بی بی جھلی !
بی بی جھلی کی کڑھائی والے کرتے اور قمیضیں بچپن سے ہی ہمارے لئے تحفتا آتے رہے ہیں,ہماری چچی جان ان سے کشیدہ کاری کروا کر ہمارے لئے کسی آنے جانے والے کے ہاتھوں بھجوانا نہ بھولتیں,ہاتھ کی کڑھائی جس سلیقے سے بی بی جھلی کرتیں ہم سے سب ہی پوچھتے یہ ہینڈ ایمبرائیڈری کہاں سے کروائی,رنگوں کے حسین امتزاج کا ہنر رکھنے والی بی بی بالکل ان پڑھ تھیں,انتہائی کم گو لیکن ان کا فن بولتا ہے.جب تک ہم بی بی سے ملے نہیں تھے تو اکثر جب چچی جان کہتیں میں نے تمھارے لئے فلاں کلر کی شرٹ بی بی جھلی کو کڑھائی کرنے کے لئے دی ہے,کبھی کہتیں تمھارے ڈوپٹے کی بیل بنا رہی ہے بی بی جھلی,تو میں سوچتی کہ ان کا نام بی بی جھلی کیوں ہے,میں نے امی سے بھی کئ بار پوچھا وہ کہتیں مجھے بھی نہیں پتہ.بس سب انہیں اسی نام سے بلاتے ہیں,ہم جب بھی گاؤں گئے اتنا کم ٹائم لے کر گئے کہ اکثر اپنے بہت سے رشتےداروں سے مل کر نہ آسکے,بعد میں وہ لوگ ناراض ہوتے,بڑے لوگ ہونے کے طعنے دیتے.یہ ان کی محبت اور خلوص ہے کہ وہ مہمان نوازی سے نہیں گھبراتے.اس عید پر ہم گئے تو پہلے سے ہی میرے لئے بی بی کے ہاتھ کا سفید اور گلابی تار کشی کا سوٹ تیار تھا.میں نے سوچا کہ اس بار تو میں بی بی کو دیکھ کر ہی جاوُں گی.میں نے باتوں باتوں میں چچی جان سے بی بی کے بارے میں پوچھا,تو وہ کہنے لگیں کہ وہ یہاں سے کچھ فاصلے پر رہتی ہیں,کڑھائی کرتی ہیں,اسی سے ان کی گزر بسر ہوتی ہے,ہم نے تو شروع سے ہی ان کا نام بی بی جھلی سنا ہے,اور اسی نام سے پکارتے ہیں,
تو کیا وہ واقعی پاگل ہیں,جو ان کو سب اس نام سے پکارتے ہیں?
کہہ سکتے ہیں,چچی جان نے کہا.کیونکہ وہ مجذوب سی ہیں,
لیکن اگر وہ Mentally retarded ہیں توپھر وہ اتنا خوبصورت اور منفرد کام کیسے کرلیتی ہیں,میں نے ان کی بات کاٹتے ہوئے کہا,
یہی تو ہم بھی سوچتے ہیں,چچی بولیں,
کیا آپ مجھے ان کے گھر لے جا سکتی ہیں,میرے اصرار پر وہ خود تو مصروفيات سے جان چُھڑا کر نہ آسکیں لیکن انہوں نے اپنی امی کو میرے ساتھ بھیج دیا,ہم گلیوں میں سے چلتے چلتے ایک لوہے کی چادر سے بنے دروازے پر پہنچے جہاں ٹاٹ کا پردہ لٹک رہا تھا,وہاں ڈور بیل تو نہیں ہوتی نہ ہی ویاں دستک دے کر آنے کا رواج ہے.دروازے کھلے رہتے ہیں,اور عزت ومال محفوظ ریتے ہیں,ہر شخص دوسرے گھر کا محافظ ہوتا ہے.خیر ہم کچے صحن سے گزر کر آگے چلے گئے.دو کمروں کا کچا پکا گھر تھا,برامدے میں اس گھر کی مقیم دو تین عورتیں بیٹھیں تھیں,انہی میں سے ایک بی بی جھلی بھی تھیں,دبلی پتلی لمبی سی,اچھی شکل و صورت مگر سر کا اگلے حصے پر بہت کم بال جہان سے سفیدخشکی جھانک رہی تھی. شاید بالخورے کی بیماری کی وجہ سے بال اڑگئے تھے,وہ لکڑی کے گول فریم پر جارجٹ کا سفید ڈوپٹہ لگائے زمین پر بچھی ایک بدرنگ سی دری پر بیٹھی کڑھائی کر رہی تھیں,سوئی میں رنگ دار دھاگا تھا جسے وہ سر سے اوپر لے جاتیں پھر اپنےکندھے سے گھما کر سوئی نیچے لاتیں,اور نیا ٹانکا اٹھاتیں,ان کے ہاتھ کپکپاتے لیکن سوئی پر اُن کی گرفت مظبوط رہتی ,مسلسل نظر ایک جگہ جمانے سے سے ان کی نظر کمزور پڑ گئی تھی کیو نکہ ان کی آنکھ سے پانی نکل کر ان کی گردن میں جذب ہورہا تھا,وہ دنیا جہاں سے بے خبر اپنے کام میں منہک تھیں,باقی خواتین سے ہمارے ساتھ آئی ہوئی ہماری رشتے کی نانی فاطمہ نے تعارف کروایا,وہ سب بہت محبت سے پیش آییں,بچے کو بھگا کر فورا کوکا کولا منگوا لی کہ آپ لوگ اسلام آباد والے لسی تو پیتے نہیں ہو نگے,نانی جان نے ان کو بتایا کہ ارم کو بی بی جھلی کے کڑھائی شدہ کپڑے بھیجتے رہے ہیں اسے بہت پسند آئے ہیں,وہ اسپیشلی بی بی جھلی سے ملنے آئی ہے,وہ عورتیں ہنسنے لگیں کہ لو مل لو,بی بی جھلی تو کسی سے بات تک نہیں کرتی بس کڑھائی اور مصلہ.اذان ہوتی جائے سب کچھ چھوڑ کر نماز پڑھتی ہے,یا پھر کڑھائی کرتی رہتی ہیں,دوسری بولی کھانا دے دو تو بی بی جھلی کھا لیتی ہے نہیں تو سارا دن بھوکی پیاسی بیٹھی رہے گی,جب تک ہماری ساس زندہ تھی اس کو پکا کر کھلاتی رہی.اب ہم روٹی پانی کر دیتے ہیں اسکا.کڑھائی کے پیسوں سے پرویز منیاری والے سے دھاگے لے آتی ہے,اور لگی رہتی ہے.ہاہاہاہا
وہ پاس ہی بیٹھی تھیں اور مجھے بہت بُرا لگ رہا رھا تھاکہ وہ ان کے منہ پر انہیں جھلی جھلی کہہ کر بلا رہی ہیں,خیر پہلے تو وہ سمجھیں کہ شاید میرا کوئی بوتیک ہے اور اس سلسلے میں میں آئی ہوں,لیکن جیسے ہی قریبی مسجد میں سے ظہر کی اذان کا کلمہ بلند ہوا بی بی نے پاس رکھے لفافے میں فریم میں کسا ڈوپٹہ ڈالا,ریشمی دھاگوں کی رنگ برنگی گُھچیاں اندر ڈالیں,اور اپنا سامان سمیٹ کر چارہائی کے نیچے کردیا,سر پر میلا سا ڈوپٹہ کھول کر لپیٹا اور خاموشی سے اٹھ کر باہر چلی گئ,ان کے جانے کے بعد میں نے انہیں بتایا کہ میں کافی عرصہ سے ان کا نام سُن رہی ہوں,اور ان کے بارے میں جاننا چاہتی ہوں,ایک لڑکی جو پڑھی لکھی تھی پوچھنے لگی آپ NGO والی باجی ہیں,میں نے کہا نہیں میں لکھتی ہوں,پھر ان تینوں نے مل کر .مجھے بتایا کہ بی بی جان کا نام نزیراں بی بی تھا.قران پاک پڑھی ہوئی اور کڑھائی میں طاق,بہت سگھڑاور خوبصورت لڑکی تھی,گاوُں کے ایک لڑکے سے پسند کی منگنی ہوئی.وہ بھی زمیندار اور خوبصورت جوان تھا,شادی کا سامان بھی آچکا تھا.دونوں بہت خوش تھے کہ ایک رات کھیت سے پانی لگا کر واپسی پر اس لڑکے کو باولے کتے نے کاٹ لیا,دیہات تھا,علاج معالجے کی نہ سہولت تھی اور نہ ہی توفیق, ماں باپ گھر میں ہی شہد اور سرخ مرچوں کالیپ لگاتے رہے.کچھ دنوں بعد Rabbies کی علامات شروع ہو گیئں,سنبھالنا مشکل ہو گیا,کمرے میں بند کر کے تالا لگا دیا,ایک ڈاکٹر کو بلا کر لائے اس نے بے ہوش کر کےچیک کیا تو بتایا اندر بہت سے پِلے بن گئے ہیں,ہوش آتے ہی ایسے غرایٹیں نکالتا کہ اللہ پناہ,کوئی پاس نہ جاتا,بی بی بھی ماں کے ساتھ منگیتر کو دیکھنے گئ,آنکھ سے آنکھ نہ ملی .اصغر تو ہوش و حواس سے بیگانہ تھا,اپنا پیار کیا اپنا آپ بھول گیا,روتی ہوئی بی بی کو ماں گھر لے آئی ,پھر کہتے ہیں کہ اصغر کے ماں باپ نے اس کے اوپر نیلی سیاہی ملا پانی ڈال دیا اور وہ مرگیا یا پھر یہ بھی سُنا ہے کہ تنگ آکر زہر کا ٹیکہ لگوادیا,اصغرکے مرتے ہی بی بی کتے کے کاٹے بغیر پاگلوں کی طرح ہوگئ,ساری جوانی پاگلوں کی طرح گزار دی,نہ نہاتی نہ کنگھی کرتی,نہ کسی سے بولتی.کوئی رشتہ لے کر آتا تو پاگلوں جیسی آوازیں نکالنے لگتی.انہیں پتھر مارتی.بس پھر لوگ اسے بی بی جھلی کہہ کر بلانے لگے,لیکن سچی بات تو یہ ہے کہ باجی بی بی مکر کرتی تھیں .تاکہ ساری عمر شادی نہ ہو.ماں باپ بیٹی کے غم سے مر گئے.اور بی بی جھلی ہی بنی رہی.اور دھاگوں سے کھیلتی رہی.
بی بی کے گھر سے نکلتے ہوئے میری نظر ان پر پڑی وہ جُھک کر کھجور کے پتوں سے بنی جائے نمازاٹھا رہی تھیں,لوگوں کو رنگ برنگے پھول کشیدہ کر کے پہنانے والی بی بی کے میلے سفید ڈوپٹے پر نہ کوئی پھول تھا اور نہ ہی زندگی میں کوئی رنگ,واپسی کا سفر بہت لمبا ہوگیا تھا,دکھ مجھے تھکا دیتے ہیں,
ارم ملک
نوٹ !
(بی بی کی کہانی لکھنامجھ پر قرض تھا.لیکن میرے اندر لکھنے کی ہمت نہیں تھی,آج بھی نم آنکھوں سے لکھی ہے,کئ بار سلسلہ ٹوٹا ہے,بی بی کا بے رنگ چہرہ آنکھوں کے سامنے آجاتا تھا.ماڈلز پر,سلیبرٹیز پر,فیشن پر,موسم پرسیاست پر لوگ بہت لکھتے رہتے ہیں,مجھے میری دوستوں نے کہا ہیلری اور ٹرمپ پر لکھو,لیکن میرا دل نہیں مانا,کبھی ان لوگوں پر بھی لکھو جن پر کوئی نہیں لکھتا,حالانکہ وہ ایک مکمل داستان ہوتے ہیں, )
https://www.facebook.com/errum.malik.5/posts/184977748619406
“