وار فکشن پر زیر طبع کتاب [ ' سرحد کے آس پاس کہیں ۔ ۔ ۔ ' اور دیگر افسانے ] سے افسانہ
بمبار طیاروں سے جی کھول کر’ و۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘ پر گولے برسائے گئے ۔ اگلے روز ، پہاڑوں اور وادی کی بستیوں پر فوجی دستوں نے یلغار کی ۔ جو زندہ بچ گئے تھے ، جو مر رہے تھے اور جو زخمی تھے ، سب ان کی زد میں آ گئے ۔ ان کے ہاتھوں میں پکڑے سفید جھنڈے بھی ان کے کام نہ آئے ؛ ان کی چیخ و پکار اور درد سے بلکتی آوازیں خاموش کر دی گئیں ۔ فوجیوں نے سب کو پاگل کتے جانا اور انہیں مار دیا ۔ پالتو جانور ، کتے ، بلیاں ، کھیتوں میں کھڑی بالیاں اورجنگل کے ناتواں درخت بھی ان کی گولیوں سے چھلنی ہو گئے ۔
بچ پائے تو صرف وہ جو اس علاقے سے پہلے ہی نکل ، مہاجر ہو کر ایک پہاڑی کھوہ میں جا چھپے تھے ۔ ان کے کپڑے راستے میں چیتھڑے بن چکے تھے ۔ ان کے چہروں پر کھرونچیں ، جسموں پر زخم اور پیروں میں آبلے تھے ۔ ان کے پاس، پینے کے لئے جو تھوڑا بہت پانی تھا ، وہ آلودہ تھا ۔ اس کی وجہ سے سب پیچش کا شکار ہوئے اور کوئی بھی مرد ، عورت یا بچہ اپنے چیتھڑوں پر موجود بھورے زرد داغوں کی ہزیمت سے بچ نہیں پایا ۔ موت کے خوف سے ہر کوئی رو رہا تھا یہاں تک کہ ان میں موجود قبائلی’ بڑے‘ بھی اپنا رونا روک نہ پائے ۔ اس بات کو جانتے ہوئے بھی کہ کسی بھی جہاز کا گرایا فقط ایک بم اس پہاڑی کھوہ کو ملیامیٹ کر سکتا تھا ، وہ سب بھیڑ بکریوں کی طرح اس میں ٹُھنسے زندگی کی آس لگائے بیٹھے تھے ۔ بموں اور مارٹر گولوں کے دھماکوں کی آواز ان کے رونے اور چیخ و پکار پرحاوی تھی ۔
شمال مغرب کی طرف سے آئے بادلوں نے آناً فاً آسمان سیاہ کر دیا اور سورج کو یوں ہڑپ کر لیا جیسے آتشیں بموں کے شعلے بستیاں کھا جاتے ہیں ۔ اِدھر یخ ہوا کھوہ میں داخل ہوئی اُدھر گھنے بادلوں نے تیز بارش برسانی شروع کی ۔ بچے اور عورتیں بارش کو دیکھ کر بے قابو ہونے لگیں کہ اس سے اپنی پیاس بجھا سکیں لیکن ’ بڑوں‘ نے انہیں قابو میں رکھا ؛ بارش کے اولین قطرے جہاں بھی گرتے ، وہاں زمین ابلنے لگتی ؛ وہ بارہا، کئییوں کو فاسفورس ، گندھک اور زہریلا دھواں ملی ایسی بارش میں جھسلتے اور پھر تڑپ تڑپ کر مرتا دیکھ چکے تھے ۔ انہوں نے گھنٹہ بھر بارش کو برسنے دیا اور پھر سب ایک ایک کرکے کھوہ سے باہرنکلے اور بارش میں کھڑے ہو کر آسمان میں پھیلے سیاہ بادلوں کی طرف دیکھنے لگے۔ ان کے منہ یوں کھلے تھے جیسے بہت سی کیفیں بارش کے پانی کے لئے وا کر دی گئی ہوں ۔ بارش نے نہ صرف ان کے آنسو دھوئے بلکہ ان کے کپڑوں سے وہ بدبودار گند بھی صاف کر دیا جو پیچش نے پھیلا رکھا تھا ۔ کچھ دیر میں بارش نے ان کی پیاس بجھا دی لیکن وہ پھر بھی ، منہ کھولے ، بُت بنے اپنی اپنی جگہوں پر کھڑے رہے جیسے اونٹ پانی کواپنے جسموں میں ذخیرہ کر رہے ہوں ۔ دور سے دیکھنے پر وہ ’ کن شی ہوانگ ‘ کی ٹیراکوٹا فوج کا ایک دستہ لگتے تھے ۔
فوجی دستے اپنی یلغار سے پلٹے اور ان کے پاس سے گزرے ؛ انہیں بت جان کر وہ ان کے جسموں پر اپنے خنجروں سے اپنے نام اور تاریخ ر قم کرتے رہے ۔ خنجروں کی نوکیں ان کے جسموں میں کھبتی رہیں لیکن خون کا ایک قطرہ بھی باہر نہ نکلا ۔
جنگ جاری رہی ۔ پہاڑی کھوہ کے اس جتھے کے علاوہ اور بھی جگہوں پر ایسے ہی کئی اور جتھے سورج ، آندھی ، بارش ، طوفان اور برف میں بت بنے کھڑے تھے ؛ ان پر بھی فوجیوں کے نام اور تاریخ کندہ ہوتی رہی ۔
’۔ ۔ ۔ آپریشن ‘ سالوں چلتا رہا اور جب ہیڈکوارٹر میں بیٹھے جرنیلوں کو تسلی ہو گئی کہ ان کا آپریشن کامیاب رہا تھا تو انہوں نے اپنے بمبار طیارے اور فوجی واپس بلا لیے ۔ تب مہاجروں کے جتھے جہاں جہاں بھی بت بنے کھڑے تھے ، نیند سے یوں جاگے جیسے اصحاب الکہف جاگے تھے ۔ وہ بھوتوں کی طرح ہر طرف بڑھنے لگے ۔
اس علاقے کے اطراف میں جتنے ملک تھے ، ان کے ہیڈ کواٹروں میں کھلبلی مچ گئی۔ پہلے جہاں ایک ملک کی فوج اس علاقے میں ’ ۔ ۔ ۔ آپریشن ‘ کر رہی تھی ، اب دیگر ممالک نے بھی اسی طرح کے آپریشنوں کی منصوبہ بندی کی تاکہ وہ بھوتوں کی اس فوج کے بڑھتے قدم روک سکیں ۔ #