یہ الفاظ مشہورِ زمانہ کمیونسٹ مینی فیسٹو کے آغاز میں کارل مارکس نے استعمال کئے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ یورپ پر ایک بھوت منڈلا رہا ہے، کمیونزم کا بھوت، جسے سارے پوپ اور زار مل کر بھی اتار نہیں سکتے۔
کم وبیش یہی الفاظ پرسوں پوپ فرانسس نے ایک ہسپانوی اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے استعمال کئے کہ پوری دنیا پر ایک بھوت منڈلا رہا ہے، پاپولزم کا بھوت۔
انہوں نے یہ انٹرویو اس وقت دیا جب امریکہ میں ڈونلڈ ٹرمپ صدر کی حثیت سے حلف اٹھا رہے تھے۔
انہوں نے کہا کہ نئے امریکی رہنما کے بارے میں کوئی فیصلہ دینا ابھی قبل از وقت ہوگا۔ انھوں نے کہا: ’دیکھتے ہیں کہ ٹرمپ کیا کرتے ہیں۔‘
جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا انھیں یورپ اور امریکہ میں پاپولزم یا عوامیت پسندی میں اضافے پر کوئی تشویش ہے تو انھوں نے کہا: ’’بحران سے خوف اور خطرے پیدا ہوتے ہیں۔ میرے خیال میں یورپی پاپولزم کی سب سے واضح مثال سنہ 1933 کے جرمنی کی ہے۔
جرمنی ٹوٹ چکا تھا۔ اسے اٹھنے کی ضرورت تھی تاکہ وہ اپنی شناخت تلاش کر سکے۔ اسے کسی ایسے رہنما کی ضرورت تھی جو اس کے وقار کو بحال کرسکے اور پھر ایسے میں اڈولف ہٹلر نامی ایک شخص ابھرتا ہے جو کہتا ہے میں کر سکتا ہوں، میں کر سکتا ہوں۔
اور سارا جرمنی ہٹلر کو ووٹ دیتا ہے۔ ہٹلر نے اقتدار کو چوری سے حاصل نہیں کیا۔ اس کے ملک کی عوام نے اسے ووٹ دیا اور پھر اس نے اپنے لوگوں کو برباد کر دیا۔‘‘
لیکن مسٹر ٹرمپ کے بارے میں پوپ نے کہا: ’انتظار کریں اور دیکھیں۔‘ (بی بی سی)
عزت مآب پوپ کے ساتھ ہمارے پاس بھی ’انتظار‘ کے علاوہ کوئی چارہ نہیں لیکن بھوت ہے کہ کمرے کی ہر الماری سے ’’بھوؤ، بھوؤ‘‘ کر رہا ہے۔
ایک کے بعد دوسرے ملک میں آہستہ آہستہ ایسے آدمی اقتدار میں آ رہے ہیں جو اپنے اڑیل ہیروازم کے پرچار کے بعد ’’کسی کو خاطر میں نہیں لاتے۔ سب کو اپنے جوتے کی نوک پر رکھتے ہیں۔‘‘ مثلاً روس میں پیوٹن، ترکی میں اردوگان، پولینڈ میں یاروسواف کاٹنسکی (Jarosław Kaczyński)، ہنگری میں وکٹور اوربان (Victor Orbán) اور کل کے بعدامریکہ میں ڈونالڈ ٹرمپ بھی ۔
عالمی سطح پر ایسے اور بھی بہت نمونے ہیں جو کئی دوسرے ممالک میں اقتدار کے لئے پر تول رہے ہیں۔ فرانس، ہالینڈ اور جرمنی میں بھی ایسے قیصر اور سلطان ابھر رہے ہیں جن کا نعرہ ان نعروں سے مختلف نہیں کہ مثلاً امریکہ کی شان و شوکت بحال ہو گی، روس کا حلقہِ اثر پھر سے وسیع ہو گا۔ اور ترکی کیوں پیچھے رہے؛ سلطنتِ عثمانیہ کی بحالی میں کیا حرج ہے؟
ان ’’مردانِ آہن ‘‘ کا قومی ترانہ پرانے جاہ و جلال اور عظمتِ رفتہ کی بحالی ہے۔ اپنی گم شدہ پرشکوہ سلطنتوں کی بحالی ان کا نعرہ ہے۔ اور ’’عوام کی بے پناہ محبت اور پرزور اصرار پر‘‘ وہ مجبوراً خود شہنشاہ، سلطان یا اس کے مساوی کوئی درجہ قبول کرنے کو تیار ہیں۔
معروضی حقائق اور اعداد و شمار ان مقاصد کی تکمیل کو دیوانے کا خواب قرار دیں تو کیا فرق پڑتا ہے، ان کی اپنی سلطنت میں ان کے نام کا سکہ تو رائج ہو گا ہی اور یہی ان کا مقصد ہے۔
لیکن جو داؤ پر لگا ہوا ہے وہ انسانیت کی قیمتی ترین حاصلات ہیں۔ فرد کی بنیادی آزادیوں، انسانی حقوق اور قانون کی حکمرانی کا دفاع نہیں کیا جائے گا تو یہ زیانِ عظیم ہوگا۔ انسانی حقوق کے بین الاقوامی کنونشن اور ادارے ایک دوسرے کے لئے بنیادی آزادیوں اور قانون کی حکمرانی کے نفاذ کی خاطر دنیا بھر میں بنائے جاتے ہیں ۔ انہیں تشکیل کرنے میں انسانیت نے آگ اور خون کے سمندر عبور کئے ہیں، لیکن ان کو چٹکی میں مسمار کرنا بہت آسان اور بسرعت ہو سکتا ہے ۔
یہ ایک المناک حقیقت ہے کہ اس وقت دنیا میں پاپولزم کا بول بولا ہو رہا ہے۔ پاکستان اور بھارت میں بھی اس کے پرتو ڈھونڈنے کے لئے کوئی ’’چشمِ بینا‘‘ رکھنے کی شرط نہیں ہے۔ لیکن ہر وقت اور ہر جگہ کی طرح میری چھوٹی سی زندگی میں بھی عقل و خرد کا دامن تھامے رکھنا آج اتنا ہی دشوار مگر لازم ہے جیسا کل تھا۔ ■
https://www.facebook.com/shamoon.saleem/posts/1218214768233175