بھٹو اور ختم نبوت۔
۔۔۔۔۔
ضیاء کے آنے کے بعد اتنا جھوٹ لکھا اور بولا گیا ہے کہ یہ جھوٹ لوگوں کے ایمان کا حصہ بن چکا ہے۔
جہاں تک قرارداد مقاصد کا تعلق ہے ، مولویوں کی کوشش کے باوجود بھٹو نے اسے آئین کا حصہ نہیں بنایا تھا۔ اسے ضیاء نے آٹھویں ترمیم کے ذریعے جونیجو اور نواز شریف والی اسمبلی سے پاس کروا کے آئین کا حصہ بنایا۔ موجودہ اسلامی آئین نواز اینڈ کمپنی کی دین ہے ۔ تہتر کا آئین ہر گز اسلامی نہیں تھا۔
مئی جون چوہتر میں ملتان نشتر کالج کے جماعتیوں نے چناب ایکسپریس کے ذریعے پنڈی جاتے ہوئے ربوہ سٹیشن پر چند احمدیوں سے بدمعاشی کی اور انہیں حوریں لانے کا کہا مگر وہ خاموشی سے نکل گئے۔ انہوں نے جاکر کمیونٹی میں بات کی تو احمدیوں نے پلان بنایا کہ جب یہ لوگ پنڈی سے ملتان واپس جائیں گے تو ان کی خبر لی جائے گی۔ چنانچہ پنڈی سے واپسی پر جب ٹرین ربوہ سٹیشن پر رکی تو احمدی نوجوانوں نے ان جماعتیوں پر ہلا بول دیا اور خوب پٹائی کی۔ اگلے دن جماعت اسلامی نے افواہ پھیلا دی کہ احمدیوں نے ربوہ سٹیشن طالب علموں( جماعتیوں) پربلا اشتعال حملہ کردیا اور تشدد کے ساتھ ساتھ ان کے اعضاء خبیثہ کاٹ کر انہیں حوروں کے قابل نہیں چھوڑا۔ چنانچہ جماعت اسلامی نے اپنی تاجر برادری کو استعمال کرتے ہوئے ہڑتال کی کال دے دی ۔ چند دنوں میں ہڑتال خونی رخ اختیار کر گئی اور گوجرانوالہ آگ کی لپیٹ میں آگیا احمدیوں کی دو سو سے زیادہ دکانیں جلا دی گئیں۔ بندے بھی مرے اور ساتھ ہی قادیانیوں کے سوشل بائیکاٹ کی کال بھی دے دی جس پر کئی شہروں میں عمل ہونا بھی شروع ہوگیا یعنی قادیانی نا کچھ خرید سکتے تھے اور نا ہی بیچ سکتے تھے خوراک کا حصول بھی مشکل ہوگیا۔۔ اس کے بعد اپوزیشن نےختم نبوت والی آئینی ترمیم کا بل پیش کردیا مگر بھٹو نے کئی روز تک بل ٹیبل نہیں ہونے دیا۔ اس پر چوہدری ظہور الٰہی نے دھمکی دی کہ اگر بل ٹیبل نہ ہونے دیا گیا تو پورے ملک میں پہیہ جام ہڑتال کی کال دی جائے گی ۔ یہ جون چوہتر کے آخری ایام تھے۔ ایجنسیوں کی اطلاع کے مطابق پہیہ جام یقینی تھا تو سپیکر نے بل کو ٹیبل کرنے کی اجازت دے دی۔ بل ٹیبل ہوتے ہی پورے ہاؤس کو سٹینڈنگ کمیٹی میں تبدیل کرکے ساری کاروائی کو ان کیمرا کردیا گیا ۔
جب بل پر ووٹ کا موقع آیا تو بھٹو نے پارٹی وہپ کو استعمال نہیں کیا اور سب ممبران کو اجازت دی کہ اپنی مرضی اور ضمیر کے مطابق فیصلہ کریں جس کا سیدھا سا مطلب تھآٓ کہ بل پاس نہ ہو۔ مگر کئی دنوں کی چخ چخ کے بعد سپیکر نے احمدی خلیفہ سے براہ راست سوال کیا کیا وہ وہ ان مسلمانوں کو جوکہ مرزا کی نبوت پر ایمان نہیں لاتے انہیں مسلمان سمجھتے ہیں یاکہ نہیں مگر خلیفہ نے تکرار کے ساتھ جواب دیاکہ ایسے لوگ مسلمان نہیں۔ جس کے بعد اسمبلی میں بیٹھے اتھیسٹ ممبران نے بھی قادیانیوں کو اقلیت قرار دینے کے حق میں ووٹ دے دیا ۔
بل پاس ہوگیا مگر بات یہیں ختم نہیں ہوئی بلکہ حزب اختلاف کی طرف سے جداگانہ انتخاب کا مطالبہ آگیا جس کی وکالت مفتی محمود کررہے تھے ۔ بھٹو نے اس مطالبے کو یہ کہ کر رد کرنے کی کوشش کی کہ جب احمدی مخصوص نشستوں کا مطالبہ نہیں کر رہے تو اس سلسلے میں قانون سازی کی کیا ضرورت ہے۔ اس پر مفتی محمود نے موقف اختیار کیا کہ احمدیوں کو تو خوش ہونا چاہئے کہ انہیں بن مانگے ان کا حق مل رہا ہے۔
نوے سالہ مسئلہ حل کرنے والی خبر اس قضیے کا آخری دن نہیں تھا بلکہ جداگانہ انتخاب کا مسئلہ کئی دن تک چلتا رہا اور آخر کار مفتی صاحب کا دل رکھنے کے لئے ایک ڈھیلی ڈھالی قانون سازی کردی گئی جس کا احمدیوں کوانتخاب میں کوئی خاص فرق نہیں پڑا تھا۔ کیونکہ اس میں قانونی سقم تھا۔
ضیاء کی مجلس شوریٰ میں احسن اقبال کی والدہ آپا نثار فاطمہ نے مرحومہ عاصمہ جہانگیر کے ساتھ ایک جھگڑے کے بعد اس قانونی سقم کی طرف ضیاء کی توجہ دلائی جس کے بعد پینل کوڈ میں قادیانیوں کے بارے میں خصوصی دفعات شامل کی گئیں اور انہیں انتخابی قوانین کا حصہ بھی بنایا گیا۔
اس سارے قضئیے میں کچھ باتیں خاصی اہم ہیں جنہیں نظر انداز کردیا جاتا ہے۔اور بھٹو کو گالیوں سے نوازا جاتا ہے۔
ا۔ قادیانیوں کو اقلیت قرار دینے کا آئینی بل حزب مخالف کی طرف سے آیا تھا نا کہ بھٹو کی طرف سے ۔
ب۔ یہ بل پوری اسمبلی اور سینیٹ سے متفقہ طور پر منظور ہوا تھا اور کسی ایک ممبر نے بھی بل کی مخالفت نہیں کی تھی ۔ جب کہ اسمبلی میں اتھیسٹ بھی موجود تھے ۔ ان اتھیسٹ حضرات کا ختم نبوت سے کیا لینا دینا تھا؟۔جب کہ بھٹو کی طرف سے ان پر پارٹی وہپ بھی مسلط نہیں کیا گیا تھا۔
پ۔ یہ بل آئین میں طے کئے گئے بنیادی اصولوں کے خلاف تھا جس کی وجہ سے سپریم کورٹ اسے ردی کی ٹوکری میں پھینک دیتی ۔ مگر احمدیوں نے اسے سپریم کورٹ میں چیلنج کیوں نہیں کیا؟
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“