کاش تمہیں اس سرکار نے آکسیجن اور لکڑی خریدنے لائق بھی چھوڑا ہوتا۔۔۔۔ہم سب ایک روز اس ملک سے اس زمین سے رفتہ رفتہ غائب کر دیے جا رہے ہیں ۔۔اور اس کا احساس بھی اب ہم کھو چکے ہیں ۔۔۔کیا آپ ہم اور کوئی اس یقین کے ہمراہ یہ کہہ سکتا ہے کہ اب ہم میں سے زندہ کون ہیں ۔۔۔؟؟
" when reason fails; the devils helps"
آخر دیکھتے دیکھتے سب گم ہو جائیں گے
اور پھر کوئی کسی کو تلاشنے کی ضرورت محسوس نہیں پڑے گی۔۔۔؟؟
جب زندگی ہل رہی ہو ہر گھر میں ایک کہرام مچا ہو ۔۔تو پھر تسلی کون دے جناب ۔۔؟؟
سرد جسم کا ہجوم ہے۔۔۔پیدائش سے لیکر پوری زندگی کا اثاثہ نفرت سے پر یہ سیاست تھی ۔۔۔اور اس نفرت سے پر سیاست نے ہم سب سے کچھ نہ کچھ چھینا ہے ۔۔۔دیا تو اس نے کچھ بھی نہیں ۔۔۔ہاں! پندرہ لاکھ کا جھانسا ہم سبھی کو ملا تھا کہ یہ روپیہ ہمارے اکاؤنٹ میں آ جائے گا پر سات کے سال کے طویل انتظار کے بعد بھی ہمارے حصے میں موت ہی آئی جناب۔۔۔اب تو سرد لاوارث جسم کو ندیوں کے کنارے کتے اور چیل نوچ رہے ہیں اس سے قبل کیا انسان اور انسانیت کی اس سے بری تذلیل بھی ہوئی تھی ۔۔؟؟ یاد کریں ہم سب۔۔؟؟
یہ انسان جب زندہ رہتا ہے تو اپنے اندر محبت نفرت شادی غمی سکھ دکھ ہنسی اور آنسؤں کا ایک زندہ مجسمہ تھا اور جیسے ہی اس جسم سے روح نکلی۔۔۔سرد اور بے حس جسم کو اپنے بھی ٹھکانے لگانے کے درپے ہوتے ہیں ۔۔۔۔گنگا میں بہا دیں ۔۔یا پھر کنگا کے تٹ پر دفن کر دیں یا پھر کتے چیل اور کوے کے لیے چھوڑ آئیں ۔۔۔آہ انسان کتنا بدل گیا اس وبائی دور میں۔۔؟؟
مرتیو جیون کا سب سے بڑا ستیہ ہے جسے ہم سب جانتے ہیں پر کیا ہم نے کبھی یہ بھی سوچا تھا کہ ۔۔ہم سب اپنی زندگی میں مرتیو کے ریتو کا اس لاؤک ڈاؤن یا قفل بندی میں انتظار کرتے رہیں جناب۔۔۔اور سچ میں یہ موت ہی زندگی کی صداقت ہے۔۔۔۔جنم سے لیکر مرتیو تک ہم انسان روتے ہی رہتے ہیں یا ان سیاستدانوں نے ہمارے مقدر میں یہ لکھ دیا ہے کہ لوگ اب مرنے کو مجبور ہیں اور یہ مرتیو ۔۔۔زندہ انسانوں کے ہمراہ چل رہی ہیں ۔۔ہم سب اب نا امیدی کے دھند میں ہیں ۔۔۔اگر ریڈیو پر من کی بات سے ہم سب کا گھر چل جاتا خالی اور کھوکھلے نعرہ بازی سے دوا آکسیجن اور وینٹیلیٹر مل جاتا ۔۔۔۔اس گدھے نے ملک کو نہیں عوام کو آتم نربھر بنا دیا ہے ۔۔تم مرتے رہو ہم ۔۔تیرہ ہزار کروڑ کا محل تعمیر کراتے رہیں ۔۔یہ سزا ہے تمہاری جہالت کا ۔۔۔جو تم نے خود سے منتخب کیا ہے ۔۔۔تو اب شکایت کیوں میرے عزیز ہم وطنوں ۔۔۔۔۔۔ہم سب تاریکی سے نکل کر خوفناک دبیز تاریکی میں اتر رہے ہیں۔۔
ان ایوانوں میں بیٹھنے والوں کو آپ سے کوئی ہمدردی نہیں جناب۔۔۔کیونکہ انہوں نے آپ کی سوچوں پر بھی پہرہ لگا رکھا ہے۔۔تمہارے شرارے اب سرد راکھ میں تبدیل ہو رہا ہیں ۔۔۔۔مجھے وہ شاعر یاد آتے ہیں جسے ہم بھولا بیٹھے ہیں یاد کریں انہیں جناب۔۔//
ایسے دستور کو صبح بے نور کو
میں نہیں مانتا میں نہیں جانتا
میں بھی خائف نہیں تختہ دار سے
میں بھی منصور ہوں کہہ دو اغیار سے
کیوں ڈراتے ہو زنداں کی دیوار سے
ظلم کی بات کو جہل کی رات کو
میں نہیں مانتا میں نہیں جانتا
پھول شاخوں پہ کھلنے لگے تم کہوں
جام رندوں کو ملنے لگے تم کہو ۔۔۔
چاک سینوں کے سلنے لگے تم کہو
اس کھلے جھوٹ کو ذہن کے لوٹ کو
میں نہیں مانتا میں نہیں جانتا۔۔۔
اب روح زخمی ہے۔۔۔۔۔۔جسم بے کل ۔۔۔۔اندر جوالامکھی پھٹ پڑنے کے لیے بے تاب ہے۔۔۔۔لوگ بدل رہے ہیں ۔۔۔سماج بدل رہا ہے۔۔۔۔سیاست بدل رہی ہے ۔۔۔۔یا پھر یہ دنیا ہی تیزی سے خود۔۔۔ن جو بدل رہی ہے۔۔۔۔؟؟
اس مرتیو کے موسم نے مجھ سے میرا سب کچھ چھین لیا ہے ۔۔۔اور اب ہم سب فقط لٹو کی طرح ناچ رہے ہیں۔۔۔اور ملک میں نقلی جمہوریت کا ڈگڈگی بج رہا ہے اور ہم سب ایک خوبصورت Utopia ..میں جی رہے ہیں
Utopia is a vision of society that is so ideal that it is unlikely to actually exist…
میرے لکھنے اور نہیں لکھنے سے آپ پر کوئی فرق نہیں پڑنے والا ہے جناب کیونکہ آپ سب قاف کے وادیوں میں کب کا اتر چکے ہیں ۔۔۔آپ کی سوچوں پر کسی اور کا پہرہ ہے۔۔۔//
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...