آج – 6/جنوری 1885
جدید ہندی ادب کا معمار اردو کا ہی ایک شاعر، اسی نے جدید نثر کو نیا رنگ و آہنگ اور طرز اسلوب عطا کیا، ہندی کی تجدید نو کے مبلغ ، کلاسکی طرز میں اپنی اردو غزل گوئی کے لیے مشہور شاعر ” بھارتیندو ہریش چندر رساؔ “ کی برسی…
بھارتیندو ہریش چندر ۹ ؍ستمبر ۱۸۵۰ء کو بنارس میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد گوپال چندر، گروہر داس کے قلمی نام سے شاعری کرتے تھے۔ بچپن میں ہی والدین کا سایہ سر سے اٹھ گیا تھا۔ انہوں نے ۱۵ سال کی عمر میں اپنے والدین کے ساتھ پوری کے جگناتھ مندر کی یاترا کی تھی اور وہ بنگال کی نشاۃثانیہ سے بہت متاثر تھے۔ یہیں سے انہیں ڈرامے اور ناول لکھنے کی تحریک ملی۔
بھارتیندو ہریش چندر نے مختلف نثری اصناف میں اہم کارنامے انجام دیے ہیں۔ صحافی کی حیثیت سے بھی ان کا نام بہت اہم ہے۔ انہوں نے کوی واچن سدھا (۱۸۶۸ء) ہریش چندر میگزین (۱۸۷۳ء) ہریش چندر پتریکا اور بال بودھنی جیسے رسالوں کی ادارت کی۔
ڈارمہ نگار کے طور پر ان کی پہچان مستحکم ہے۔ ان کے مشہور و معروف ڈراموں میں بھارت دردشا (۱۸۷۵ء) ستیہ ہریش چندر (۱۸۷۶ء) نیل دیوی (۱۸۸۱ء) اندھیر نگری (۱۸۸۱ء) قابل ذکر ہیں۔
بھارتیندو نے بہت سی شاہکار تخلیقات کے ترجمے بھی کئے ہیں جن میں شکسپیر کی مرچنٹ آف وینس کاترجمہ ’درلبھ بندھو‘ کے عنوان سے کیا ہے۔ بنگلہ اور پراکرت سے بھی ترجمے کئے ہیں جن میں ودیا سندر، کرپورا منجری اہم ہیں۔ رتناولی اور مدراراکشش بھی ان کی ترجمہ کردہ کتابیں ہیں۔
بھارتیندو ہریش چندر اصلاحاتی تحریک سے بھی جڑے ہوئے تھے۔عورتوں میں تعلیمی بیداری کے لیے ’بال بودھنی‘ نام سے ایک رسالہ بھی شائع کرتے رہے۔ عورتوں کی تعلیم سے متعلق ان کی کئی کتابیں ہیں۔ نیل دیوی ڈرامہ کا موضوع بھی عورتوں کی تعلیم ہی ہے۔ بھارتیندو ہریش چندر کا بنارس میں ۶؍جنوری ۱۸۸۵ء میں انتقال ہو گیا۔ اس وقت ان کی عمر ۴۳ سال تھی۔
پیشکش : اعجاز زیڈ ایچ
✦•───┈┈┈┄┄╌╌╌┄┄┈┈┈───•✦
مشہور شاعر بھارتیندو ہریش چندر کی برسی پر منتخب اشعار بطور خراجِ عقیدت…
ہو گیا لاغر جو اس لیلیٰ ادا کے عشق میں
مثل مجنوں حال میرا بھی فسانہ ہو گیا
—
کس گل کے تصور میں ہے اے لالہ جگر خوں
یہ داغ کلیجے پہ اٹھانا نہیں اچھا
—
کسی پہلو نہیں چین آتا ہے عشاق کو تیرے
تڑپتے ہیں فغاں کرتے ہیں اور کروٹ بدلتے ہیں
—
مر گئے ہم پر نہ آئے تم خبر کو اے صنم
حوصلہ اب دل کا دل ہی میں مری جاں رہ گیا
—
مثل سچ ہے بشر کی قدر نعمت بعد ہوتی ہے
سنا ہے آج تک ہم کو بہت وہ یاد کرتے ہیں
—
قبر میں راحت سے سوئے تھے نہ تھا محشر کا خوف
بعض آئے اے مسیحا ہم ترے اعجاز سے
—
رُخِ روشن پہ اس کی گیسوئے شبِ گوں لٹکتے ہیں
قیامت ہے مسافر راستہ دن کو بھٹکتے ہیں
—
یہ کہہ دو بس موت سے ہو رخصت کیوں ناحق آئی ہے اس کی شامت
کہ در تلک وہ مسیح خصلت مری عیادت کو آ چکے ہیں
—
پھر مجھے لکھنا جو وصف روئے جاناں ہو گیا
واجب اس جا پر قلم کو سر جھکانا ہو گیا
—
بیٹھے جو شام سے ترے در پہ سحر ہوئی
افسوس اے قمر کہ نہ مطلق خبر ہوئی
—
اسیرانِ قفس صحن چمن کو یاد کرتے ہیں
بھلا بلبل پہ یوں بھی ظلم اے صیاد کرتے ہیں
—
دلا اب تو فراقِ یار میں یہ حال ہے اپنا
کہ سر زانو پہ ہے اور خونِ دل آنکھوں سے جاری ہے
●•●┄─┅━━━★✰★━━━┅─●•●
بھارتیندو ہریش چندر
انتخاب : اعجاز زیڈ ایچ
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...