نیپال میں کمونسٹ الائینس کی عام انتخابات میں تاریخی کامیابی۔
بھارتی مودی لابی کو زبردست شکست
نیپال میں کمونسٹ پارٹی نیپال (یونائیٹدمارکسسٹ لیننسٹ UML) نے 165 سیٹوں کے لئے عام انتخابات میں 81 سیٹیں جیت لی ہیں، تین اور سیٹیں جیتنے کے امکانات ہیں۔ یوں وہ اکیلے ہی پارلیمنٹ میں اکثریتی جماعت بن جائیں گے۔
ان انتخابات میں انہوں نے کمونسٹ پارٹی نیپال (ماؤسٹ سنٹر) سے انتخابی الائینس کیا ہوا تھا۔ اس جماعت نے بھی 30 سیٹیں جیت لی ہیں اور تین اور جیتنے کا امکان ہے۔
لیفٹ الائینس 165 میں سے 117 جیتنے کے قریب ہے گنتی کا عمل ابھی جاری ہے۔
یوں جنوبی ایشیا کے سب سے غریب ملک نیپال میں کمونسٹوں نے ان انتخابات میں ایک لینڈسلائیڈ فتح حاصل کی ہے۔
نیپالی کانگرس نے اب تک صرف 18 سیٹیں جیتی ہیں۔ اور چار مزید شائید جیت جائیں۔ یہ تاریخ میں کانگرس کی سب سے بری شکست ثابت ہو گی۔
کھٹمنڈو شہر کی دس سیٹوں میں سے چار پر کانگرس جیتی ہے اور بقیہ تمام پر UML جیت گئی ہے۔
عوامی ورکرز پارٹی نے نوشہرہ میں منعقد ہونے والے سیمینار میں نیپالی کمونسٹ آلائینس کو شاندار کامیابی پر مبارک باد دی ہے۔
فیڈرل ڈیموکریٹک ریپبلک آف نیپال میں عام انتخابات دو مرحلوں میں 26 نومبر اور 7 دسمبر 2017 کو منعقد ہوۓ۔ یہ انتخابات باؤس آف ریپریزنٹیٹوز، (عوامی نمائیندگی کا ھاؤس) یعنی فیڈرل پارلیمنٹ کے کل 275 اراکین کے لئے منعقد ہوۓ۔ ہیں۔ ان میں سے 165 کا برائے راست حلقہ بندیوں کے زریعے انتخاب ہوا۔ یعنی جس نے ایک حلقے سے سب سے زیادہ ووٹ لئے وہ کامیاب ہوا۔ اسے انگلش میں first past the post (FPTP) سسٹم بھی کہا جاتا ہے اور بقیہ 110 سیٹیوں کا متناسب نمائندگی کے ذریعے انتخاب کیا جائے گا۔ اس کے لئے ہر ووٹر کو دو بیلٹ۔ پیپر دئیے گئے تھے۔ ایک پر اپنے حلقے کے امیدوار کا ووٹ اور دوسرا اپنی پسند کی پارٹی کا ووٹ۔
جو پارٹی کل ڈالے جانے والےووٹوں کا کم از کم تین فیصد حاصل کرے گی وہ پارلیمنٹ میں ایک سیٹ کی لازمآ حقدار ہو گی۔
ان کے علاوہ صوبائی اسمبلیوں کی 330 سیٹوں پر بھی انتخابات کا انعقاد ہوا۔ ان مین کمونستوں نے شاندار کامیابی حاصل کی ہے۔ نئے تشکیل پانے والے سات صوبوں میں سے چھ پر لیفٹ الائینس حکومتیں تشکیل دے گا۔ صرف ایک صوبہ جو انڈیا کے ساتھ منسلک ہے وھاں پر ایک اور لائینس کی حکومت ہو گی۔
متناسب نمائیندگی کے تحت ان انتخابات میں 88 سیاسی پارٹیوں نے حصہ لیا۔ ان انتخابات میں تین انتخابی الائینس حصہ لے رھے تھے۔ ایک کمونسٹوں کا، دوسرا ڈیموکریٹس کا اور تیسرا مدیشی (Madhes) پارٹیوں کا، ان میں کمونسٹ الائینس نے تاریخی کامیابی حاصل کی ہے۔
انتخابات میں حصہ لینے کے لئے جو لیفٹ الائینس تشکیل پایا اس میں کمونسٹ پارٹی اف نیپال (یونائیٹد مارکسسٹ لیننسٹ) (CPN(UML اور کمونسٹ پارٹی اف نیپال (ماؤسٹ) CPNM شامل ہیں۔ دونوں پارٹیوں نے یہ بھی طے کیا ہے کہ انتخابات کے بعددونوں پارٹیوں کا انضمام بھی کیا جائے گا۔
دوسرے الائینس میں نیپالی نیشنل کانگرس نے سات دیگر سیاسی جماعتوں کو ساتھ ملا کر بھی تاریخی شکست کھائی۔
انکے علاوہ دو اھم مدیشی پارٹیاں سنگیا سماجبادی فورم نیپال اور راسٹریاجنتا پارٹی (Sanghiya Samajbadi Forum-Nepal and Rastriya Janata Party-Nepal (RJP-N), نے بھی انتخابی الائینس کیا۔ یہ پارٹیاں ساؤتھ ایسٹ نیپال میں جو میدانی علاقہ انڈین بارڈر کے ساتھ ہے میں اہم اثرورسوخ رکھتی ہیں۔ اس میں ایک صوبہ میں اس الائینس کی حکومت بنے گی۔
نیپال میں انتخابات سے قبل ایک مخلوط حکومت تھی۔ جو کانگرس اور کمونسٹ پارٹی ماؤسٹ سنٹر پر مشتمل تھی۔ اس مین سے ماوسٹوں نے انتخاب سے قبل ہی کانگرس چھوڑ کر UML سے انتخابی الائینس کر لیا تھا۔
کمونسٹ پارٹی UML سے تعلق رکھنے والی بدیا دیوی بھنڈاری ملک کی 29 اکتوبر 2015 سے صدر منتخب ہیں۔ جبکہ وزیر اعظم ماؤسٹوں کے سربراہ پشپا کمال ڈھل جنہیں عال طور پر پراچندا کے نام سے یاد کیا جاتا ہے 4 اگست 2016 سے وزیر اعظم منتخب تھے۔ اسی پارٹی نے اب عام انتخابات کے لئے کانگرس کی بجائے کمونسٹ پارٹی UML سے انتخابی اتحاد کیا اور بعد ازاں انضمام کے لئے کمیٹیاں بھی کام کر رھی ہیں۔ اس حکومت سے قبل پہلے ماوسٹوں اور UML کی مخلوط حکومت قائم تھی جس کے وزیر اعظم خادکا پراساداولی Khadga Prasad OLI تھے۔ ان کی قیادت میں UML نے ایک تاریخی کامیابی حاصل کی۔ وہی اب وزیر اعظم بنیں گے۔
اب ماوسٹوں کے راھنما پراچندہ کو موجودہ کمونسٹ الائینس چھوڑ کر دوبارہ کانگرس کے ساتھ الائینس کرنے کے امکانات تقریبا ختم ہیں کیونکہ UML کی پارلیمنٹ میں ماوئسٹوں کے بغیر بھی اکثریت ہے۔ UML نے انتخاب سے قبل یہ لائین اختیار کی تھی کہ ملک میں سیاسی استحکام کے لئے ضروری ہے کہ ان کی پارلیمنٹ میں اکثریت ہو۔ اور بار بار حکومتوں کے ٹوٹنے اور بننے کا عمل رک جائے۔
پچھلے عام انتخابات 19 نومبر 2013 کو ہوئے تھے جس میں نیپالی کانگرس نے 26 % UML نے 24%, Maoists نے 15% ووٹ حاصل کئے تھے
نیشنل کانگرس کی ان انتخابات کے نتیجے میں معرض وجود میں آنے والی پارلیمنٹ میں 196 سیٹیں، UML کی 175 اور Maoists کی 80 سیٹیں تھی۔ اسوقت پارلیمنٹ میں ممبران کی تعداد 603 تھی جسے موجودہ انتخابات کے لئے کم کر کے کل 275 کر دیا گیا تھا۔
ان انتخابات میں کانگرس پارٹی کو بھارت دوستی کا مول چکانا پڑا ہے۔ جبکہ کمونسٹ پارٹیاں چین کے ساتھ زیادہ تعلقات رکھنے پر زور دے رھی تھیں۔ کمونسٹ بھارتی بالادستی کے خلاف مہم چلاتے رھے۔ اور مودی حکومت اور انکے حامیوں کو نیپال کے معاشی بائیکاٹ کی بھاری قیمت چکانی پڑی۔ مودی حکومت نے تو یہ کوشش بھی کی کہ نیپال کے آئین سے سیکولر کا لفظ بھی نکال دیں۔ اور اس کے لئے حکومت پر زور بھی ڈالا گیا۔ مگر اس میں انہیں کامیابی نہ ہوئی۔
فاروق طارق
ترجمان عوامی ورکرز پارٹی
[email protected]
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔