ظلم کسی بھی حال میں قدرت کے لیے ناقابل برداشت عمل ہے۔بھارتی افواج نے کل مملکت میں عام طور پراورکشمیری مسلمانوں پر خاص طورپر ظلم کے پہاڑ توڑ رکھے ہیں۔بھارتی حکومت کے سیکولرعزائم کی قلعی اس وقت کھل جاتی ہے جب وہاں کی ریاستی انتظامیہ اقلیتوں کے ساتھ امتیازی سلوک روارکھتی ہے،اسی رویہ کے باعث بھارت کے طول و عرض میں آزادی کی تحریکیں پھل پھول رہی ہیں۔بالعموم انسانوں پر اور بالخصوص مسلمانوں پرظلم و جبرکے اس رویہ کے اثرات خود بھارتی افواج میں بھی آسانی سے دیکھے جا سکتے ہیں کہ وہاں خود کشیوں کارواج بڑی تیزی سے پھیل رہاہے۔ہرسال بہ سال گزشتہ سے زیادہ تعدادمیں خودکشیوں کے مقدمات سامنے آتے ہیں اور حکومتی ادارے اس بڑھتے ہوئے رجحان کو روکنے میں بری طرح ناکام نظر آرہے ہیں۔خودکشی کے ہر واقعہ کے بعد اس کے اسباب و وجوہ کو تلاش کرنے کے لیے تحقیقاتی ادارے موقرموادتلاش کرتے ہیں اور پھران اسباب و وجوہ کو ختم کرنے اور خودکشی کے اس واقعہ کے اثرات تک کو مٹانے کے لیے بڑے بھاری بھرکم اقدامات کیے جاتے ہیں لیکن اگلا واقعہ ایک بار پھر ان تمام مساعی پر پانی پھیردیتاہے۔پس ہرآنے والا دن بھارتی فوج کے مورال کو پست سے پست ترکرتاچلاجارہاہے،اور وہ سپاہ اپنے دشمن سے کیانبردآزماہوں گی جو خود اپنی حیات سے تنگ ہیں۔
بھارتی وزیردفاع اے کے اینٹونی نے بھارتی پارلیمان کے ایک اجلاس میں کچھ عرصہ قبل یہ روح فرسارپوتاژپڑھ کرسنائی کہ 2005کے بعد سے بھارتی فوج میں خود کشی کے سات سو اسی واقعات رونماہو چکے ہیں،اور ان میں مسلسل اضافہ دیکھنے میں آ رہاہے،2007میں 142فوجیوں نے افسران کے رویے اورحالات سے تنگ آکرخودکشی کی،2008میں یہ تعداد 150تک جا پہنچی بعض انتہائی اقدامات کے باعث 2009میں یہ تعدادکسی حد تک کم ہوئی اور اس سال 111فوجیوں نے خود کشی کی لیکن 2010میں یہ تعداد پھربڑھ کر 130تک جا پہنچی جبکہ جولائی 2011تک جب کہ یہ رپوتاژمرتب کی جارہی تھی اس وقت تک 70فوجی خود اپنے ہاتھوں قتل ہو چکے تھے۔بھارتی وزیردفاع نے یہ انکشاف بھی کیاکہ خود کشی کے اس عمل کو کوکے جانے کے باوجود اس میں مسلسل اضافہ ہوتا چلاجارہاہے۔خودکشی کرنے والے ان افراد میں سیننئراور جونئیرسب سپاہی شامل ہیں،کیونکہ 4جولائی 2012کی رپورٹ کے مطابق ”سریاکانت ورما“جوپچاس سالہ سینئرفوجی افسرتھااوربھارتی فوج میں آرمی ویلفئربورڈکے پروگرام کواڈینیٹرجیسے اہم عہدے پر فائز تھا،اس نے گلے میں پھنداڈال کر خودکشی کرلی۔رپورٹ کے مطابق یہ وہ تعد ادہے جس نے اپنے آپ کو قیدحیات سے آزاد کر لیاجبکہ فوجی ہسپتالوں کے بستر ایسے افراد سے بھرے پڑے ہیں جنہیں اس کاروائی کے بعد بچالیاگیا،گویاحقیقت اس سے کہیں تلخ ہے۔ان واقعات کی اکثریت ن فوجی یونٹوں سے متعلق ہے جو کشمیر میں تعینات ہیں اور کشمیر کے عوام پر جنہوں نے عرصہ دراز تنگ کررکھاہے۔بھارتی وزیردفاع نے ان واقعات کی اگرچہ متعددوجوہ کاذکرکیالیکن اصل وجہ کثرت ظلم و ستم جو قدرت کے لیے ناقابل برداشت ہے۔
بی بی سی(3مئی2012) کی رپورٹ کے مطابق 2001سے اب تک تیرہ سوبھارتی فوجیوں نے اپنے آپ کو قتل کرڈالاہے،اسی رپورٹ میں ایک ایسی تعدادکابھی ذکرکیاگیاہے جوخوداپنے فوجی ساتھیوں کے ہاتھوں قتل ہوئے۔بی بی سی نے اس بات کابھی انکشاف کیاہے کہ کشمیر یوں کے ہاتھوں مرنے والوں کی نسبت خودکشی کرنے والوں کی تعدادزیادہ ہے۔اس سے قیاس کیاجاسکتاہے کہ بھارتی حکومت جن فوجیوں کے قتل کاالزام کشمیری مجاہدین کے سر ڈال دیتی ہے وہ فوجی بھی اپنے ہاتھوں اپنی زندگی کاچراغ گل کیے ہوتے ہیں یاپھراپنے ہی ساتھیوں کے ہاتھوں قتل کئے گئے ہوتے ہیں۔بی بی سی کے مطابق بھارتی وزیردفاع نے پارلیمان سے خطاب کے دوران ان اقدامات کا ذکربھی کیاجو اس طرح کے واقعات کو روکنے کے لیے بھارتی حکومت کی طرف سے اٹھائے گئے،ان میں مشاورت،قیام و طعام میں بہتری،خانگی رہائش گاہ کی فراہمی اورچھٹیوں کے قوانین میں مناسب ردوبدل شامل ہیں۔لیکن یہ سب اقدامات لاحاصل ثابت ہورہے ہیں اور خودکشی کے واقعات مسلسل اضافہ پزیرہیں۔بھارتی فوج کے ایک ریٹائرڈسینئرافسر”میجرجنرل اشوک مہتا“نے ان حالات کا ذمہ دار بھارتی عسکری قیادت کو قراردیاہے،اس افسر کے بیان کے مطابق تنظیم میں کمی اور
قیادت کی ناقص کارکردگی سے جوان خودکشی کررہے ہیں اور آپس میں ہی ایک دوسرے کو قتل کیے چلے جارہے ہیں۔
”دی ٹائمزآف انڈیا“کے مطابق بھارتی مرکزی حکومت ایک عرصے سے صوبائی حکومتوں کے سربراہوں کو چٹھیاں لکھ رہی ہے کہ ان کے علاقے میں موجود فوجیوں کے خاندانوں کی خصوصی سرپرستی کی جائے اوران کی شکایات کا ازالہ کیاجائے کیونکہ فوجی اپنی تعیناتی کے دوران اپنے اہل خانہ کے لیے پریشان رہتے ہیں۔بھارتی جریدے ”دی سنڈے گارڈین،یکم ستمبر“کی رپورٹ کے مطابق ”ڈاکٹر ارونا بروتا“جوبھارتی فوج میں ماہرنفسیات کی حیثیت سے کام کررہی ہیں انہیں جب خود کشی کے ان واقعات کی نفسیاتی تحقیق پرمامور کیاگیاتو ان کا کہنا تھا کہ بھارتی فوجی اپنی پیشہ ورانہ زندگی سے مطمئن نہیں ہیں جس کے باعث زہنی تناؤ انہیں اس آخری اقدام پر مجبورکرتاہے۔موقرجریدے نے تنقید کرتے ہوئے لکھاہے جب فوج میں تعیناتی کے وقت نفسیاتی آزمائشوں سے جوانوں کوپرکھاجاتاہے تواس وقت کسی بھی جوان کی جذباتی سطح کاصحیح اندازہ کیوں نہیں کرلیاجاتا،کہ بعد میں وہ خود کشی پر آمادہ ہوجاے؟؟۔بھارتی فوج کے ایک اور ادارے(Defence Institute of Psychological Research (DIPRکے مطابق اس طرح کے واقعات پرامن علاقوں میں تعینات فوجیوں کے اندرزیادہ ہوتے ہیں جس کی متعدد وجوہ اس ادارے نے پیش بھی کی ہیں۔اس ادارے نے کم و بیش 2000فوجیوں سے ایک سوالنامے پر درج معلومات کے اندراج کے ذریعے یہ سروے منعقدکرایااور جو تجاویز دیں ان میں دو تجاویز قابل غور ہیں،ایک تو یہ کہ نوجوان عسکری قیادت کامعیار بہت گراہواہے اسے بہتربنایاجائے اور دوسری تجویزیہ پیش کی کہ افسران اور جوانوں کے درمیان ہم آہنگی کی بہت کمی ہے اسے دور کیاجائے۔یہ دو تجاویزجس فوج کے لیے پیش کی گئی ہیں اس کی عسکری کارکردگی کاکیامعیارہوگا یہ نوشتہ دیوارہے جو چاہے پڑھ لے۔پریس ٹی وی کی رپورٹ میں کہاگیاہے کہ ایک اور سروے رپورٹ کے مطابق بھارتی فوج میں 38.56%ذہنی مریض ہیں،14.17%شراب کی بنیادپر زندگی گزاررہے ہیں اور9.8%شدیدذہنی دباؤ کا شکارہیں۔
بھارت حکومت ایک ہزار قسم کے اقدامات کرلے لیکن جب تک خون کی ہولی ختم نہیں ہو گی مکافات عمل کاسلسلہ جاری رہے گا۔جن ماؤں کے لختت جگرگم ہوگئے اور آج تک ان کی خبر نہیں اور جن خواتین کے سہاگ اجڑگئے اور جو بچے یتیم ہوگئے،آخر کوئی ان کا بھی پیداکرنے والاہے،کوئی توہے جو ان مظلوموں کابھی ولی وسرپرست ہے،کہیں توان کی بھی سنی جاتی ہے،کوئی مقام تو ایسا بھی جہاں ان کی آہ و بقا بھی پہنچتی ہے،وہ کسی مذہب سے تعلق رکھتے ہوں یا کسی بھی رنگ،نسل،علاقے اور زبان کے حامل ہوں بہرحال وہ لاوارث تو نہیں ہیں نا،کل دنیاکاایک وارث تو ہے ہی کوئی اسے مانے یانہ مانے وہ تب بھی سب کا وارث ہے اورسب کی سنتاہے۔مملکت ہندوستان کے اہل حل و عقدہوش کے ناخن لیں اوراپنے پہلے گزرے ہوئے فراعین کی تاریخ دہرانے سے گریزکریں۔افواج کی نفسیات باقی شہریوں کی نسبت بہت مختلف ہوتی ہے،فوج جب قوم کے لیے لڑتی ہے،فوج جب قوم کے لیے قربانی دیتی ہے اور فوج جب قوم کے لیے اپناتن من دھن واردیتی ہے تواس وقت قوم کے ہیروزمیدان جنگ سے جنم لیتے ہیں۔تب قوم چاہتی ہے کہ فوج اس سے محبت کرے اور وہ اپنی فوج سے محبت کریں۔قوم کے یہ جذبات فوجیوں کی نفسیات کو متوازن رکھتے ہیں تب انہیں اپنے گھرسے دوری چھبتی نہیں ہے بلکہ کل وطن انہیں اپنے گھرجیسالگتاہے اس لیے ہر جگہ کی خواتین انہیں ماؤں،بہنوں اور بیٹیوں جیساپیاردیتی ہیں اور ہر جگہ کے مرد انہیں باپ بھائی اور بیٹوں جیسی چاہت دیتے ہیں۔لیکن جب معاملہ مختلف ہواور قوم کے لیے لڑنے کی بجائے قوم سے ہی لڑنا شروع کردے اور اپنی ہی مادروطن کے سپوتوں کواغواکرے اورانہیں ٹھکانے لگادے اور ان کی لاشیں تک گم کر دے تو پھر یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ فوج فوج سے تو لڑ سکتی ہے لیکن فوج قوم سے کبھی نہیں لڑ سکتی۔تب قوم اس سے نفرت کرنے لگتی ہے۔اس صورت حال میں فوجی اپنی ذات میں تنہارہ جاتاہے اور اسے جہاں اپنے عدم تحفظ کااحساس ہوتاہے وہاں اسے اپنے اہل خانہ بھی غیرمحفوظ نظرآنے لگتے ہیں اور نتائج زیرنظرموضوع تک جا پہنچتے ہیں۔
ہندوبنئے کاجنگی جنون صرف ہمسایہ ممالک کے لیے ہی نہیں بلکہ خود اس کی اپنی قوم کے لیے بھی تباہ کن ثابت ہورہاہے،کل ہندوملت بھی اس گناہ سے اس لیے مبراسمجھی جاسکتی ہے کہ صرف برہمنیت ہی اس تباہی کی ذمہ دارہے۔اسلحے پر اور دفاع پر خرچ کیے جانے والی رقم اگر بھارتی عوام کے معیارزندگی کی بڑھوتری پر خرچ کی جائے تو بلامبالغہ دودھ کی نہریں بہنے لگیں۔لیکن برہمنیت نے مسلمان دشمنی میں پورے برصغیرکوگرم تندورکی طرح دہکادیاہے۔بھارت کااس خطے کے بڑاملک ہونے کایہ مطلب نہیں کہ باقی ممالک اپنے جمہوری حق وجودسے دستبردارہوجائیں۔بھارتی حکومت کی خطے میں بالادستی کا خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہ ہوپائے گا۔تاریخ شاہد ہے کاتب تقدیرنے اس خطہ ارضی کی حکومت شمال کے باسیوں کی قسمت میں لکھی ہے اور اب بھی شمال میں حق و شر کی کشمکش اپنے آخری مرحلے میں داخل ہو چکی ہے اور بدیسی استعمارکابستریہاں سے گول ہونے کو ہے ۔فرزندان توحید کل زمین کی طرح برصغیرپر بھی اپناحق حکمران رکھتے ہیں،جس طرح نام نہادسرخ سویرااپنے تاریک انجام کو پہنچ چکااسی طرح سرمایادارانہ نظام کامداری بھی اپناتماشاختم کیاچاہتاہے اوربرہمنیت بھی بہت جلدصرف مندرتک محدود ہونے والی ہے کہ اب استحصال کا دم آخریں ہے،انشاء اللہ تعالی۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...