کتاب کا نام: بھاٹی گیٹ کا روبن گھوش
ادیب : امین صدر الدین بھایانی
تبصرہ : شمسہ نجم
جس دن مجھے امین بھایانی صاحب کی کتاب "بھاٹی گیٹ کا روبن گھوش" بذریعہ ڈاک موصول ہوئی وہ بہت خوبصورت دن تھا یا شاید کہ اتنی عمدہ کتاب پا کر مجھے خوبصورت لگنے لگا تھا۔ صرف کتاب کا سرورق ہی بھاٹی گیٹ لاہور کی تصویر یا رنگوں سے سجا نہیں تھا بلکہ کتاب کے اندر بھی خارجی دنیا کی سفاک حقیقتوں اور داخلی زندگی کے نرم گرم رویوں کی تصویر اجاگر کرکے اس میں موسیقیت کے رنگ یوں بھرے گئے ہیں کہ انسان ان سُروں کے زیر و بم میں ڈوبتا چلا جائے۔یہی کیفیت تھی میری۔ جب میں نے امین بھایانی کا تحریر کردہ افسانوں کا مجموعہ "بھاٹی گیٹ کا روبن گھوش" پڑھنا شروع کیا۔ افسانوں پر مجموعی عمومی رائے دے کر شاید میں ان خوبصورت افسانوں سے انصاف نہ کر پاتی۔ کچھ افسانوں نے تو مجھے اس قدر مسحور کیا کہ ان کا الگ الگ ذکر نہ کرنا ناانصافی ہو گی۔
اس مجموعے میں کل 14 افسانے ہیں ۔ ابتدائی صفحات میں ان سے اور ان کی فیملی سے تعارف حاصل ہوا۔ پھر افسانے ہیں اورافسانوں کی بعد امین بھایانی صاحب کا ایک انٹرویو ہے ۔ انٹرویو کیا ہے ۔ ایک ادبی جائزہ ہے جو انہوں نے اپنے افسانوں کا انٹرویو کے انداز میں پیش کیا ہے ۔
کتاب کے ٹائٹل "بھاٹی گیٹ کا روبن گھوش" کا انتخاب جس افسانے کے نام پر کیا گیا وہ واقعی ایک شاہکار افسانہ ہے۔ بھاٹی گیٹ کا روبن گھوش کا ناسٹلجیا کہانی کو جذبات کی بھٹی میں کندن بناتا ہے۔ اس میں معاشرتی پس منظر بہت طاقت ور ہے۔ افسانے کے تمثیلی انداز اور کرداروں کے مکالموں نے کہانی کو اول تا آخر متحرک رکھا ہے۔ لاہور کی معاشرت ثقافت اور وہاں کی میٹھی بولی کی نرماہٹ اور کڑکڑاہٹ کی جھلک اس افسانے میں دکھائی دیتی ہے۔
افسانہ "احمد انکل کے بچوں کا کیا ہوا" کو پڑھ کر ایمان تازہ ہوتا ہے کہ بے شک اللہ بڑا مسبب الاسباب ہے۔
افسانہ "چاکِ زندگی کا رفو گر" اچھا افسانہ ہے لیکن اس کا عنوان کمزور ہے۔ چاک ، دریدہ کے (یعنی پھٹے ہوئے) کے معنی نہیں دے رہا ۔ چاک سے مراد یہاں مٹی سے چیزیں بنانے والا چاک ذہن میں آتا ہے ۔ اس کے ساتھ کوزہ گر مناسب ہوتا ہے ۔دامن دریدہ کا رفو گر وغیرہ زیادہ مناسب ہوتا۔ ٹائٹل کو دیکھ کر جو بات ذہن میں آئی ، کہہ دی ، ادیب کا یا قارئین کا اس خیال سے متفق ہونا لازم نہیں۔
افسانہ "امید بہار" میں "سیٹھ کپاڈیا" کا کردار اور ان کا کاٹھیاواری لہجہ پوری معاشرت کی تصویر سامنے لے آتا ہے۔ عورت کے استحصال اور مظلومیت کے خلاف آواز اٹھاتے ہوئے ٹیکسی ڈرائیور خاتون کا عورت کے جسم کی نمائش اور قلم کے ذریعے اسے عریاں کرنے کے عمل پر احتجاج افسانے کا حسن ہے۔
امین بھایانی صاحب کا افسانہ "سیلف میڈ" زندگی کی چکا چوند اور بھاگ دوڑ میں کھو جانے والی محبتوں اور جذبوں کا نوحہ ہے۔ جب زندگی اتنی تیز رفتار نہ تھی جیسی کہ اب ہے تب محبتیں اور خلوص زیادہ تھا۔ لیکن اب انسان دولت اور آسائش بھری زندگی کو پانے کی بھاگ دوڑ میں زندگی کی چھوٹی چھوٹی خوشیوں کو گنوا دیتا ہے ۔ ایک شادی شدہ خاتون اپنے شوہر کی مالی اعانت کے لیے ملازمت کرتی ہے ۔ لیکن دونوں میاں اور بیوی پیسہ کمانے میں اتنے مصروف ہو جاتے ہیں کہ وہ شادی کی سالگرہ تک بھول جاتے ہیں ۔
افسانہ "میرے بچے میری آنکھیں" میں عورت کے استحصال اور جائداد میں حصہ نہ دینے پر عورت کے ساتھ نا انصافی کو جس علامتی انداز میں بیان کیا وہ اپنی مثال آپ ہے۔ کہانی میں بیٹوں کو جائداد کا حق دار اور بیٹی کو اس کے قانونی و شرعی حق سے محروم کیا گیا اس کہانی کے انجام میں انہی بیٹوں نے باپ کو گھر سے نکال باہر کیا اور بیٹی نے سر آنکھوں پر بٹھایا۔ لب لباب یہ کہ بیٹیوں کی حق تلفی بھی کریں پھر بھی وہ فرمانبردار ہوتی ہیں ۔ عورت سراپا ایثار ہے ۔ بیٹی کے روپ میں تو رحمت ہے۔
کتاب میں شامل ایک اور افسانہ "خلا" بہت دلچسپ بیانیہ کا افسانہ ہے۔افسانے کا کرافٹ ایک فربہ اندام ، خود پسند، مالدار اور واجبی شکل کی خاتون کے گرد رکھ کر بنا گیا ہے۔ اس افسانے میں ایک نسوانی کردار کی امارت کا ڈھنڈورا اور دکھاوے کو دکھاتے ہوئے ادیب کے اپنے کردار کے مثبت پہلو ابھر کر سامنے آتے ہیں۔ جیسے کہ اس افسانے میں ایک جگہ دکھاوا اور نمائش کے فعل پر نکتہ چینی کے طور پر ایک مکالمہ لکھا کہ " جن کے پاس مثبت و تعمیری سرگرمی نہ ہو۔ جن کی سوچ سطحی سی ہو تو بھلا وہ یہ نہ کریں تو اور کیا کریں"۔
گو کہ بھایانی صاحب کا مجموعی طور پر بیشتر افسانوں میں انداز تحریر بہت خوبصورت یے ۔ان کی تحریریں پڑھتے ہوئے یہ تاثر ملتا ہے کہ ہر افسانہ بہت سوچ سمجھ کر اور بہت محنت شاقہ کے بعد لکھا گیا ہے۔ لیکن امین صاحب کی تحریروں پر فلموں اور فلمی گانوں کا اثر کافی گہرا نظر آیا۔ شاید یہ ان کا موسیقی اور ریڈیو کی نشریات سے قربت کا شاخسانہ ہے۔ بھایانی صاحب کا موسیقی سے بے انتہا لگاو ان کی تحریروں میں بھی موسیقیت پیدا کرتا ہے۔ کبھی کبھی ان کی تحریروں کو فلمی گانوں نے مکمل طور پر گرفت میں لے لیا ہے ۔ اکثر جگہ گانوں کے بول بلکہ مناسب ہو گا کہ کہا جائے کہ گانوں سے کشید کردہ اشعار کو کوڈ کیا گیا ہے۔ جو کہ کہیں کہیں تو مناسب لیکن بسا اوقات قاری کی طبیعت پر گراں گزرتے ہیں ۔یہ کہنا بھی بے جا نہیں کہ فلمی گانوں کے اتنے زیادہ اثر نے ان کی تحریروں کے معیار کو متاثر کیا ہے۔
افسانوں کا بنیادی مزاج سادہ اسلوب پر مشتمل ہے۔اور مجموعی کرافٹ بلکہ ہر افسانے کا بنیادی تھیم اور کردار زندگی کی حقیقتوں سے کشید کیے گئے ہیں۔ ہر افسانے میں کہانی اور کرداروں سے مصنف کی وابستگی واقعات و مکالموں میں حقیقت کا رنگ بھرتی ہے۔ مکالمے بہت برجستہ ہیں اور ہر افسانہ ایک الگ اور خاص معاشرت کی چاشنی سے بھرا ہے۔ جو کہ بھایانی صاحب کے گہرے مشاہدہ اور افسانوں پر وقت صرف کرنے کا گواہ ہے۔
صرف جن افسانوں کا اس تبصرے میں ذکر کیا ان افسانوں کی ہی نہیں کتاب میں شامل ہر افسانے کی کہانی من موہنے والی اور قاری کو مسحور کرکے اپنی گرفت میں لینے والی ہے۔ ان میں ایسا سحر اور تجسس ہے جو کتاب کو شروع کرنے کے بعد اختتام تک قاری کو کتاب سے چپکائے رکھتا ہے۔ میرے خیال میں بھاٹی گیٹ کا روبن گھوش مطالعہ کے لیے بہترین کتاب ہے۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔