میرا کوئی ارادہ نہیں کہ آپ سے ”بوجھو تو جانیں“ کھیلوں لیکن کیا آپ مجھے بتا سکتے ہیں کہ میرا آئیڈیل کون لوگ ہیں؟مجھے یقین ہے کہ آپ نہیں بوجھ سکیں گے۔ آپ کا خیال ہو گا کہ دانشور، ادیب، سائنسدان یا فنکار میرا آئیڈیل ہیں۔ نہیں۔ ہرگز نہیں!
میرا آئیڈیل اِس ملک کے تاجر ہیں اس لئے کہ انکے اعصاب مضبوط ہیں۔ یہ گروہ ارادے کا پکا ہے۔ جو چاہے، حاصل کر کے رہتا ہے۔ کسی سے ڈرتا ہے نہ کسی کی پرواہ کرتا ہے۔ ملک میں سیلاب آئے یا زلزلہ، طوفان آئے یا آندھی، عید ہو یا رمضان، خوشی ہو یا غم، تاجر برادری پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ یہ اپنے اہداف ہر حال میں جیت کر رہتے ہیں۔ یہ ناک کی سیدھ میں چلتے ہیں اور اپنے مقصد کے حصول میں اِدھر اُدھر دیکھتے ہیں نہ کسی رکاوٹ ہی کو خاطر میں لاتے ہیں۔
آپ دکانیں صبح جلد کھولنے اور سرِشام بند کرنے ہی کی مثال لے لیجئے۔ جن ملکوں میں بجلی کی کمی کا مسئلہ نہیں اور خوشحالی کا دور دورہ ہے، وہاں بھی دکانیں صبح نو بجے کھُل جاتی ہیں اور شام پڑتے ہی بند ہو جاتی ہیں۔ میں اِن دنوں آسٹریلیا میں ہوں۔ حال ہی میں گھڑیاں ایک گھنٹہ آگے کر دی گئی ہیں۔ سورج پونے آٹھ بجے غروب ہو رہا ہے لیکن دکانیں ساڑھے پانچ بجے بند ہو جاتی ہیں۔ یعنی غروبِ آفتاب سے دو گھنٹے پہلے۔ کسی تاجر نے احتجاج نہیں کیا کہ میں سہ پہر ہی کو کیوں دکان بند کر دوں۔ یہ لوگ صبح نو بجے دکانیں کھولتے ہیں۔ آبادی کا وہ حصہ جس نے دوپہر کو اپنے کام پر جانا ہے، یا وہ لوگ جو چھٹی پر ہیں، یا خواتین خانہ، سب صبح صبح بازار جاتے ہیں اور سودا سلف خرید کر دس گیارہ بجے تک فارغ ہو جاتے ہیں۔ آپ اسکے مقابلے میں پاکستان کی تاجر برادری کا ”انصاف“ ملاحظہ کیجئے اُنکے پاس صبح دکان نہ کھولنے کی کوئی دلیل نہیں، سوائے دھاندلی کے۔ یہ ”خدا ترس“ لوگ دن کے بارہ بجے دکانیں کھولتے ہیں اور وہ بھی بصد مشکل۔ آپ نے اگر دفتر سے چھٹی لی ہے کہ بچوں کو جوتے یا کپڑے دلانے ہیں یا نئے سال کی کتابیں خریدنی ہیں یا پورے مہینے یا ہفتے کا سودا سلف لینا ہے تو بارہ بجے تک آپ کو انتظار کرنا پڑے گا اور یوں آپ کا نصف دن ضائع ہو جائےگا۔ جو خریداری ظہر کے وقت شروع ہو گی وہ شام کے بعد تک جاری رہے گی۔ آپ بازار سے دس گیارہ بجے رات کو لوٹیں گے۔ یہ ایک خرابی کئی خرابیوں کو جنم دےگی۔ کھانا دیر سے کھائینگے۔ بچے تھکے ہوئے ہونگے۔ سب لوگ دیر سے سوئیں گے۔ صبح دیر سے اٹھیں گے۔ اس طرح ایک دائرہ بن جائےگا۔ خرابی ¿ اوقات۔ تصنیعِ اوقات کا دائرہ۔ جس سے باہر نکلنا ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہو گا۔
اس برادری میں جو لوگ خواتین سے لین دین کر رہے ہیں وہ اخلاق میں ”بہترین“ ہیں۔ سچ بولنا، وعدہ پورا کرنا، کام طے شدہ معاہدے کےمطابق کرنا، یہ سب کچھ ان لوگوں کی لغت میں مکمل ناپید ہے۔ اُن تاجروں کو دیکھ لیجئے، جن سے خواتین شادی بیاہ کا کام…. بالخصوص ملبوسات کا کام کراتی ہیں۔ بدقسمتی سے ہمارے کلچر میں شادی بیاہ کی تیاری ایک عذاب سے کم نہیں اور یہ عذاب خواتین کو برداشت کرنا پڑتا ہے۔ مرد حضرات رقم دے کر فارغ ہو جاتے ہیں اسکے بعد ان کا ایک ہی کام ہے کہ خواتین کو ڈانٹتے رہیں کہ تم نے فضول خرچی کی۔ انہیں تصور ہی نہیں کہ خواتین کس عذاب سے دوچار ہوتی ہیں۔ اس شعبے کے ننانوے فیصد تاجر کھُلی وعدہ خلافی کے مرتکب ہوتے ہیں اور اس کھلی وعدہ خلافی کو وہ کوئی برائی نہیں سمجھتے۔ یہ ظالم لوگ خواتین کو کئی کئی پھیرے ڈالنے پر مجبور کرتے ہیں۔ وہ تاریخ جو یہ کاغذ یا رسید پر لکھ کر دیتے ہیں، اُسے مذاق سمجھتے ہیں، پھر ان میں اتنا اخلاق بھی نہیں کہ ٹیلی فون کر کے اطلاع دےدیں کہ آپ فلاں تاریخ کے بجائے فلاں تاریخ کو آئیں۔ ہمارے خاندان میں ایک شادی تھی۔ خواتین اس قدر زچ ہوئیں کہ انہوں نے مجھے ساتھ آنے کو کہا۔ یہ ایک بہت بڑے حاجی صاحب کی دکان تھی۔ وہ کئی پھیرے ڈلوا چکے تھے اور ہر بار کام اُس تخصیص سے مختلف کرتے تھے جو کاغذ پر لکھ کر دیتے تھے۔ میں نے بلند آواز سے کہنا شروع کیا کہ آپ اتنی بار وعدہ خلافی کر چکے ہیں، کیا آپکی آمدنی جائز ہے؟ پہلے تو منت کی کہ آہستہ بولئے، باقی گاہک سُن لیں گے، پھر دبک کر اُوپر والی منزل پر چھپ گئے۔ آتے ہوئے میں نے انہیں دس روپے اضافی دئیے، پوچھنے لگے، یہ کیوں؟ میں نے کہا، میرے بعد جس گاہک سے وعدہ خلافی کریں گے، اُسے کم از کم فون کر کے بتا دیجئے گا کہ فلاں تاریخ کو آئے۔ یہ اسی ٹیلی فون کے پیسے ہیں!
اِس معاشرے میں جہاں مرد غالب اور حاوی ہیں، خواتین…. یہاں تک کہ تعلیم یافتہ خواتین بھی…. ان تاجروں کی بداخلاقی کا شکار ہیں اور احتجاج کا رویہ شاذ و نادر ہی نظر آتا ہے۔ ”حاجی“ صاحبان، اُس حدیث سے لگتا ہے ناواقف ہیں جس کا مفہوم یہ ہے کہ منافق کی تین نشانیاں ہیں، بات کرے تو جھوٹ بولتا ہے۔ وعدہ کرے تو خلاف ورزی کرتا ہے اور امانت اسکے سپرد کی جائے تو خیانت کا مرتکب ہوتا ہے۔ اس کسوٹی پر پرکھیں تو ہم سب منافق ہیں۔ خاص طور پر تاجر اور سیاستدان…. حیرت اور افسوس اس بات پر ہے کہ جنہیں ہم کافر عیسائی اور یہودی کہتے ہیں وہ معاملات میں جھوٹ بولتے ہیں نہ وعدہ خلافی کرتے ہیں، آپ نے اکثر اپنے بڑوں سے سنا ہو گا کہ ہندو دکاندار بچے کو بھی وہی بھاﺅ دیتا تھا جو بڑے کو دیتا تھا لیکن اب ایسا نہیں ہوتا، تاجروں کی اکثریت شکل صورت سے متشرع ہے۔ نمازی ہیں اور حج کر کے حاجی کہلواتے بھی ہیں لیکن اس کا کیا کیا جائے کہ ملاوٹ، ذخیرہ اندوزی، ناجائز نفع خوری، کم تولنا اور کم ماپنا عام ہے۔ جعلی دوائیں، جعلی غذائیں ۔ اور پھر بیچتے وقت مال کا نقص نہیں بتایا جاتا اور ہوس اس قدر کہ رمضان آتے ہی قیمتیں دوچند بلکہ کئی گنا زیادہ ہو جاتی ہیں۔ پوچھنے پر جواب ملے گا کہ پیچھے سے ہی مہنگی آ رہی ہیں۔ حالانکہ جو مال حاجی صاحب نے پرانی قیمت پر خرید کر رکھا ہوا ہے، اسکی قیمتِ فروخت بھی بڑھا دی ہے۔ اقبال نے شیخِ حرم کے بارے میں کہا تھا ….
یہی شیخِ حرم ہے جو چُرا کر بیچ کھاتا ہے
گلیمِ بوذر و دَلقِ اویس و چادرِ زہرا
شیخِ حرم میں اب شیخِ تجارت کو بھی شامل کر لیجئے!
پوری مہذب دینا میں یہ ایک معمول کی بات ہے کہ آپ خریدا ہوا مال واپس یا تبدیل کر سکتے ہیں۔ اکثر و بیشتر یہ پالیسی لکھ کر لگا دی جاتی ہے۔ بہت سے ملکوں میں آپ تین ماہ تک مال واپس یا تبدیل کر سکتے ہیں۔ یہ اعزاز صرف پاکستانی صارفین کو حاصل ہے کہ وہ ”خریدا ہوا مال واپس یا تبدیل“ نہیں کر سکتے۔ آپ تاجر کو اکثر یہ کہتے ہوئے سنیں گے کہ جناب لے جائیے اس مال کی کوئی شکایت نہیں آئی ۔ بھائی جان شکایت کیسے آئے گی ؟پاکستان میں تو صارف اس قدر دب چکا ہے اور اتنا مظلوم اور خوفزدہ ہے کہ شکایت کرنے کا سوچ ہی نہیں سکتا۔ جس معاشرے میں ایک تاجر کا جرم۔ کھُلا جرم بخشوانے کےلئے سارے تاجر ہڑتال کر دیں اور گاہکوں اور انتظامیہ کو دھمکیاں دیں وہاں شکایت کون مائی کا لال کرےگا۔
اور آخری بات…. کیا ہماری تاجر برادری ٹیکس ادا کر رہی ہے اور کیا اتنا ہی ادا کر رہی ہے جتنا کرنا چاہئے؟ اس سوال کا جواب آپ کو بھی معلوم ہے اور مجھے بھی! رہا یہ اعتراض کہ حکومت ٹیکس کی رقم کو غلط خرچ کرتی ہے تو یہ اعتراض اُسی وقت کیوں اٹھتا ہے جب ٹیکس پورا جمع کرنے کی مہم چلتی ہے؟ آپ دیانتدار نمائندے اسمبلیوں میں بھیجئے تو ٹیکس صحیح جگہ خرچ ہو گا۔ سوال یہ ہے کہ انکم ٹیکس اور محصولات جمع کرنےوالے اہلکاروں کو کرپشن کون سکھاتا ہے؟ بوجھو تو جانیں!