بھوک کے خلاف جنگ،مگر کیسے ؟
اس تہذیب یافتہ ،ترقی یافتہ اور سائنسی دنیا میں ہر سال ایک تہائی تیار شدہ خوراک ،یعنی 13ملین ٹن خوراک جس کی مجموعی مالیت ایک کھرب ڈالرز ہے،ضائع ہوجاتی ہے ۔۔۔عالمی رپورٹ کے مطابق اس 13 ملین ٹن خوراک سے 87 کروڑ افراد کی بھوک مٹائی جاسکتی ہے ۔۔۔۔تیار شدہ خوراک میں سب سے زیادہ پھل ،سبزیاں ضائع کی جاتی ہیں ۔۔جس میں سے اسی فیصد اناج ہے۔۔اس کے علاوہ بیس فیصد گوشت اور ڈیری مصنوعات کوڑے میں چلی جاتی ہے ۔۔۔یہ کھانا جو ہر سال ضائع ہوجاتا ہے ،زمین سے جو فصل تیار کی جاتی ہے ،اس سے پیدا ہوتا ہے ۔۔۔دنیا کا جتنا بھی رقبہ اس وقت زیر کاشت ہے ،اس کے اٹھائیس فیصد حصے پر جو اجناس اگ رہی ہیں ،وہ ضائع ہورہی ہیں ۔۔۔مطلب اٹھائیس فیصد رقبے پر جو اجناس اگتی ہیں ،وہ انسانی پیٹ میں جاتی ہی نہیں ،بلکہ کوڑے دانوں کا حصہ بنتی ہے ۔۔۔اس ضائع شدہ کھانے سے گرین ہاوسز گیسز پیدا ہوتی ہیں جو ماحولیاتی تباہی کا سبب ہے ۔۔۔امریکہ اور چین کے بعد یہ ضائع شدہ خوراک ماحولیاتی آلودگی کا سبب ہے۔۔۔۔پاکستان عالمی ہنگر انڈیکس میں 118ممالک کی فہرست میں 107 ویں نمبر پر ہے۔۔۔پاکستان کی ساٹھ فیصد آبادی فوڈ ان سیکیورٹی کا شکار ہے یعنی خوراک کی کمی کا شکار ہے ۔۔اس دنیا میں ہر گھنٹے میں 720 بچے بھوک سے مرجاتے ہیں ۔۔۔پاکستان ان ممالک کی لسٹ میں شامل ہے جو فوڈ سرپلس ممالک کہلاتے ہیں یعنی جہاں بہت زیادہ خوراک تیار ہورہی ہے ۔۔۔اس کا مطلب ہے خوراک تو پاکستان میں بہت زیادہ تعداد میں تیار ہورہی ہے ،جو تمام پاکستانیوں کی بھوک مٹا سکتی ہے ،لیکن ڈسٹری بیوشن کا مسئلہ ہے ۔۔۔عالمی ادارہ خوراک کی دو ہزار سترہ کی رپورٹ کے مطابق اس جدید دنیا میں 90 کروڑ انسان ہر روز رات کو بھوکے سوتے ہیں،اس وقت اس دنیا کی آبادی 8 ارب ہے ،ہر آٹھواں انسان بھوکا سو جاتا ہے۔دو ہزار سترہ کی عالمی ادارہ خوران کی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ ہر سال اس دنیا میں سات سے آٹھ ارب ڈالرز کا کھانا ضائع ہوتا ہے۔مثال کے طور پر اگر سو کلو کھانا بنتا ہے تو اس میں سے 33 کلو کھانا پھینک دیا جاتا ہے۔یہ خوراک ضائع کردی جاتی ہے ،لیکن انسان کے منہ میں نہیں جاتی ۔رپورٹ کے مطابق وہ کھانا جو اس دنیا میں پھینک دیا جاتا ہے ،اس کی تیاری میں صرف جو پانی استعمال ہوتا ہے وہ روس کے سب سے بڑے دریا کے سالانہ بہاو کے برابر ہے۔اگر ایک کلو چاول جو بغیر کھائے پھینک دیا جاتا ہے ،اس ایک کلو چاول کی پیداوار پر دو ہزار لٹر پانی خرچ ہوتا ہے۔ایک کلو بیف جو ضائع کردیا جاتا ہے ،یا کچڑے میں پھینک دیا جاتا ہے ،اس ایک کلو بیف کی تیاری میں پندرہ ہزار لٹر پانی خرچ ہوتا ہے ۔شادیوں اور دیگر تقریبات میں اس طرح اندازہ لگائیں کہ کتنا کھانا بچتا ہے اور کیسے کچڑے میں ڈال دیا جاتا ہے ۔یہ جو کھانا ضائع کیا جاتا ہے، صاف ظاہر ہے کہ یہ زمین سے اگتا بھی ہوگا ،رپورٹ کے مطابق جتنی اس زمین میں خوراک اگائی جارہی ہے ،اس کے 28 فیصد حصے پر جو خوراک اگائی جارہی ہے ،یہ وہ خوراک ہے جو کبھی استعمال ہی نہیں ہوتی ،یہ وہ خوراک ہے جو سمندروں ،کچڑے اور دریاوں میں ضائع کی جاتی ہے ۔خوراک کو قابل استعمال بنانے کے لئے جو ایندھن استعمال ہوتی ہے یعنی گیس ،بجلی اور لکڑی وغیرہ ،42 ارب ڈالرز کا ایندھن ہر سال اس خوراک پر خرچ کیا جاتا ہے جو خوراک ضائع کردی جاتی ہے ،یعنی پھینک دی جاتی ہے یا کچڑے کی نزر ہو جاتی ہے ۔رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان میں پانچ برس سے کم عمر کا ہر چوتھا بچہ ناکافی غذا کا شکار ہے ۔اس سے اندازہ لگائیں کہ یہ غربت نہیں ،ہماری جہالت ہے ،یہ ناشکری ہے اور یہی ناشکری بھی اس دنیا کا بہت بڑا المیہ ہے ۔کہا جاتا ہے کہ ہم مسلمان اس مذہب کے ماننے والے ہیں جہاں سب سے پہلا حق ہی بھوکے کا ہے ۔پاکستان دنیا کا آٹھواں بڑا خوراک پیدا کرنے والا ملک ہے ،لیکن یہاں ہر چوتھا بچہ ناکافی خوراک کا شکار ہے ۔ورلڈ ہنگر انڈیکس کی رپورٹ کے مطابق دنیا میں دو خطے ایسے ہیں جہاں سب سے زیادہ انسان بھوکا سوتے ہیں ،ان میں سے ایک خطے کا نام ہے ،سب سہارن افریقہ جہاں قحط کی سی صورتحال رہتی ہے اور دوسرے خطے کا نام ہے جنوبی ایشاٗ یعنی پاکستان اور بھارت ۔یہاں پر 31 فیصد بدقسمت انسان ایسے ہیں جو دو وقت کا کھانا نہیں کھا سکتے ۔یعنی دو وقت کا کھانا ایفورڈ ہی نہیں کرسکتے ۔وجہ واضح ہے کہ تعلیم ،صحت اور خوراک پر بھارت اور پاکستان جیسے ممالک میں حکومتیں توجہ ہی نہیں دیتی ،یہاں سب سے زیادہ توجہ صرف قومی سلامتی اور غدار غدار کے کھیل پر ہے ۔پاکستان میں ہر سال لاکھوں ٹن کھانا ضائع ہوجاتا ہے ،لیکن غریبوں کے پیٹ میں نہیں جاتا ۔کیا کبھی ہم نے سوچا کہ گھروں ،شادی بیاہ کی تقریبات میں یہ قوم کتنا کھانا ضائع کردیتی ہے ۔ریسٹورنٹس اور ہوٹلوں میں بچا کھچا کھانا کچڑے میں تو چلا جاتا ہے ،لیکن غریب کے پیٹ کی آگ نہیں بجھاتا ۔ہم کھانا ضائع کردیتے ہیں لیکن انسانوں کی بھوک نہیں مٹاتے ،لیکن کہتے اپنے آپ کو مسلمان ہیں ۔یہ کھانا جو بچ جاتا ہے ،شادی بیاہ کی تقریبات میں ،ہوٹلوں میں ،ریسٹورنٹس میں اور گھروں میں اس خوراک کو غریبوں اور بھوکوں کی جھگیوں تک بھی پہنچایا جاسکتا ہے ۔پاکستان کے تمام بڑے شہروں میں ایسی درجنوں والنٹئیرز تنظیمیں ہیں جو یہ کھانا غریبوں تک پہنچاتی ہیں ،کیوں ان تنظیموں کی مدد نہیں کی جاتی ،اس کی وجہ ہماری جہالت اور بے غیرتی ہے ۔اس وقت پاکستان میں رابن ہڈ آرمی ہے ،ایدھی فاونڈیشن ہے جو بچا کھچے کھانے کی تلاش میں رہتی ہے اور پھر اس کھانے کو پیک کرکے غریب کے بچے تک پہنچاتی ہیں ،کیا کبھی ان والنٹئیرز کو میڈیا والوں اور اخباروں والوں نے نمایاں کیا ؟ میڈیا کا تو کام ہی انسانی اور سماجی ہونا چاہیئے ،اور یہاں کے انسان کیا باشعور ہیں کہ وہ اس کھانے کو ضائع ہونے سے بچائیں ،کیا میڈیا ان انسانوں کو یہ شعور اور تربیت دے رہا ہے کہ وہ کیسے اس بچے کھانے کو کار آمد بنا سکتے ہیں ۔ہم سب انسانوں کو بھوک کے خلاف جنگ کرنی ہوگی ۔غریب سردی سے ٹھٹھہر رہے ہیں اور امیروں کے گھروں میں ہزاروں رضائیاں بیکار پڑی ہیں ،کیا یہ رضائیاں غریبوں کو سردی سے بچانے اور انہیں گرم رکھنے کے لئے استعمال نہیں کی جانی چاہیئے ؟ کیا ہمارا اسلام اس بارے میں کہتا ہے ؟کیا کبھی مولوی یا میڈیا یا کسی اور نے ہمیں بتایا ہے کہ کیا کریں ؟جھگیوں میں بچے بیمار پڑے ہیں ،ان کو دوائی اور خوراک کی ضرورت ہے ،،کیسے ان تک دوائی پہنچائی جائے ،ان کو خوراک مہیا کی جائے ،کیا کبھی میڈیا یا ریاست نے راستہ دیکھایا ؟معلوم نہیں کیوں ہم انسانیت کو بھول گئے ہیں ۔غریبوں کی مدد کر یں ،ان غریبوں کی مسکراہٹ سے جو خوشی پھوٹتی ہے ،اس کا تجربہ کریں ،اسے انجوائے کریں اور پر سکون رہیں ،کیا کبھی مولوی اور میڈیا نے بتایا ؟مولوی اور میڈیا کا کام کیا صرف فرقہ واریت پھیلانا اور دھڑنا دینا رہ گیا ہے ؟ اور ریاست کا کام ان دھڑنے والوں سے نبٹنا ؟ایک دوسرے کی مدد کریں ،ایک دوسرے سے پیار کریں ،یہی زندگی ہے ،یہی انسانیت ہے اور یہی اسلام ہے ،سنی وہابی بریلوی شیعہ ہونا اسلام نہیں ۔۔۔۔۔انسان بنو۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔