اونٹنی پر دو تھیلے تھے‘ ایک میں ستو تھے‘ دوسرے میں کھجوریں۔ سامنے پانی سے بھرا مشکیزہ تھا اور پیچھے ایک برتن۔ مسلمانوں کی ایک جماعت ساتھ تھی‘ روزانہ صبح آپ برتن بیچ میں رکھ دیتے اور سب آپکے ساتھ کھانا کھاتے۔ پیشانی سے اوپر کا حصہ دھوپ میں چمک رہا تھا‘ سر پر ٹوپی تھی‘ نہ عمامہ‘ اونٹ کی پیٹھ پر اونی کمبل تھا جو قیام کی حالت میں بستر کا کام بھی دیتا تھا۔ خورجین میں کھجور کی چھال بھری تھی‘ اسے ضرورت کے وقت تکیہ بنا لیا جاتا تھا۔ نمدے کا بوسیدہ کُرتا پہنے تھے اس میں چودہ پیوند تھے اور پہلو سے پھٹا ہوا تھا۔
یہ تھی وہ حالت جس میں عمر فاروق اعظم بیت المقدس میں داخل ہوئے جہاں مخالفین ہتھیار ڈال چکے تھے اور اب وہ معاہدہ کرنے آئے تھے جس کی رو سے یہ عظیم الشان شہر مسلمانوں کی سلطنت میں شامل ہونا تھا۔
آپ نے مفتوح قوم کے سردار کو بلایا‘ اس کا نام جلومس تھا‘ ارشاد فرمایا‘ میرا کرتا دھو کر سی لاﺅ اور مجھے تھوڑی دیر کیلئے کوئی کپڑا یا قمیص دے دو۔
جلومس نے عرض کیا‘ ”آپ عرب کے بادشاہ ہیں‘ اس ملک میں آپ کا اونٹ پر جانا زیب نہیں دیتا‘ اگر آپ دوسرا لباس پہن لیں اور ترکی گھوڑے پر سوار ہو جائیں تو رومیوں کی نگاہ میں عظمت بڑھے گی۔“ جواب دیا۔ ”خدا نے ہمیں جو عزت دی ہے‘ اسلام کی وجہ سے ہے‘ اسکے سوا ہمیں کچھ نہیں چاہیے“۔
ابن کثیر نے طارق بن شہاب کی ایک روایت بھی نقل کی ہے‘ ان کا بیان ہے‘ ”جب حضرت عمر شام پہنچے تو ایک جگہ رستے میں پانی رکاوٹ بن گیا۔ آپ اونٹنی سے اترے‘ موزے اتار کر ہاتھ میں لئے اور اونٹنی کو ساتھ لے کر پانی میں اتر گئے۔ حضرت ابوعبیدہؓ نے کہا‘ آپ نے آج وہ کام کیا جس کی اہل زمین کے نزدیک بڑی عظمت ہے۔ فاروق اعظم نے انکے سینے پر ہاتھ مارا اور فرمایا‘ ”ابوعبیدہؓ! کوئی اور کہتا تو کہتا‘ یہ بات تمہارے کہنے کی نہ تھی۔ تم دنیا میں سب سے زیادہ حقیر‘ سب سے زیادہ ذلیل اور سب سے زیادہ قلیل تھے‘ اللہ نے تمہیں اسلام سے عزت دی‘ جب بھی تم اللہ کے سوا کسی سے عزت طلب کرو گے‘ اللہ تمہیں ذلیل کریگا۔“
لیکن لطیفہ یہ ہے کہ جب بھی ان ہستیوں کی مثال دی جاتی ہے تو کہا جاتا ہے کہ یہ تو صحابہ تھے‘ یہ تو خلفائے راشدین تھے‘ یہ تو عمر بن عبدالعزیز تھے‘ تو پھر شان و شوکت پر مرنے والے لوگ کیا یہ چاہتے ہیں کہ ہم چنگیز خان اور قیصر یا کسریٰ کی مثالیں دیں؟ کیا ہم عیاش زندگی گزارنے والے ان کیڑے مکوڑوں کو ان بادشاہوں کا سبق پڑھائیں جو بات بات پر کھالیں کھنچواتے تھے؟ کیا ان کا آئیڈیل بنوامیہ کے وہ لالچی لوگ ہیں جنہوں نے عمر بن عبدالعزیز کو زہر دے دیا تھا؟
دماغ کے بجائے بھوسے کے بے وزن تنکے ہیں‘ ان لوگوں کے سروں میں جو عمران خان سے تبدیلی کی توقع کر رہے ہیں‘ تمام قومی اخبارات میں جو خبر چھپی ہے‘ کیا اسکے بعد بھی شک کی کوئی گنجائش رہ گئی ہے؟
”تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان خصوصی طیارے میں سفر کرتے ہیں جو انکی پارٹی کے رہنماءجہانگیر ترین کی شوگر ملوں کی ملکیت ہے۔ جہانگیر ترین نے رابطہ کرنے پر تصدیق کی ہے کہ عمران خان ملک کے اندر انکی کمپنی کے جہاز میں سفر کرتے ہیں تاہم جب وہ یہ جہاز استعمال کرتے ہیں تو میں اپنی جیب سے چارجز ادا کرتا ہوں۔اس کی تصدیق میرے ذاتی اکائونٹ اور کمپنی کے اکائونٹ سے کی جا سکتی ہے۔""۔
خبر کا مضحکہ خیز حصہ وہ ہے جس میں تحریک انصاف کے سیکرٹری اطلاعات نے پوچھا ہے کہ اس طرح سفر کرنے میں حرج ہی کیا ہے؟ نوکر شاہی کا ایک سابق اہلکار اس سے زیادہ سوچ بھی کیا سکتا ہے۔
جہانگیر ترین نے اب تک اپنے لیڈر کے سفر پر کتنا روپیہ اپنے ذاتی اکائونٹ سے خرچ کیا ہے؟اس کا پتہ اُس وقت چلے گا جب جہانگیر ترین پارٹی سے الگ ہوں گے یعنی جب اُن کی کوئی بات نہیں مانی جائے گی
مجھے معلوم ہے کہ میں بھڑوں کے چھتے میں ہاتھ ڈال رہا ہوں لیکن اس وحشت ناک خبر سے کچھ نتیجے تو واضح طور پر نکل رہے ہیں۔ پہلا یہ کہ ضرور کوئی مجبوری ہے جس کی وجہ سے عمران خان عام فلائٹ میں سفر کرنے سے قاصر ہیں۔ یہ مجبوری اتنی شدید ہے کہ عمران خان ایک امیر شخص کا احسان اپنے کاندھوں پر لینے کےلئے تیار ہیں۔ دوسرا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ عمران خان اتنے قلاش ہیں کہ چارجز اپنی جیب سے ادا نہیں کر سکتے۔ اب یہ تو نہیں ہو سکتا کہ ایک نیازی پٹھان استطاعت رکھنے کے باوجود کسی کا احسان لے؟ تیسرا یہ کہ مفادات کا ٹکراﺅ
conflict of interests
ایک ایسی چڑیا کا نام ہے جس سے تبدیلی لانے والا لیڈر یکسر ناواقف ہے۔ آخر آنکھ میں پانی بھی تو ہوتا ہے! کل پارٹی کے اس امیر رکن کی توقع (یا مطالبہ) کس طرح رد کیا جا سکے گا جو لاکھوں روپے اپنے لیڈر کے سفر پر خرچ کر رہا ہے۔
کیا خو ب کہ اس میں حرج ہی کیا ہے؟ حرج اور تو کوئی نہیں حضور! صرف یہ حرج ہے کہ جو شخص خصوصی طیارے کے بغیر سفر نہیں کر سکتا‘ خواہ اس کیلئے احسان کا جئوا ہی کندھوں پر کیوں نہ رکھنا پڑے‘ وہ تبدیلی کیا لائے گا؟ سوال حرج کا نہیں‘ نہ ہی جائز یا ناجائز کا ہے‘ سوال مائنڈ سیٹ کا ہے۔ جیسا مائند سیٹ ہو گا ویسا ہی کارنامہ سرزد ہو گا۔ لیڈر کا طرز عمل مثالی ہوتا ہے‘ اسے سو میں سے ساٹھ یا 70 نمبر لینے ہوتے ہیں۔ 33 نہیں۔ تحریک انصاف کے سیکرٹری اطلاعات نے ابوحنیفہ کا نام سنا ہو گا‘ اگر نہیں تو کسی سے پوچھ لیں۔ امام کپڑا دھو رہے تھے اور دھوئے جا رہے تھے۔ کسی نے پوچھا حضرت! آپ نے تو فقہ کے حساب سے فتویٰ دیا ہے کہ تین دفعہ دھونے سے کپڑا پاک ہو جاتا ہے‘ پھر مسلسل دھوئے جا رہے ہیں؟ فرمایا! وہ فتویٰ تھا‘ یہ تقویٰ ہے۔ لیڈر کے ایک ایک عمل سے سینکڑوں ہزاروں لاکھوں کروڑوں لوگوں کا طرز عمل متاثر ہوتا ہے۔ حرج؟ دریوزہ گری‘ ذاتی آرام و آسائش کیلئے امراءکے زیر بار ہونا‘ کیا اس میں کوئی حرج نہیں؟
قرض کی پیتے تھے مے لیکن سمجھتے تھے کہ ہاں
رنگ لائے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن
خیر…. یہ تو قرض بھی نہیں‘ یہ تو احسان ہے‘ تادم تحریر امیر شخص نے یہ نہیں کہا کہ وہ یہ سارا خرچ قرض پر کر رہا ہے۔
خدا کے بندو! عزت اس میں نہیں کہ تم یوسف رضا گیلانی کی طرح لاکھوں روپے کا سوٹ پہنو یا شریف برادران کی طرح اربوں کھربوں روپے کے حیرت انگیز محلات میں رہو اور پنجاب پولیس کے سینکڑوں سپاہی پہرے پر کھڑے کرو یا بُگتی سرداروں کی طرح کئی کئی سو کلاشنکوف بردار ساتھ لئے پھرو یا عمران خان کی طرح عوام سے روپوش ہو کر خصوصی جہاز میں سفر کرو‘ ایک پورے جہاز میں صرف ایک شخص!
عزت اس میں ہے کہ تم مملکت خداداد کے عوام کے رہنماءہو‘ لاکھوں لوگ تمہیں لیڈر مانتے ہیں‘ کیا یہ عزت تمہارے لئے کافی نہ تھی؟ معزز بننے کیلئے رائے ونڈ یا سرے کے محلات ضروری نہیں ہوتے‘ نہ خصوصی جہاز۔ تم سے تو وہ احمدی نژاد بہتر ہے جو پرانے مکان میں رہتا ہے‘ گھر سے لائے ہوئے سوکھے سینڈوچ کھاتا ہے اور جس نے ایوان صدر کی قیمتی قالینیں مسجد میں بھجوا دی ہیں۔ تم سے تو وہ من موہن سنگھ بہتر ہے جس کے پاس کپڑوں کے گنے چنے چند جوڑے ہیں جس کے گھر میں فیکس مشین تک نہیں اور جس کی بیٹی سہیلی کو سبق کے نوٹس فیکس کرنے کیلئے بازار جاتی ہے۔ دماغ کے بجائے بھوسے کے بے وزن تنکے ہیں‘ ان سادہ لوحوں کے سروں میں‘ جو ایسے لیڈروں سے تبدیلی کی توقع رکھتے ہیں۔ سوال حرج کا نہیں‘ سوال مائنڈ سیٹ کا ہے!