إِنَّا لِلّهِ وَإِنَّـا إِلَيْهِ رَاجِعونَ
آج – 25؍دسمبر 2020
نمایاں اردو تنقید نگار، بھارت کے مشہور و معروف شاعر” شمسؔ الرحمن فاروقی صاحب“ طویل علالت کے بعد آلہ آباد میں انتقال کر گئے……
نام شمس الرحمن فاروقی، ڈاکٹر۔ 15؍جنوری 1936ء کو پرتاب گڑھ یوپی (بھارت) میں پیدا ہوئے۔ الٰہ آباد یونیورسٹی سے 1953ء میں انگریزی میں ایم اے کیا۔علم وفضل کی قدیم روایت باپ اور ماں دونوں سے ورثے میں ملی۔ ذریعہ معاش کے لیے حکومت ہند میں طویل عرصے نوکری کی۔ یہ شاعر کے علاوہ افسانہ نگار ، نقاد اور محقق ہیں۔ رسالہ ’’شبِ خون‘‘ جو الہ آباد سے نکلتا رہا ، اس کے ایڈیٹر تھے۔ یہ دودرجن سے زائد کتابوں کے مصنف اور مؤلف ہیں۔ چند کتابوں کے نام یہ ہیں:
’’گنج سوختہ‘‘، ’’سبز اندرسبز‘‘، ’’چارسمت کا دریا‘‘، ’’آسماں محراب‘‘ (شعری مجموعہ)، ’’سوار اوردوسرے افسانے‘‘، ’’افسانے کی حمایت میں‘‘، ’’لفظ ومعنی‘‘، ’’فاروقی کے تبصرے‘‘، ’شعر شور انگیز‘‘، ’’عروض، آہنگ اور بیان‘‘، ’’اردو غزل کے اہم موڑ‘‘ (مجموعہ ہائے مضامین)۔
شمس الرحمن فاروقی صاحب، آج 25؍دسمبر 2020ء کو اپنی رہائش گاہ آلہ آباد میں انتقال کر گئے۔ ایک مہینہ قبل انہیں کورونا ہوا تھا جس سے وہ نجات پاچکے تھے لیکن بعد میں انہیں پھیپھڑوں میں انفیکشن ہوگیا تھا۔ ڈاکٹروں کے مشورے پر انہیں آج ہی دہلی سے یہاں لایا گیا تھا جہاں انہوں نے صبح 11.30 بجے آخری سانس لی۔ پسماندگان میں دو بیٹیاں ہیں۔ ان کی اہلیہ کا انتقال چند سال قبل ہوگیا تھا۔ وہ ایک عرصہ سے علیل تھے اور آج ہی دہلی سے ڈاکٹروں کے مشورہ پر ایر ایمبولینس سے انہیں ان کے گھر الہ آباد لایا گیا تھا جہاں انہوں نے آخری سانس لی۔ ان کی نماز جنازہ اور تدفین آج شام 6 بجے ادا کی جائے گی۔
بحوالۂ:پیمانۂ غزل(جلد دوم)،محمد شمس الحق،صفحہ:310
پیشکش : اعجاز زیڈ ایچ
✦•───┈┈┈┄┄╌╌╌┄┄┈┈┈───•✦
مشہور شاعر شمس الرحمن فاروقی کے یوم وفات پر منتخب کلام بطور خراجِ عقیدت…
ان کا خیال ہر طرف ان کا جمال ہر طرف
حیرتِ جلوہ رو بہ رو دستِ سوال ہر طرف
مجھ سے شکستہ پا سے ہے شہر کی تیرے آبرو
چھوڑ گئے مرے قدم نقشِ کمال ہر طرف
ہم ہیں جواں بھی پیر بھی ہم ہیں عدم بھی زیست بھی
ہم ہیں اسیرِ حلقۂ قول محال ہر طرف
نغمہ گرا ہے بوند بوند پھر بھی اٹھی ہے کتنی گونج
اڑتی پھرے ہے ذہن میں گردِ خیال ہر طرف
قلبِ حیات و موت سے مل نہ سکا کوئی جواب
پھینکا کیے ہیں گرچہ ہم سنگ سوال ہر طرف
●━─┄━─┄═••═┄─━─━━●
جو اترا پھر نہ ابھرا کہہ رہا ہے
یہ پانی مدتوں سے بہہ رہا ہے
مرے اندر ہوس کے پتھروں کو
کوئی دیوانہ کب سے سہہ رہا ہے
تکلف کے کئی پردے تھے پھر بھی
مرا تیرا سخن بے تہہ رہا ہے
کسی کے اعتماد جان و دل کا
محل درجہ بہ درجہ ڈھہ رہا ہے
گھروندے پر بدن کے پھولنا کیا
کرائے پر تو اس میں رہ رہا ہے
کبھی چپ تو کبھی محوِ فغاں دل
غرض اک گو مگو میں یہ رہا ہے
●•●┄─┅━━━★✰★━━━┅─●•●
شمسؔ الرحمن فاروقی
انتخاب : اعجاز زیڈ ایچ
آپ شمسؔ الرحمن فاروقی کی کتب پنجند۔کام کے اس لنک سے پڑھ سکتے ہیں۔