جلدی سے کافی ختم کرو ورنہ ڈاکٹر صاحب نہ آجائیں۔ زاہد قہقہ لگاتے ہوۓ ہاں یار یاد آیا۔ پچھلی بار ہمیں وارنگ ملی تھی کہ ایک ساتھ وارڈ میں ہم نظر نہ آئیں۔ عالیہ بات کاٹتے ہوۓ نہ صرف وارڈ بلکہ "آفس کینٹین" کہیں بھی نہ۔ اسی گفتگو میں "ڈاکٹر علیم" کے کانوں میں کچھ باتیں سنائی دیں۔ وہ کینٹین سے گزرے تھے جب ایک ٹیبل پر کافی پیتے دو ڈاکٹرز ان کا نام لے رہے تھے۔ یار "ڈاکٹر علیم" نے خود تو کبھی محبت کی نہیں نہ اس سے آ شنائی ہے۔ اس لیے ہر "جوڑے" کو دیکھ کر آگ بگولہ ہو جاتے ہیں۔ "زاہد" نہ صرف "جوڑے" بلکہ وہ کسی بھی لڑکے اور لڑکی کی بلا وجہ گفتگو کو اچھا نہیں سمجھتے۔
"عالیہ" کاش وہ بھی محبت کر لیتے تو آج جو چند "جوڑے" ادھر ہیں۔ انہیں اتنی دشواری نہ ہوتی۔ ان الفاظ نے "ڈاکٹر علیم" کی زندگی کا جیسے ماضی کا عکس دیکھانا شروع کر دیا ہو۔
انہیں سمجھ نہیں آرہی ہوتی کہ وہ انہیں ایک بار پھر ڈانٹ ڈپٹ کرکے چپ کرواۓ یا خاموشی سے نکل جاۓ۔ خلاف معمول کچھ کہہ بغیر اپنے "آفس" کی طرف بڑھے چونکہ وہ "ہسپتال کے انچارج" تھے اور انہیں لگتا تھا کہ وہ ٹھیک کرتے ہیں اور سب ان کے اس اقدام سے مطمئیں ہیں پر وہ آج جیسے بے زباں سے ہو گئے۔ وہ "ہسپتال انچارج" ہونے کی وجہ سے ہر وقت بہت زیادہ ذمہ داریوں میں الجھے رہتے ۔
پر "عالیہ اور زاہد" کی گفتگو سننے کے بعد میز پر پڑی بھاری بھر کم فائلز کو نظر انداز کرکے آ فس کی لائٹ بند کرتے ہی کرسی پر ٹیک لگا ۓ آ نکھیں بند کر لیں۔
اپنا زمانہ چینخ چینخ کر سامنے آگیا "شائستہ" تم مجھ سے کتنا محبت کرتے ہو؟
علیم یہ بھی کوئی پوچھنے والی بات ہے ۔کیونکہ تمھارے منہ سے ہر بار بے تہاشا کا لفظ سن کر مجھے اچھا لگتا ہے۔ روز کی طرح آج بھی یہ دونوں "لانگ ڈرائیو" پر آۓ تھے ۔
علیم گاڑی روکتے ہوۓ ۔شائستہ چونک کر گاڑی کیوں روک دی ۔
ایک سوال ہے؟
کیا؟
تم مجھ پر شک کیوں کرتی ہو؟
شائستہ قہقہ لگاتے ہوۓ "علیم تم نے تو مجھے ڈرا ہی دیا"۔
علیم سنجیدگی سے "یہ میرے سوال کا جواب نہیں"۔
جناب شک نہیں خوف سا رہتا ہے کہ تم مجھے چھوڑ نہ دو۔
نرم لہجے اور پیار بھری نظروں سے علیم تم اتنا خوبصورت ،دراز قد،سفید رنگت سب کی من پسند شخصیت ہو اور
میں
اور میں کیا شائستہ پلیز بولو تم کیا؟
اور میں سانولی درمیانے قد میں بہت خوبصورت ہوں اور نہ ہی امیر اب شائستہ نے افسردگی میں نظریں اپنی گود میں جھکا لیں۔
میری طرف دیکھو شائستہ جو کچھ تم نے گنوانا ہے بےشک تم ان میں سے کچھ بھی نہیں ہو۔
پر
تم میری نظر،میری سوچ،میرے دل سے سوال کرکے پوچھو کہ میرۓ لیے کتنا اہم ہوتے۔
تم جانتی ہو شائستہ تمہیں اپنا کہتے ہوۓ میں فخر محسوس کرتا ہوں۔
تم میری ہو یہ سوچ کر مجھے زندگی جینا اور اچھا لگتا ہے۔ مجھے تمھاری "روح سے محبت" ہے نہ کہ تمھارے اسٹیٹس،اور ظاہری شکل و صورت سے۔
وہ بغیر کچھ سوچے بس بولے جا رہا تھا۔ شائستہ علیم کی آنکھوں میں دیکھنے لگی تھی۔ جن میں سچائی کی چمک تھی۔
وہ اس وقت ایک خوب صورت حسینہ سے بھی زیادہ حسین لگ رہا تھا۔ جیسے ہی وہ خاموش ہوا گاڑی میں جیسے سکون سا ہوگیا ہو۔اردگرد دنیا خوش ہے یا اداس اس کا کوئی احساس تک نہ تھا۔
پر شائستہ ابھی تک علیم کی نظروں میں گم تھی۔
علیم نے ایک بار پھر خاموشی توڑی
بولو شائستہ
اب شائستہ نظریں چراتے ہوۓ تو آ ج ایک وعدہ کرو علیم ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیتے ہوۓ کہا؟
یہی کہ تم کبھی بھی میرے علاوہ کسی اور عورت کو نہ تو چھوؤ گے اور نہ ہی پیار بھری نظروں سے دیکھو گے۔
شام کا وقت تھا گاڑی کی مدھم روشنی میں دونوں نظروں میں نظریں جماۓ ، وعدہ رہا شائستہ تمھارے علاوہ کسی بھی عورت کو نہ تو پیار بھری نظروں سے دیکھوں گا نہ ہی سوچوں گا اور نہ ہی کوئی اور عورت میری زندگی میں آۓ گی۔
شائستہ کے چہرے کے آ ثار کم ہوۓ ہلکی سی مسکراہٹ سے علیم کے ہاتھوں کو اور مضبوطی سے پکڑ لیا۔
دروازے پر دستک ہوئی May I come in sir "ڈاکٹر علیم" نے آنکھیں کھولتے ہوۓ yes لائٹ آن کی۔
جی "ڈاکٹر ردا" وہ سر مجھے آ ج جلدی گھر جانا ہے "weeding anevarsery" ہے۔
اور پلیز سر آپ نے ضرور آنا ہے۔
ڈاکٹر علیم جو کہ اب 55 سال کی عمر کو پہنچ چکے تھے۔ "بارعب شخصیت" کے مالک لگتے جیسے کوئی عورت ذات کبھی ان کے قریب سے ناگزری ہو وہ عورتوں سے ہمیشہ سخت لہجے میں دو ٹوک بات کرتے اور ان سے نظروں میں نظریں ملا کر بھی بات نہ کرتے۔ پر آج ماضی کو جو یاد کیا ہوا تھا۔
مسکرا کر "ڈاکٹر ردا" سے کارڈ لیا thank you تھوڑا بزی ہوں اور آپ کو بہت مبارک ہو۔ آپ جا سکتی ہیں۔ "ڈاکٹر ردا" کو ان کے نرم لہجے ،آ فس لائٹس آف تھوڑا کھویا کھویا دیکھ کر عجیب محسوس ہوا۔
آج وہ تھکے تھکے سے گھر واپس آۓ بہت بڑا گھر،نوکر چاکر گھر میں کھڑی گاڑیاں ،لان کا انتہائی دلکش منظر یہ سب دیکھنے والے کو اس کے مالک کی قسمت پر رشک آتا پر وہ خود اپنے آپ کو بہت بدقسمت تصور کرتا تھا ۔
شام کے کھانے پر روٹین کی طرح ٹیبل پر رنگ برنگے اچھے ذائقوں کے کھانے فروٹس اور جوسز پر "ڈاکٹر علیم" نے بے دلی سے ایک جوس کا گلاس پیا اور کمرے میں چلے گئے۔ نوکر بھی پریشان کیونکہ انہیں کبھی اس طرح مرجھایا ہوا نہ دیکھا۔ ہر وقت ہشاش بشاش اور کام میں مصروف دیکھا جیسے کوئی غم انہیں کبھی چھو کر بھی نہ گزرا ہو۔
کمرے میں آکر وارڈ روب سے شائستہ کی تصویر نکالی ۔آنکھیں غم سے بھر آئیں ۔علیم میں تم سے شادی نہیں کر سکتی۔
پر کیوں شائستہ؟
اچانک ایسا کیا ہوا ہے تجسس بھرے لہجے میں بولا ۔
علیم میرے گھر والوں نے "امریکن ہولڈر" لڑکا پسند کر لیا ہے۔
علیم تو شائستہ تمہاری فیملی کی یہ ڈیمانڈ ہے تو میں ہوں نا۔
میں تمہیں باہر لے جاؤں گا۔
پر وہ well settled ہے اور تم
اور میں کیا؟ بےچینی بڑھی
اور تم اپنے ڈیڈ پر depend کرتے ہو نظریں پھیرتے ہوۓ بولی۔
شائستہ تم جانتی ہو بابا کی بیش بہا دولت کا میں اکلوتا وارث ہوں اور وہ سب دولت میں تمہیں دے دوں گا۔
پر تمہیں شادی کرنے میں دیر ہے۔ میں آج ہی بابا سے بات کرتا ہوں. دیکھو شائستہ تم بات کو سمجھو ۔علیم یہ اب ممکن نہیں۔
کیسے ممکن نہیں دیکھو ہم دونوں پر یہ ظلم مت کرو۔
علیم دنیا میں سب کچھ ہو رہا ہے۔
کیا سب کچھ وہ اس کے منہ سے پورا سچ سننا چاہتا تھا۔دنیا میں ایسے چل رہا ہے اب کی بار جھنجھلاتے ہوۓ بولی ۔
پر
میں دنیا نہیں ہوں میں صرف تمہارا علیم ہوں اور میری دنیا تم ہو شائستہ۔ اب وہ بات کو گھمانے کی بجاۓ دو ٹوک کرنے پر آگئی۔
دیکھو علیم یہاں سٹوڈنٹ لائف میں سب ایسے ہوتے ہیں اور شادی کے بعد ماضی فضول سا لگتا سواۓ ایک غلطی کے اور کچھ نہیں لگتا ۔
شائستہ ساری انگلیاں برابر نہیں ہوتیں۔ میں تمہیں ساری خوشیاں دوں گا۔ میں مر جاؤں گا ایسے دیکھو تم صرف فیملی کی وجہ سے یہ کمپرومائز نہ کو ہم مل کر حالات بہتر کر لیں گے اچھا چھوڑو سب جوس پیوؤ۔ pineapple juice آگے سرکاتے ہوۓ بولا
پر وہ ٹیبل سے بیگ اٹھاتے ہوۓ دیکھو میں عارف سے مل چکی ہوں وہ بہت اچھے ہیں۔ میں نے انہیں ہمارے تعلق کا بھی بتایا ہے۔ وہ اب بنا رکے بولنے لگی، انہیں کسی بات پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔ علیم کھڑے ہوتے ہوۓ اوہ اچھا تو تم نے اپنے سب agreements sign کروا کر پھر مجھے بتانا گوارہ کیا۔
میں سمجھ رہا تھا کہ تم مجھ سے ہماری پریشانی ڈسکس کرنے آئی ہو پر تم مجھے اپنے رشتے کی صرف اطلاع دینے آئی تھی مجھ سے مشورہ کرنے یا مدد لینے نہیں۔
میرا یہ مطلب نہیں ہے علیم
شائستہ اب چلی جاؤ
پر
جاتے جاتے ایک بات سنتی جاؤ تمہارے اس دھوکے سے میں دنیا کی کسی عورت پر تا قیامت اعتبار نہیں کر سکوں گا ۔
تم نے مجھے جوڑ کر توڑ دیا جسے تم نے صرف وقت گزاری سمجھا وہ میرے جذبات تھے، میرے احساسات تھے۔ اب مجھے سمجھ آئی کہ محبت صرف خدا کی ذات سے کرنے میں سکون ہے۔ تم جا سکتی ہو۔
شائستہ نے کچھ بولنے کے لیے لب ہلانا چاہے خدا کے لیے جاؤ اور ہمیشہ خوش رہو کوئی 30 سال بعد آج علیم نے اپنا ضبط توڑ کر زارو قطار رونا چاہا۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...