موجودہ حالات میں بھارت کی مودی سرکار اور بھارتی میڈیا میں نظر آنے والا جنگی جنون اگرچہ برصغیر کی تاریخ میں کوئی نئی بات نہیں تاہم اس بار اس کی وجوہ پہلے کی نسبت بہت مختلف اور نئی ہیں۔ ہمارے ہاں بدقسمتی سے اپنے ہی ملک کو برا بھلا کہنے اور ناکردہ جرائم اپنے سر لینے کی "دانشورانہ" روش نے آنکھوں پر ایسی پٹی باندھی ہے کہ ہم حقائق کو دیکھنے سے قاصر ہو کر رہ گئے ہیں۔ جبکہ اگر معاملات کا ترتیب وار جائزہ لیا جائے تو یہ جاننا چنداں مشکل نہیں کہ بھارتی جنگی جنون اور وہاں کے میڈیا میں اس کو دی جانے والی ہائپ کے پس پشت کیا مقاصد ہیں۔
امریکی ادارے "پیو ریسرچ سنٹر کے چند ماہ قبل کیے جانے والے سروے نے یہ حقیقت بھی ہمارے سامنے رکھ دی ہے کہ 83 فیصد بھارتی جنگی جنون میں مبتلا اور 52 فیصد عوام مودی حکومت کی پاکستان پالیسی سے غیر مطمئن ہیں اور وہ پاکستان کے ساتھ مزید سختی سے پیش آنے کے خواہاں ہیں۔ اس سروے نے ہمارے ان دانشوروں کے دعووں کی قلعی بھی کھول کر رکھ دی ہے جو دن رات ہمیں یہ باور کراتے نہیں تھکتے تھے کہ بھارتی عوام نہایت امن پسند ہیں اور معدودے چند لوگ ہی بھارت میں جنگ کی باتیں کرتے ہیں۔
کہنے کو بھارت ایک جمہوری ملک ہے اور بڑی آبادی کے باعث دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہونے کا دعویدار بھی ہے لیکن ہمیں اور خصوصاً سوشلسٹ پس منظر رکھنے والے حقیقی دانشوروں کو سرمایہ دارانہ جمہوریت کے اس پہلو پر بطور خاص نظر رکھنی چاہیے کہ کس طرح سرمایہ دار طبقہ اس جمہوریت کو اپنے مقاصد کے لیےاستعمال کرتا ہے۔ یہ طبقہ نہ صرف میڈیا پر اپنے کنٹرول کے باعث عوام کی ذہن سازی کرتا ہے بلکہ سیاسی جماعتوں میں اپنے اثر و رسوخ کے ذریعے طویل المدتی مفادات کا تحفظ بھی کرتا ہے۔
مودی سرکار کے 2014 میں بر سر اقتدار آنے سے قبل اگر آٹھ ماہ کی بھرپور انتخابی مہم پر ڈالی جائے تو یہ حیرت انگیز حقیقت سامنے آتی ہے کہ اس مہم پر اربوں روپے خرچ کیے گئے اور یہ اربوں روپے عوامی چندے سے نہیں بلکہ ان بھارتی سرمایہ داروں اور صنعتکاروں نے فراہم کیے جو کانگریس حکومت کی خارجہ پالیسی سے ناخوش تھے اور جلد از جلد مغربی دنیا، خصوصاً امریکی سرمایہ داری نظام کا حصہ بننے کے خواہشمند تھے۔ بھارتی ریاست گجرات کے وزیر اعلیٰ کے طور پر مودی اور بھارتیہ جنتا پارٹی اس سرمایہ دار طبقے کے ساتھ تعلقات استوار کر چکی تھی اور انہی تعلقات کے باعث اسی مودی کو جس کے ماتھے پر گجرات کے فسادات میں ہزاروں مسلمانوں کے خون کے داغ تھے، ایک بہترین رہنما کے طور پر پروموٹ کیا گیا۔ ایک زبردست کمپین کے ذریعے مودی کی امیج بلڈنگ کی گئی جس کی وسعت کا اندازہ صرف اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ آٹھ ماہ کے دوران اس کی ایڈورٹائزنگ پر 700 ملین ڈالر کی خطیر رقم خرچ کی گئی۔ اس رقم کو اگر بھارتی انتخابی حلقوی کی تعداد پر تقسیم کرتے ہوئے اوسط نکالی جائے تو 93000 سے 120000 ڈالر ہر حلقے میں صرف ایڈورٹائزنگ پر خرچ کیے گئے۔ دیگر انتخابی اخراجات جو اس سے کہیں زیادہ تھے، وہ اس سے الگ تھے۔ ۔۔ اور جس کارپوریٹ سیکٹر نے اربوں روپوں کے خطیر عطیات بھارتیہ جنتا پارٹی کو نریندر مودی کو اقتدار میں لانے کے لیے دئیے تھے، انہوں اپنے مفادات کا تحفظ بھی تو کرنا تھا۔
بھارتی انتخابی سیاست پر نظر رکھنے والے جانتے ہیں کہ وہاں ہر انتخابات میں "پاکستان فیکٹر" ہمیشہ اہم رہا ہے (شاید یہ بھارتی عوام کے سیاسی شعور کی علامت ہے)۔ مودی بھارتی صنعت کو فروغ دینے اور اس کے ساتھ ساتھ پاکستان دشمنی کے نعروں کی بنیاد پر حکومت میں آئے تھے۔اقتدار حاصل کرنے کے بعد انہوں بھارت کی برسوں پرانی روش کو ترک کرتے ہوئے امریکا کے ساتھ تعلقات کو ایک نئی جہت دی اور پوری طرح سرمایہ دار دنیا یعنی امریکی کیمپ میں داخل ہوئے۔ اس کیمپ میں داخلے کے لیے انہیں بھارتی سرمایہ دار اور صنعتکار طبقے کی پوری طرح حمایت حاصل تھی اور ہے جو اپنی صنعتوں کو گلوبلائز کرنے کا خواہشمند ہے۔ واقفان حال جانتے ہیں کہ دنیا بھر میں اسلحہ سازی کی صنعت منافعے کے اعتبار سے بڑی شمار ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر جتنا منافع پورے بھارت کی خواتین کا رنگ گورا کرنے میں ناکام رہنے والی کریم بیچ کر کمایا جاتا ہے، اس سے کئی گنا زیادہ منافع ایک ایک چھوٹا سا جنگی بحری جہاز بیچ کر حاصل کیا جا سکتا ہے۔ یہاں رنگ گورا کرنے والی کریم کی مثال محض اس لیے دی ہے کہ دو تین دہائیوں سے متعدد ملٹی نیشنل کمپنیاں بھارت (اور پاکستان بھی) کی خواتین کو جلد کا رنگ تبدیل کرنے کے کریز میں مبتلا کرکے بھاری منافع کما رہی ہیں اور ایسی کریمیں کاسمیٹکس کی مارکیٹ کا محض ایک جزو ہیں۔
بھارتی سرمایہ دار طبقے نے کافی عرصے سے بھارتی دفاعی صنعت میں سرمایہ کاری کر رکھی ہے لیکن اس کے خاطر خواہ نتائج حاصل نہیں ہو سکے جس کی بڑی وجہ، ان صنعتوں کی پیداوار کا غیر معیاری ہونا ہے۔ اسی لیے ان سرمایہ داروں کی یہ خواہش تھی کہ انہیں مغربی اسلحہ ساز اداروں کے ساتھ جوائینٹ وینچر کا موقع ملنا چاہیے تاکہ ٹرانسفر آف ٹیکنالوجی کے ذریعے انہیں معیار بہتر کرنے کا موقع مل سکے۔ ایک کاروبار کے طور پر اس میں کوئی قابل اعتراض بات نہیں اسلحہ سازی ایک ایسا کاروبار ہے جس میں بڑھوتری کے لیے انسانیت کی تباہی بنیادی ضرورت ہے۔اگر اسلحہ بنانا ہے تو اس کے لیے خریدار بھی چاہیے اور خریدار جو ظاہر ہے کہ عوام نہیں، حکومتیں ہی ہوتی ہیں، انہیں جنگی جنون کو ہوا دینی پڑتی ہے۔ ذرا اس "چین ری ایکشن" پر نظر ڈالیے کہ سرمایہ دار ایک سیاسی جماعت پر سرمایہ کاری کرتے ہیں، وہ سیاسی جماعت اقتدار میں آکر جنگی ماحول پیدا کرتی ہے، جنگی ماحول کی تیاری کے لیے عوام میں جنگی جنون پیدا کرنے کا کام میڈیا سرانجام دیتا ہے، وہی میڈیا جو ان سرمایہ داروں کی ملکیت ہے جنہوں نے سیاسی جماعت کو سپانسر کیا تھا، اس جنگی جنون کے نتیجے میں حکومت اسلحہ خریدتی ہے، پہلے قدم سے لے کر آخری قدم تک کی گئی انویسٹمنٹ بھاری منافعے کے ساتھ سرمایہ دار کو واپس مل جاتی ہے ۔۔۔ یہ چکر چلتا رہتا ہے اور عوام جنگی جنون میں نعرے لگاتے لگاتے جان سے گزر جاتے ہیں۔ اب اسی "چین ری ایکشن" کو سامنے رکھتے ہوئے دیکھیے کہ بھارت کا جنگی بجٹ اس خطے میں سب سے زیادہ یعنی 52 ارب ڈالر ہے۔ حیرت انگیز طور یہ بجٹ اپنے سے بہت بڑی معیشت یعنی برطانیہ کےجنگی بجٹ کے قریب تر ہے اور فرانس کے دفاعی بجٹ سے زیادہ ہے۔ یاد رہے کہ برطانیہ جنگی اخراجات کی مد میں 56 ارب ڈالر، فرانس 46 ارب ڈالر، جاپان 41 ارب ڈالر، جرمنی 36 ارب ڈالر، جنوبی کوریا 34 ارب ڈالر، اسرائیل 19 ارب ڈالر اور پاکستان 9 ارب ڈالر خرچ کر رہے ہیں۔
بھارتی سرمایہ دار طبقے کی وہ کمپنیاں جو اسلحہ سازی میں مصروف ہیں، ان کا سب سے بڑا خریدار بھارت ہی ہے کیونکہ باوجود کوشش کے یہ کمپنیاں غیر ملکی منڈی میں زیادہ جگہ نہیں بنا سکیں جس کی وجہ اوپر بیان کی جا چکی ہے۔ گزشتہ برس بھاتی کمپنیوں (سرکاری اور نجی) نے محض 1.4 ارب ڈالر کی برآمدات کی تھیں جنہیں رواں برس 2 ارب ڈالر تک لیجانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ دوسری جانب بھارت دنیا میں اسلحے کا سب سے بڑا درآمد کنندہ ہے جس نے گزشتہ برسوں میں 2629 ارب ڈالر کا اسلحہ درآمد کیا۔ بھارت میں اسلحہ سازی اور دفاعی مصنوعات بنانے والی نجی کمپنیوں کی کل تعداد 190 ہے جو جنگی کشتیاں، ریڈار اور ان کے پرزہ جات، چیتل ہیلی کاپٹر، دھماکہ خیز مواد اور ان سے متعلقہ سازوسامان، الیکٹرانک آلات، ہیلمٹ، فوجی گاڑیاں اور بلٹ پروف جیکٹس کے علاوہ بھی کافی سامان تیار کرتی ہیں جو بھارتی افواج کے زیر استعمال ہےلیکن ان میں سے بڑی کمپنیاں ٹاٹا گروپ، مہندرا گروپ، ریلائنس انڈسٹریز (مکیش امبانی)، ریلائنس گروپ (انیل امبانی)، بھارت فورج، ہندوجا گروپ اور گودریج وغیرہ ہی ہیں۔ قارئین جانتے ہیں کہ یہ کمپنیاں بے شمار کنزیومر پراڈکٹس اور سروسز کا بزنس بھی کرتی ہیں۔
اب ایک نظر بھارتی میڈیا اور انٹرٹینمنٹ انڈسٹری کے ریوینیو پر بھی ڈال لیجیے۔ 2015 میں اس صنعت کا کل ریوینیو 1157 بھارتی روپے تھا جسے سن 2020 تک 2260 ارب بھارتی روپے تک لے جانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ سوا ارب آبادی والے ملک میں جہاں نصف آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کرتی ہے، دفاعی اعداد و شمار کی طرح میڈیا انڈسٹری کے اعداد و شمار بھی حیرت انگیز ہیں۔ بہرحال 1157 ارب روپے کے ریوینیو میں سے ٹی وی کا حصہ 542 ارب، پرنٹ میڈیا 283 ارب اور فلم کا 138 ارب روپے ہے۔ اس کے بعد ریڈیو، میوزک، انٹرنیٹ، گیمنگ اور دیگر سافٹوئیر آتے ہیں۔
اب ذرا اوپر بیان کیے "چین ری ایکشن" کو ذہن میں رکھتے ہوئےدیکھیے کہ وہی سرمایہ دار اور صنعتکار کمپنیاں جو اسلحہ سازی کے کاروبار میں شریک ہیں، ان کا میڈیا میں کتنا عمل دخل ہے۔
ٹاٹا گروپ جو بھارت کے سب سے بڑے کاروباری گروپوں شامل ہے، اس کی میڈیا سروسز میں ٹاٹا سکائی سیٹ ٹاپ باکس اور ڈی ٹی ایچ سروسز سب کے علم میں ہیں۔ اس وقت اس گروپ کے پاس 1.6 ارب ڈالر کے دفاعی سازو سامان کے آرڈرز موجود ہیں اور یہ مزید آرڈرز کے لیے کوشاں ہے۔
مہندرا گروپ جس نے مودی کی انتخابی مہم میں بہت زیادہ تعاون کیا تھا، بھارتی ریاست گجرات میں 14 ارب ڈالر کی لاگت سے بحری جہاز سازی کے لیے شپ یارڈ تیار کر رہا ہے جہاں بھارتی نیوی کے لیے چھوٹے جنگی جہاز تیار کیے جائیں گے۔
ریلائنس (انیل امبانی گروپ) کے پاس فی الوقت 4 ارب ڈالر کے جنگی ہیلی کاپٹر تیار کرنے کا آرڈر موجود ہے۔ یہ تو آپ کے علم میں یقیناً ہو گا کہ یہی گروپ "ایمبلن "انٹرٹینمنٹ اینڈ ٹی وی، بگ میوزک، بگ سٹار انٹرٹینمنٹ،، کوڈ ماسٹرز، ڈریم ورکس پکچرز، ڈیجیٹل سینیماز، بگ سکرینز، ڈی ٹی ایچ، آئی پی ٹی وی، ریلائنس براڈکاسٹ اور بھارت میں 500 سے زائد سینما ہائوسز کا مالک بھی ہے۔
ریلائنس (مکیش امبانی گروپ) اس وقت 20 ارب ڈالر کے جنگی طیاروں کے آرڈر کے حصول کی کوشش کر رہا ہے۔ یہ گروپ کلرز ٹی وی چینل، ٹی وی 18 گروپ، سی این این/آئی بی این، سی این بی سی اور متعدد دیگر نشریاتی اداروں کا مالک ہے۔
امید ہے اب آپ کو بھارتی میڈیا کے جنگی جنون کے پس پردہ مقاصد سمجھنے میں آسانی ہوگی اور آپ جان سکیں گے کہ سرمایہ داری نظام کا عفریت کس طرح بھارتی عوام کی ذہن سازی کر کے انہیں بیوقوف بنا رہا ہے اور مودی حکومت کو جنگ پر ابھار کر اپنے کاروباری مفادات حاصل کر رہا ہے۔ اگر چہ دو ایٹمی طاقتوں کے درمیان ایک بڑی جنگ کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں لیکن اس جنگی جنون کے ذریعے بھارتی عوام کو یہ باور کرایا جا رہا ہے کہ پاکستان جیسے دشمن ملک کی سرکوبی کے لیے مزید اسلحہ خریدنا کتنا ضروری ہے۔ پھر یہی عوام حکومت کو مجبور کریں گے کہ ہمارے لیے خوراک، پانی اور بیت الخلا جیسی ضروریات کو پس پشت ڈالتے ہوئے جدید اسلحہ خریدا جائے۔ پچھلے کچھ عرصے سے بھارتی میڈیا پر ایسی رپورٹس بھی تواتر کے ساتھ دیکھنے میں آرہی ہیں جن میں بتایا جا رہا ہے کہ بھارتی افواج اسلحے کی شدید کمی کا شکار ہیں اور کسی جنگ کی صورت میں بڑے مسائل پیدا ہوں گے۔ ایسی بے بنیاد رپورٹس کا اصل مقصد بھی حکومت کو اسلحے کی خریداری کے لیے مجبور کرنا ہی ہوتا ہے جس کی وجہ آپ بخوبی جانتے ہیں۔
https://www.facebook.com/permalink.php?story_fbid=1773744719562285&id=100007803226210
“