اکثر پاکستانی یہ بحث کرتے ہوئے پائے جاتے ہیں کہ ذولفقار علی بھٹّو نے صنعتوں کو قومیانے (nationalization ) کی جو پالیسی اپنائی تھی کیا وہ ملک کے لیے مفید تھی یا نہیں۔ لیکن اس سلسلے میں جب بھی گفتگو ہوتے سُنی وہ اعداد و شمار کے بغیر صرف جذباتیت تک محدود رہتی تھی۔ پہلی بار یوسف نذر صاحب نے اس حوالے سے اعداد و شمار پیش کیے ہیں۔ اُن کے خیال میں نیشنلائزیشن اُس وقت کا تقاضا تھی۔ وہ لکھتے ہیں کہ اُس وقت اُٹھائے گئے اقدامات کو اُس وقت کی صورتحال کے تناظر میں دیکھنا چاہیے۔ وہ لکھتے ہیں کہ سقوطِ ڈھاکہ کے بعد کئی اہم سربراہانِ مملکت کو باقی ماندہ پاکستان کے ٹوٹنے کا خدشہ تھا۔ اس کے علاوہ سرمائے کی اُڑان (capital flight) کا شدید خطرہ تھا۔ بڑی برآمدات (جوٹ وغیرہ) پاکستان کے ہاتھ سے نکل گئیں تھیں۔ یہ وہ وجوہات تھیں جو ریاست سے معیشت کی بحالی کے لیے غیر معمولی اقدامات کا تقاضہ کرتے تھے۔
یوسف نذر صاحب لکھتے ہیں کہ بھاری صنعتوں کو قومیانے میں کوئی غلط بات نہیں تھی۔ جو صنعتیں قومیائی گئی تھیں وہ 1972 میں تقریباً کل صنعتوں کا 20 فیصد تھیں۔ 1972 کے بعد، ریاست نے سیمنٹ اور کھاد کی صنعت میں بہت زیادہ سرمایہ کاری کی- اس فیصلہ نے بعد میں اعلی اقتصادی ترقی میں کلیدی کردار ادا کیا۔
پاکستانی صنعتکار بنیادی طور پر rent seekers ہیں اور وہ اب بھی rent seeking کر کے اور رئیل اسٹیٹ میں سرمایہ کاری کر کے ترقی کی منازل طے کر رہے ہیں اور بھٹو پر الزام لگاتے ہیں جنہیں 46 سال پہلے ہٹا دیا گیا تھا۔ نیشنلائزیشن پر تبصرہ کرنے والے زیادہ تر لوگ 5 منٹ تک بیان بازی سے ہٹ کر کسی ٹھوس تفصیل پر بات نہیں کر سکیں گے۔ بھٹو مسائل کے باوجود کامیاب ہو جاتے اگر انہیں ہٹا کر پھانسی نہ دی جاتی۔ انہیں 49 سال کی عمر میں ہٹا دیا گیا اور 51 سال کی عمر میں پھانسی دے دی گئی۔ 1970 کی دہائی میں قومیائی گئی صنعتوں نے ترقی کی۔ جو تباہی بعد میں ہوئی اُس کے ذمّہ داری بھٹو پر نہیں ہے۔
تمام نیشنلائزڈ صنعتوں کی سیلز 73-1972 میں 1,428 ملین روپے سے بڑھ کر 74 -1973 میں 2,349 ملین روپے تک پہنچ گئی تھی جو %64 سے زیادہ کا اضافہ تھا۔ 1969/70 کی مستقل قیمت کی سطح پر، معیشت نے دیکھا کہ انڈسٹری میں کل پبلک سیکٹر کی سرمایہ کاری کا حصہ جو 1972/3 میں%12.6 تھا تیزی سے بڑھ کر 1974/5 میں %60.2 ہو گیا۔ 1972/3 میں برآمدات میں پچھلے سال کے مقابلے میں 153 فیصد اضافہ ہوا، اور 1973/4 میں تیار شدہ برآمدات میں 19 فیصد اضافہ ہوا۔ برآمدات میں یہ اضافہ، جو کہ 1972/3 سے 1973/4 کے دوران 8,551 ملّین روپے سے بڑھ کر 10,161 ملّین روپے ہو گیا، 1972 اور 1974 کے درمیان صنعتی پیداوار میں اضافے کا ایک اہم عنصر تھا۔ بھٹو کے پانچ سالہ دور حکومت میں مجموعی GDP کی شرحنمو %4.8 تھی جو پاکستان ٹوٹنے کے بعد قابل ذکر تھی اور یہ اسکے باوجود ہوا کہ 1973/74 میں تیل کی قیمتوں میں 4.5 گنا اضافہ ہوا (جو اُس وقت تک کا سب سے بڑا اضافہ تھا) اور یہ قیمتیں بلند ہی رہیں اس کے علاوہ پاکستان 1973 اور 1976 میں شدید سیلاب کی زد میں آیا۔ بھٹّو کے دورِ حکومت کے پہلے دو سالوں 1972/73 میں GDP میں +%7.4 کااضافہ ہوا جو پاکستان کی 1971 کے بعد کی تاریخ میں کسی بھی حکومت سے بہتر ہے۔ 1973 کے تیل کے بحران اور دو بدترین سیلابوں نے بعد کے سالوں میں بڑا اثر ڈالا۔ پچھلی صدی کا بدترین تیل کا بحران بھٹو کے دور میں ہوا۔ 1972 اور 1976 کے درمیان تیل کی قیمتوں میں 5 گنا اضافہ ہوا، $2.48 فی بیرل سے $12.80۔ اس نے ایک بدترین سیلاب کا بھی سامنا کیا۔ پھر بھی 1971/72کے جنگی سال کو چھوڑ کر، اوسط 6.1 فیصد تھی۔
امریکی ڈالر کے لحاظ سے پاکستان کی فی کس جی ڈی پی 1971 کی جنگ، روپے کی قدر میں کمی اور تیل کے بحران کے بعد 1972/73 میں متاثر ہوئی لیکن پھر اس نے 1969 کی سطح کو عبور کر لیا:
1969 149.38
1970 168.86
1971 173.71
1972 148.35
1973 97.98
1974 132.01
1975 165.69
1976 188.84
1977 207.48
1978 236.64
1972 میں قبضے میں لیے گئے اداروں کے کل اثاثے 1,910 ملین روپے کے تھے جن کے کل واجبات 1,420 ملین روپے تھیں جس کی وجہ سے اُن کی مجموعی مالیت تقریباً 490 ملین روپے رہ گئی تھی۔ 1975/6 میں نیشنلائزڈ یونٹوں نے کارپوریٹ ٹیکس، سیلز ٹیکس، ایکسائز ڈیوٹی اور دیگر ٹیکسوں کی مد میں کل 133 کروڑ روپے ادا کیے جب کہ 1974/5 میں 121 کروڑ روپے، 1973/4 میں 66 کروڑ روپے، اور 1972/3 میں 39 کروڑ روپے تھے، جبکہ قومیائے جانے سے پہلے ادا کی گئی ٹیکس کیرقم 20 کروڑ روپے سے کم تھی۔
فصلی سال 1970/71 کے لیے گندم کی پیداوار جو 1971/72کے دوران استعمال کے لیے دستیاب تھی، ضرورت سے کم تھی۔ یہ جنوری 1972 میں ہی تھا کہ امریکی حکومت نے PL-480 کے تحت 0.3 ملین ٹن گندم (جسے بعد میں بڑھا کر 0.5 ملین ٹن کر دیا گیا) فراہم کرنے پر آمادگی ظاہر کی، اور خریدی گئی تقریباً 0.1 ملین ٹن گندم بھی CCC کریڈٹ کے تحت امریکہ سےمنتقلی پر بھی اتفاق کیا۔ بھٹو کی حکومت کے ساڑھے پانچ سالوں میں گندم کی پیداوار 1971/72میں 6782 ہزار ٹن سے بڑھ کر 1976/77میں 9144 ہزار ٹن ہو گئی۔ فی ایکڑ پیداوار بھی 12.9 من سے بڑھ کر 15.4 من ہو گئی۔
NY Times جنوری 29، 1976 کو لکھتا ہے “گزشتہ دو سالوں میں کھاد کی پیداوار تقریباً دوگنی ہو گئی ہے۔ کچھ علاقوں میں فصلوں کی پیداوار میں اضافہ، اور نصف ملین ایکڑ کھیتی کی زمین کو دوبارہ تقسیم کیا گیا ہے۔ حکومت نے بزرگوں کے لیے پنشن کا منصوبہ بھی متعارف کرایا ہے اور زمین پر لگنے والے ٹیکس، جو اگرچہ چھوٹا تھا، کو ختم کر دیا ہے۔ یہ ٹیکس کسانوں کے لیے دردِ سر اور جمع کرنے والے سرکاری اہلکاروں کے لیے بدعنوانی کا ذریعہ تھا۔حقیقی اقتصادی ترقی کے ساتھ شاید 5 فیصد سالانہ تک پہنچ جائے، جو کہ دنیا کے اس حصے کے لیے اچھا ہے، بین الاقوامی ماہرین اقتصادیات عام طور پر وزیر اعظم بھٹو کی جنگ کے بعد کی (معیشت کی) بحالی سے خوش ہیں۔”
بھٹو کی سب سے کم تزکرہ کی گئی کامیابیوں میں سے ایک تربیلا ڈیم کی تعمیر ہے۔ اس منصوبے کا آغاز مئی 1968 میں ایّوب خان کے دور میں ہوا تھا۔ مارچ 1969 میں ایوب کو ہٹا دیا گیا۔ پھر دسمبر 1971 میں بھٹو کے اقتدار سنبھالنے تک اس منصوبے میں بہت کم یا کوئی پیش رفت نہیں ہوئی اور یہ منصوبہ بھٹّو کے دورِ حکومت میں 1976 میں مکمل ہوا۔
یوسف نذر صاحب مزید لکھتے ہیں کہ یہ انتہائی شرمناک ہے کہ حکمران طبقوں کی طرف سے دہائیوں سے تاریخی حقائق کو کس طرح مسخ کیا گیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ اُنھوں نے صرف اخبارات میں ہی نہیں بلکہ انتہائی متعصب لوگوں یا اسٹیبلشمنٹ کے وفاداروں کی لکھی ہوئی کتابوں میں بھی بالکل بے معنی باتیں پڑھی ہیں۔ ایک مثال تعلیی اداروں کے قومیائے جانے کی کی دی جاتی ہے۔ اس میں اصل مجرم ضیاء تھا جس نے دفاعی اخراجات کو جی ڈی پی کے 6 فیصد سے زیادہ کر دیا، ترقیاتی اخراجات کو 3 فیصد اور تعلیم کو 1 فیصد سے کم کر دیا۔ اُس کے دور میں مدارس کو فروغ دیا گیا۔ یہ نیشنلائزیشن نہیں بلکہ 1977 کے بعد کی سنگین غفلت اور اسٹیبلشمنٹ کی مسلسل مداخلت ہے جس نے تعلیمی معیار کے گرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ 2010 میں 18ویں ترمیم آنے سے پہلے ہی ان کا معیار گرنا شروع ہو گیا تھا لیکن اس وقت تک پوری گورننس تباہ ہو چکی تھی-
ایک دلچسپ حقیقت: 1972 میں 31 یونٹس کی کل ایکویٹی 490 ملین روپے تھی۔ 1972/77 کے دوران صرف سیمنٹ کے شعبے میں سرکاری شعبے کی کل سرمایہ کاری سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور چین سے 450 ملین ڈالر تھی۔ “معیشت کی تباہی” کے بارے میں پراسرار اور جذباتی قہقہے اس حقیقت کو نظر انداز کرتے ہیں کہ پبلک سیکٹر کی سرمایہ کاری نے نجی شعبے کے یونٹوں کے حجم کو کم کر دیا اور ضیا کے عہد کے لیے مضبوط ترقی کی بنیاد رکھی۔
وہ مزید لکھتے ہیں کہ “میں 22 خاندانوں میں سے کچھ کو جانتا ہوں اور ان سے ملا ہوں.. بہت سے mediocre rent seekers ہیں جنہوں نے بونس واؤچر سکیم کے ذریعے دوہرے فارن ایکسچینج ریٹ کا فائدہ اٹھایا جسے بھٹو نے آ کے ختم کر دیا اور ایک فارن ایکسچینج ریٹ متعارف کرایا۔ 40 سال کے بعد، ٹیکسٹائل کی بڑی بڑی ملیں اب بھی زیادہ تر سوت، تولیے، بیڈ شیٹس اور اس طرح کی بنیادی مصنوعات تیار کر رہے ہیں۔ آٹو انڈسٹری ایکسپورٹ کرنے کے قابل نہیں ہے لیکن پاکستانی صارفین کی جیبیں صاف کر رہی ہے۔
1970 کی دہائی میں صنعتی سرمایہ کاری ڈرامائی طور پر بڑھی – اور اس کی قیادت پبلک سیکٹر نے کی۔
ایسا لگتا ہے کہ 1972 میں ہیوی انڈسٹری کو قومیانے کے بارے میں میرے تبصروں نے بھٹو سے مستقل نفرت کرنے والے کچھ لوگوں کو ایک جنون میں مبتلا کر دیا ہے جس میں حقائق کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ یہ دلیل کہ معیشت تباہ ہو گئی تھی اس کا مطلب یہ ہے کہ دیرپا نقصان تھا۔ اگر ایسا ہے تو، 1978-1988 کے دوران فی کس جی ڈی پی کی شرح نمو (مستقل $ شرائط میں) %2.88 کیسے ہوئی؟ اور عالمی بینک کے اعداد و شمار کے مطابق، بھٹو سالوں کے دوران 2.22 فیصد۔ اور ایسا مشرقی پاکستان کے نقصان، 1973/76 کے دوران تیل کی قیمت میں پانچ گنا اضافے اور دو بدترین سیلابوں کے باوجود ہوا تھا۔ پاکستان کی برآمدات 1972 میں 591 ملین ڈالر اور 1973 میں 817 ملین ڈالر تھیں جبکہ اگلے سال یہ 1 بلین ڈالر سے تجاوز کر گئیں۔ اب آئیے ان ہیوی انجینئرنگ یونٹس کے حقائق پر نظر ڈالتے ہیں جن پر قبضہ کیا گیا تھا۔ 1972 میں 31 صنعتی یونٹس میں سے چھ چھوٹے سیمنٹ پلانٹس تھے۔ دو غیر ملکی ملکیتی فرٹیلائزر کے پلانٹ، جو Exxon اور Darwood-Hercules کے تھے، کو قومی نہیں بنایا گیا تھا۔ بھٹو نے پاکستان کے روشن ترین اور کامیاب سرمایہ داروں میں سے ایک سید بابر علی کو نیشنل فرٹیلائزر کارپوریشن (این ایف سی) کا سربراہ مقرر کیا۔ 1971 کے آخر میں پاکستان اب بھی اپنی ضرورت کی 50 فیصد سے زیادہ کھاد درآمد کر رہا تھا۔ این ایف سی نے کھاد کے شعبے میں 450 ملین ڈالر کی غیر ملکی سرمایہ کاری کو راغب کیا۔ [NY Times جولائی 31، 1977]۔
ڈاکٹر عشرت حسین نے اپنی کتاب کے صفحہ 66 پر بھٹّو کے دور میں معاشی کارکردگی کے بارے میں لکھا: ’’یہ ایک ایسا دور تھا جس کے دوران خارجی جھٹکے (تیل کی قیمت، سیلاب) نے بھی معیشت کو غیر مستحکم نہیں کیا۔‘‘
ڈاکٹر عشرت نے ضیاء کے سالوں کے بارے میں اپنی کتاب “گورننگ دی غیرگورن ایبل” کے صفحہ 68 پر مزید لکھا: “اگرچہ اس دور میں معاشی کارکردگی متاثر کن تھی، لیکن یہ کسی بنیادی یا ادارہ جاتی اصلاحات کی وجہ سے نہیں تھی۔ پاکستان کو اس کی پیداوار سے فائدہ ہوا۔ 1970 کی دہائی میں سرکاری شعبے کی بڑی سرمایہ کاری کا سلسلہ شروع ہوا، ان میں سب سے اہم تربیلا ڈیم ہے جس نے کھاد اور سیمنٹ کی فیکٹریوں کے قیام کے ساتھ آبپاشی کے لیے پانی کی دستیابی اور ہائیڈل پاور کی صلاحیت میں خاطر خواہ اضافہ کیا۔” 1980 کی دہائی میں مضبوط جی ڈی پی نمو کی حقیقت اس زہریلے اور بے بنیاد پروپیگنڈے کو جھٹلاتی ہے کہ معیشت تباہ ہو گئی تھی۔
یہ تمام اعداد و شمار جو اوپر بیان کیے گئے ہیں ان سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ بھٹّو کے دور میںمعیشت “تباہ” نہیں ہوئی تھی۔ اور ایسا 1971 کی جنگ کے بعد کرنسی کی قدر میں 60 فیصد کمی، تیل کی قیمتوں میں اُس وقت تک کے سب سے زیادہ فیصد اضافہ (1973-76 کے درمیان 5 گنا سے زیادہ اضافہ ہوا) اور پاکستان کی تاریخ کے دو بدترین سیلاب کے باوجود ہوا۔
یوسف نذر صاحب سے جب پوچھا گیا کہ کیا آج وہ نیشنلائزیشن کی حمایت کریں گے جس پر اُنھوں نے کہا نہیں۔ بھٹّو کے دور میں کی گئی نیشنلائزیشن کو اُس وقت کے پسِ منظر میں دیکھنا بہت ضروری ہے۔
قارئین یوسف نذر صاحب نے بھٹّو کے صنعتوں کے قومیائے جانے کے عمل کی حمایت صرف سُنی سُنائی باتوں کی بنیاد پر نہیں بلکہ اعداد و شمار پیش کرکے کی ہے اور یہ بھی کہا ہے کہ نیشنلائزیشن اُس وقت کی ضرورت تھی، آج کے دور میں وہ بھی اس عمل کی حمایت نہیں کریں گے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کوئی اُن کی باتوں کے جواب میں ایسے اعداد شمار پیش کرتا ہے جو اُن کے موقف کو غلط ثابت کردے۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...