میں سرحد پر تعینات تھا…ایک رات گشت کرتے ہوئے ایک بوسیدہ سی پرچی ہاتھ لگی،جس پر آڑی ترچھی تین لائنیں لکھی تھیں:
“ٹیپو سلطان چوتھی جنگ جیت گئے”
“دہلی لاہور میں شاہی قلعے ہیں”
“راوی اور جمنا میں طغیانی ہے”
کچھ دیرغور کرنے کے بعد مجھے خیال آیا کہ یہ تو جاسوسوں کے شناختی کوڈ ورڈہیں شاید، اس کے بعد ذہن،دماغ،اعصاب بلکہ پورا وجود ہی متحرک ہوگیا، گشت میں تیزی آگئی اوراندرون میں ایمرجنسی وارننگ الارم بج اٹھے،اب تو ایک پتا بھی کھڑکے تو دھیان وفکرچوکنے ہوجائیں، حس حد احساس آگے جانے کی سعی کرے شاید معاملہ ہی ایسا تھا
رات بھی اب پل پل گزرنے لگی،مگر ایک چیز نے اس پورے ماحول پر قبضہ کرلیا،اسی چیز نے جو انسان کی ازلی کمزوری ہے، یعنی نیند، دنیا تو رات کی مانند پرسکون تھی مگرعالم خواب کا عالم نہ پوچھیے، جیسے اچانک معصوم ہرنوں کے جھنڈ پرگھات لگائے بھیڑیوں نے دھاوا بول دیا ہو،جیسے وہ غزالچوں کو چیر پھاڑ رہے ہوں اور مصیبت زدہ غزالیں آسمان کی طرف سر اٹھاکر رورہی ہوں اور غارت گر بھیڑیے ان کی آہ و نوا پر بھی شب خون. ماررہےہوں…پھر آنکھ کھل گئی اور صبح کاذب کے بعد پو پھٹنے لگی، ستارے ٹمٹماتے ہوئے بجھنے لگے اور ماحول خوشگوار ہونے لگا، “ٹیپو کی جیت”،”لاہور و دلی کے شاہی قلعے”اور”جمنا”و راوی کی طغیانی” رات کا قصہ بن گئی مگر بھیڑیے،وہ تو اب تک ذہن سے چپکے ہوئے ہیں اور پل پل اپنے نوکیلے دانت،پنجے میرے وجود میں گاڑ رہے ہیں
*