بنانے کی ضرورت ہے
اب آتے ہیں بگ بینگ کی طرف- جب ہم کہکشاؤں کا مشاہدہ کرتے ہیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ تقریباً تمام کہکشائیں نہ صرف ہم سے دور جا رہی ہیں بلکہ جو کہکشاں ہم سے جتنی زیادہ دور ہیں اتنی ہی تیزی سے وہ ہم سے دور جا رہی ہیں- سائنس دانوں کے مطابق اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ یہ کہکشائیں سپیس میں تیزی سے حرکت کر رہی ہیں- یہ کہکشائیں اپنی مقامی سپیس میں کم و بیش ساکن ہیں لیکن کہکشاؤں کے درمیان سپیس پھیل رہی ہے
اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ مستقبل میں یہ کہکشائیں ہم سے اور دور ہو جائیں گی اور ماضی میں یہ کہکشائیں ہم سے قریب تھیں- اگر آپ ان کہکشاؤں کی فرضی فلم کو ماضی کی طرف چلائیں تو آپ دیکھیں گے کہ ماضی میں ایک وقت ایسا تھا جب یہ تمام کہکشائیں ایک ہی جگہ پر مرکوز تھیں اور اس جگہ کا درجہ حرارت بے حد زیادہ تھا، اس قدر زیادہ کہ اس درجہ حرارت پر نہ تو ایٹم قائم رہ سکتے ہیں اور نہ ہی ایٹم کو بنانے والے بنیادی ذرات- بادی النظر میں یوں محسوس ہوتا ہے کہ واقعی کائنات کا آغاز ایک نقطے سے ہوا جسے سائنس دان بگ بینگ سنگولیریٹی کہتے ہیں
لیکن اس بیان میں کچھ سقم نظر آتے ہیں- اگر کائنات واقعی ایک نقطے پر مرکوز تھی اور اس کا درجہ حرارت اس قدر بلند تھا تو بگ بینگ کے بعد (یعنی اب) کائنات کے مختلف حصوں میں درجہ حرارت مختلف ہونا چاہیے- بگ بینگ کے بعد مقامی طور پر مختلف جگہوں پر پھیلاؤ کی شرح عین ایک سی نہیں ہو سکتی- اس لیے مقامی طور پر مختلف جگہوں پر درجہ حرارت کے گرنے کی شرح مختلف ہونی چاہیے یعنی کائنات کا موجودہ درجہ حرارت مختلف مقامات پر مختلف ہونا چاہیے- لیکن جب ہم کائنات میں مختلف سمتوں میں دیکھتے ہیں تو ہر جگہ کائنات کا درجہ حرارت عین ایک سا ہی ہے اور مختلف مقامات پر درجہ حرارت کی variations اتنی کم ہیں کہ ایک فیصد کے ایک فیصد کا بھی تیسرا حصہ ہیں یعنی تیس ہزار میں ایک حصہ- اگر بگ بینگ کا آغاز ایک نقطے سے ہوا تو درجہ حرارت میں ان variations کو اس سے ہزاروں گنا زیادہ ہونا چاہیے-
اس کے علاوہ ایک نقطے (یعنی سنگولیریٹی) سے آغاز ہونے والی کائنات کے بارے میں بہت سی دوسری پیش گوئیاں بھی مشاہدات سے درست ثابت نہیں ہوتیں- اس نظریے کی ایک پیش گوئی مقناطیسی مونوپولز کی موجودگی ہے جو ابھی تک دریافت نہیں ہو پائے- اسی طرح بہت سے دوسرے ہائی انرجی مظاہر کا ابھی تک ان کا کوئی سراغ نہیں ملا جن کی پیش گوئی کی گئی تھی – اس کا ایک مطلب یہ ہو سکتا ہے کہ کائنات کے آغاز میں سنگولیریٹی کے وجود کا نظریہ مکمل طور پر درست نہیں ہے- یہ عین ممکن ہے کہ ہماری کائنات کا درجہ حرارت بگ بینگ کے وقت لامنتہا نہیں تھا-
اس بات کا امکان زیادہ ہے کہ بگ بینگ کے وقت کائنات بہت بلند لیکن ایک مستحکم یعنی stable درجہ حرارت پر تھی یعنی بگ بینگ کے وقت کائنات کا درجہ حرارت لامنتہا (infinite) نہیں تھا- 1980 کی دہائی میں انفلیشن کا مفروضہ پیش کیا گیا جو ان مسائل کو بخوبی حل کرتا ہے جو پرانے بگ بینگ ماڈل میں پائے جاتے ہیں اور جن کا ذکر اوپر کیا گیا- انفلیشن کے مفروضے کی رو سے بگ بینگ کے وقت کائنات کی کوئی حد نہیں تھی (یعنی کائنات کی تمام سپیس ایک نقطے پر مرکوز نہیں تھی)- کائنات بے حد بلند درجہ حرارت پر ہونے کے علاوہ بے حد کثیف تھی، اس میں بے حد توانائی موجود تھی اور یہ تیزی سے پھیل رہی تھی- یہ توانائی سپیس میں ہر جگہ یکساں موجود تھی جس کی وجہ سے کائنات انتہائی تیزی سے یعنی exponentially پھیل رہی تھی- یہ اس انتہائی تیز پھیلاؤ کا نتیجہ تھا کہ ہمارے نکتہ نظر سے قابل مشاہدہ کائنات میں بہت کم fluctuations ہیں- یہ ایسا ہی ہے جیسے کسی ربر کو بہت زیادہ کھینچا جائے تو اس میں موجود تمام جھول، سلوٹیں وغیرہ 'غائب' ہو جاتی ہیں اور وہ ہر جگہ ایک سا ہی نظر آنے لگتا ہے
یہ اس exponential پھیلاؤ یعنی انفیلیشن کا نتیجہ تھا کہ سپیس میں موجود انرجی ریڈی ایشن یعنی شعاعوں کی شکل اختیار کر گئی اور بہت جلد اس توانائی سے مادی پارٹیکلز وجود میں آ گئے- اس عمل کو ہم بگ بینگ کہتے ہیں- گویا بگ بینگ اس inflationary پھیلاؤ کے خاتمے کا نام ہے جس کے نتیجے میں سپیس کی توانائی شعاعوں کی شکل میں خارج ہوئی اور پھر مادی پارٹیکلز میں تبدیل ہو گئی- دوسرے لفظوں میں، ہم جس کائنات کا مشاہدہ کر رہے ہیں وہ کسی singularity سے پیدا نہیں ہوئی بلکہ اس exponential پھیلاؤ کے خاتمے کے نتیجے میں پیدا ہوئی-
یہی وجہ ہے کہ ہم جب موجودہ کائنات کی 'فلم' کو ماضی کی طرف چلاتے ہیں تو ہم t=0 تک یعنی بالکل کائنات کے آغاز کے وقت تک نہیں پہنچ پاتے بلکہ انفلیشن تک ہی پہنچ پاتے ہیں اور انفلیشن کے آخری (10)⁻³³ سیکنڈ سے پہلے نہیں جا پاتے- انفلیشن کا آغاز اس وقفے سے کتنی دیر پہلے ہوا اس بارے میں ہم اصولاً بھی کچھ نہیں کہہ سکتے- یہ ممکن ہے کہ انفلیشن (10)⁻³³ سیکنڈ میں ہی ہوا ہو- یہ بھی ممکن ہے کہ انفلیشن اس سے کچھ ہی دیر پہلے شروع ہوا ہو- یہ بھی ممکن ہے کہ یہ انفلیشن بگ بینگ سے سالوں، صدیوں یا اربوں سال پہلے سے جاری ہو- لیکن ہم اس بارے میں کوئی انفارمیشن حاصل نہیں کر سکتے کیونکہ انفلیشن کی سرعت کی وجہ سے وہ تمام انفارمیشن اب ضائع ہو چکی ہے- ہم یہ انفارمیشن اب کبھی حاصل نہیں کر پائیں گے
اس انفلیشن کا آغاز کیونکر ہوا؟ اس بارے میں فی الحال ہم کچھ نہیں کہہ سکتے- تاہم یہ بات اب ہم یقین کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ کائنات کا آغاز سنگولیریٹٰی سے نہیں ہوا- سنگولیریٹٰی صرف کائنات کے اس ریاضیاتی ماڈل میں پیدا ہوتی ہے جو نظریہ اضافت کی مدد سے تشکیل دیا گیا ہے کیونکہ نظریہ اضافت کی مساوات انفلیشن کو ماڈل نہیں کرتی- ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ اگر بالفرض بگ بینگ کے وقت کسی بھی قسم کی سنگولیریٹی موجود تھی تو وہ سنگولیریٹی اصولاً انفلیشن پیدا کرنے سے قاصر ہے- چونکہ ہم جانتے ہیں کہ انفلیشن میں ہر پلانک انٹرول میں قابل مشاہدہ کائنات کا سائز دگنا ہو رہا تھا، اس لیے ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ اگر ہم کائنات کے پہلے (10)⁻³³ سیکنڈ سے پیچھے جانا شروع کریں تو ہر پلانک انٹرول کے بعد کائنات کا سائز آدھا ہو رہا تھا- اس پچھے کی طرف چلتے پراسیس کا نتیجہ بتدریج چھوٹی سے چھوٹی تر کائنات ہو گا لیکن کسی بھی مرحلے پر یہ پراسیس کوئی سنگولیریٹی پیدا نہیں کرے گا
یہ انفلیشن کس طرح سے شروع ہوا؟ اس بارے میں ہمیں قطعی کوئی علم نہیں ہے- ہم وہ قوانین نہیں جانتے جو کائنات میں اس وقت موجود تھے- البتہ ہم یہ ضرور جانتے ہیں کہ اگل کائنات کا آغاز انفلیشن سے ہوا تو اس کا لازمی نتیجہ یہ ہو گا کہ کائنات کے ماضی میں کبھی کوئی سنگولیریٹی نہیں رہی
اوریجنل آرٹیکل کا لنک