آج – 2/جنوری 1919
بھارت کے مشہور شاعر” محبؔ عارفی صاحب “ کا یومِ ولادت…
محمد محب اللہ صدیقی نام اور محبؔ تخلص ہے۔ ۲؍جنوری ۱۹۱۹ء کو قصبہ یوسف پور، ضلع غازی پور (بھارت) میں پیدا ہوئے۔ ۱۹۴۰ء میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے بی اے کیا۔اسی سال گورنمنٹ آف انڈیا کے مرکزی حکومت میں ملازمت اختیار کی۔قیام پاکستان کے بعد کراچی آگئے اور وزارت خزانہ میں کلرک کی آسامی پر کام کرنے لگے۔۱۹۷۹ء میں ریٹائر ہونے کے بعد کراچی میں سکونت پذیر ہیں۔ نظموں اور غزلوں کا ایک مجموعہ ’’گل آگہی‘‘ کے نام سے ترتیب دیاجو ایک کتاب کے حصے کے طور پر۱۹۶۲ء میں چھپا۔ اس کتاب کا نام ’’تین کتابیں‘‘ تھا۔آپ کا دوسرا شعری مجموعہ’’چھلنی کی پیاس‘‘ کے نام سے شائع ہوا۔
’’تجسس کا سفرنامہ‘‘، ’’میر تقی میرؔ اور آج کا ذوق شعری‘‘ اور ’’شعریات ،مسلک معقولیت‘‘ بھی ان کی تصانیف ہیں۔
بحوالۂ:پیمانۂ غزل(جلد دوم)،محمد شمس الحق،صفحہ:97
پیشکش : اعجاز زیڈ ایچ
✦•───┈┈┈┄┄╌╌╌┄┄┈┈┈───•✦
معروف شاعر محبؔ عارفی کے یوم ولادت پر منتخب اشعار بطور خراجِ عقیدت…
آئینہ ہے ذات اپنی معمور ہوں جلوؤں سے
مستور ہے نظروں سے ہر چند جمال اپنا
—
اپنے مرکز کو اک وہم سمجھا کیا عقل کا دائرہ
جس کو کچھ اپنے دام کشش کے سوا دل نہیں مانتا
—
سایہ جس کا نظر آتا ہے مجھے
وہ بھی سایہ نظر آتا ہے مجھے
—
وہ آفتابِ حسن ہے جلوے لٹائے جائے گا
اس کو اب اس سے کیا غرض مشتاق کتنا کون ہے
—
اب یہاں کوئی نہیں پہلے یہاں تھا کوئی
جس کے دم سے یہ مکاں اور مکاں تھا کوئی
—
شعلۂ شوق کی آغوش میں کیوں کر آؤں
اک تمنا ہوں کہ مٹ جاؤں اگر بر آؤں
—
پیتا رہا کیا عمر بھر پی کر تمنا کا لہو
کچھ دن سے میری آستیں کچھ زیر لب کہتی تو ہے
—
اس کو پا جاؤں کبھی ایسا مقدر ہے کہاں
اور اٹھا لوں اس سے دل یہ زور دل پر ہے کہاں
—
میرے ساتھ آئے ہیں میرے ساتھ جائیں گے
ہوں جہاں قدم میرے راستے وہیں ہوں گے
—
خردِ یقیں کے سکوں زار کی تلاش میں ہے
یہ دھوپ سایۂ دیوار کی تلاش میں ہے
—
جو زخموں سے اپنے بہلتے رہیں گے
وہی پھول ہیں شہد اگلتے رہیں گے
—
اپنی آگ میں بھنتی جائے بنتی جائے کفن اپنا
گویا اسی لیے چھوڑا ہے چنگاری نے وطن اپنا
—
خیال ذہن شکن سے زبان بھر آ جائے
یہ ہو تو ہاتھ مرے کوئی شعر تر آ جائے
—
خوشبو سے محبؔ کھیلو کیا عود کو روتے ہو
اس عہد کی نظروں سے مخفی ہے ملال اپنا
◆ ▬▬▬▬▬▬ ✪ ▬▬▬▬▬▬ ◆
محبؔ عارفی
انتخاب : اعجاز زیڈ ایچ