اکرم غریب گھرانے کا فرد تھا ۔ اس کی دو اولادیں تھیں ۔ آٹھ سالہ معظّم اور چھ سالہ شگفتہ ۔ بیوی انوری وفادار اور نیک خاتون تھیں ۔دائمی مریض اکرم کی حتٰی الامکان مدد کرتی ۔ دونوں بچے غربت کے سائے میں پل رہے تھے ۔
اکرم مریض ہونے کے باوجود محنت مزدوری کرکے روکھی سوکھی بچوں کے آگے ڈالتا مگر کسی کے آگے ہاتھ نہ پھیلاتا ۔روز کنواں کھودنا روز پانی پینا یہی اس کا مقدر تھا ۔ کام ملا تو روزی نہیں تو روزہ ۔ ادھر کئی دنوں سے اکرم مرض کی شدت سے صاحب فراش ہوگیا ۔جو کچھ جمع پونجی تھی علاج معالجے اور شکم کے جہنم کا ایندھن بن چکی تھی ۔دو روز سے اس گھر میں فاقہ تھا ۔اکرم کی کراہیں گھر میں گونجتیں اور درودیوار سے ٹکڑا کر واپس آجاتیں ، گھر کے باہر نہیں پہنچتیں کیونکہ آس پاس سب گونگے بہرے بستے تھے ۔بند دروازوں میں اپنی دنیا میں مگن ۔بالآخر اس کی زندگی کا چراغ گل ہوگیا ۔کراہیں سناٹے میں مدغم ہوگئیں ۔پاس پڑوس کے دروازے کھل گئے ۔چندہ جمع کرکے تجہیز وتدفین ہوئی ۔ پڑوس سے غمزدہ گھرانے کے لیے کھانا آیا ،جسے تینوں نے شکم سیر ہوکر کھایا ۔تین روز کے بھوکے جو تھے !! تین روز تک یہی سلسلہ چلتا رہا ۔۔۔وہ میت کی یاد میں سرد آہیں بھرنے کی بجائے شکم کا سرد جہنم بھرتے ۔ چوتھے روز پڑوسیوں نے جھانکنا بھی پسند نہ کیا ۔
دو روز فقروفاقہ میں گزرگئے ۔ماں بچوں کے کمھلائے چہرے دیکھ کر پریشان ہوگئی ۔وہ حجاب ڈال محلے کے پنساری کے پاس گئی کہ رحم کی بھیک بصورت مستعار ملے ، مایوسی ہاتھ آئی ساتھ ہی جھڑکیاں بھی ۔دل مسوس کر رہ گئی ۔گھر میں اتری صورت کے ساتھ داخل ہوئی ۔ بچوں نے ناکامی بھانپ لی مگر ناکامی کے اسباب نہیں پوچھے ۔تیسرا روز بھی فاقے کی نذر ہوا ۔
معظم بھوک کی شدت سے تڑپ اٹھا ۔اس کا بدن بخار میں تپ رہا تھا ۔ڈاکٹر کے پاس جا سارا ماجرا کہہ سنایا مگر سکوں کی کھنک میں درد کی کسک کون سنتا ہے ۔ اس کی آنکھوں میں آنسو تیر گئے اپنی بے چارگی اور بے بسی کے ۔معظم بخار کی شدت سے اول فول بک رہا تھا ۔ماں سرہانے بیٹھی تھی اور شگفتہ پائینتی ۔ اچانک ہی شگفتہ کی آواز سناٹے میں گونجی ۔
،، ماں ! بھائی کب مرے گا ؟،،
ماں نے قہر بھری نظروں سے بیٹی کی طرف دیکھا اور سرسراتی آواز میں پوچھا ۔
،،تو بھائی کے مرنے کا کیوں پوچھ رہی ہے ؟،،
نا سمجھ ، بالغ نظر شگفتہ نے کہا ۔
،،ماں ! بھائی مرے گا تو تین روز تک محلے سے کھانا آئے گا نا ۔۔۔!!
( مرکزی خیال ماخوذ )