بھٹو کی پھانسی ۔
کل ۴ اپریل کے حوالے سے سوشل میڈیا ، پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر اس موضوع پر بہت باز گشت سنی گئ ۔ جس چیز سے میں بہت حیران ہوا کہ کسی ایک اخبار ، شخص یا چینل نے اسے جیوڈیشل مرڈر کہنے میں تو کوئ کثر نہیں چھوڑی ، لیکن کسی نے بھی اسی قانون کے مطابق مزید پھانسیوں کا تقاضا کیوں نہیں کیا ؟ قانون تو نہیں بدلا؟
بھٹو کے کیس میں ہاں بین الاقوامی اصولوں کے مطابق ۲ عدد زیادتیاں ضرور ہوئیں تھیں ، ایک benefit of doubt ہمیشہ accuse کو جاتا ہے بھٹو کے کیس میں ان کو نہیں گیا ، دوسرا accomplice کی شہادت کوئ اور independent source سے corroborate ہونی بھی ضروری ہوتی ہے جو بھٹو کے کیس میں نہیں ہوئ تھی ۔ لیکن بہر کیف conspiracy قتل کی تو ثابت ہوئ تھی ۔ جس میں جنرل کے ججوں نے بھٹو کو سولی پر چڑھا دیا ۔
میرا آج کے بلاگ سے یہ گوش گزار کروانا ہے کہ یہ قانون وہیں قائم ہے ۔ conspiracy اور accomplices کے ثبوت ہی اصل مجرمان کی نشاندہی کرتے ہیں ۔ وہی بتاتے ہیں کہ اصل میں یہ قتل کس نے کروائے اور کیوں ؟
آج نواز شریف ، زرداری اور شہباز شریف کیوں بھٹو کی پھانسی کو جیوڈیشل مرڈر کہ رہے ہیں ۔ شریف برادران تو جب کہ ضیاء کی ناجائز پیدائش بھی ہیں جنہوں نے بھٹو کو پھانسی دی ۔
آج زرا لائیں عابد باکسر اور راؤ انوار کو میدان میں ، اسی قانون کے تحت جائز طور پر اگر شہباز شریف ، زرداری ، ملک ریاض ، کچھ فوجی لوگ اور بیشتر کاروباری لوگ ، بابو حضرات تختہ دار پر نہ لٹکائے جائیں تو میرا نام بدل دیں ۔ مجھے پراسیکیوٹر بنائیں ۔ کر لوں گا خواجہ حارث کا مقابلہ ۔ ہر کیس میں conspiracy کا عنصر بھی ہے ، accomplice ہونا بھی ثابت ہوتا ہے اور آزادانہ گواہیاں تو اتنی زیادہ ہیں وعدہ معاف گواہ بنانے کی بھی ضرورت نہیں ۔
شروعات زرا نواز شریف کے جنرل آصف نواز کے قتل سے کریں ۔ اور پھر لائیں اسے ڈپٹی کمشنر گوجرانوالہ کے حالیہ قتل پر۔ ہزاروں لوگ لپیٹ میں آئیں گے ۔
ہمارے ملک کا المیہ یہ ہے کہ نہ ہماری ترجیحات درست ہیں ، نہ قبلہ کی سمت صیحیح ۔ ہر ادارہ ایشوز کو اپنے فائدے کے لیے exploit کرتا ہے ۔ راحیل شریف نے کہا بجائے اس کہ نئے الیکشن کرائے جائیں ‘سانوں کی’ اپنی تھانیداری جماؤ ۔ تمام کے تمام اقدامات selective ہیں ۔ آج کیوں ثاقب نثار کو اتنی شدید تنقید کا سامنا ہے کیونکہ وہ بھی کسی حد تک selective انصاف دے رہے ہیں ۔ شرجیل میمن تو ٹرائل کے دوران گرفتار ہے نواز شریف کیوں نہیں ؟ راؤ انوار اور عابد باکسر سے ابھی تک کیوں نہیں پوچھ گچھ ہو رہی ۔ شہباز شریف کس کھاتے میں آرمی چیف سے مل رہا ہے ؟
مجھے افسوس اس بات پر ہوتا ہے کہ دنیا بدل رہی ہے ۔ اپنے گناہوں سے توبہ طائف ہو رہی ہے اور ہم پھر وہی غلطیاں دہرا رہے ہیں ۔ ہیرو بننے کی کوششیں ، اور ۲۲ کروڑ عوام کے ساتھ دن دیہاڑے ظلم اور زیادتی ۔ بہت دکھ ہوتا ہے ۔ اب تو سوشل میڈیا اتنا بڑا ہتھیار ہے عوام کو ایسے نہیں ہونے دینا چاہئے ۔
جناب ایک بیچارہ بھٹو تو اقتدار کے چکر میں سُولی چڑھ گیا ، اس کے بعد تو ہزاروں لوگ سو فیصد مکمل طور پر اس طرح کے جرائم میں ملوث تھے ، ان کا کیا بنا ؟ ان پر ہاتھ کیوں نہیں ڈالا گیا ؟ کیا قانون بدل گیا ہے ؟ قوم کو اس کے جواب چاہییں چیف جسٹس صاحب ؟
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔