آج – 16؍جنوری 2017
بھارت کے معروف شاعر” شہبازؔ ندیم ضیائی صاحب “ کا یومِ وفات…
نام محمّد فاروق انصاری اور قلمی نام شہبازؔ ندیم ضیائی، ٢١؍اکتوبر ١٩٥١ء کو دہلی میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد کا نام صوفی احمد اللہ تھا۔ شہباز ندیم، ضیا خورجیوی کے شاگرد تھے۔ ان کی شائع شدہ تصانیف میں "جذبوں کی زبان " (1982) ، "شہباز " (1995) ، "وصالِ موسم " (1997) ، "ایک چراغ تنہا سا " (2003) ، "معجزہ" (نعت ، 2001 ، کا مجموعہ) شامل ہیں۔ خوبرو چہرہ ، عشق ہے وغیرہ ۔شہبازؔ ندیم ضیائی ١٦؍جنوری ٢٠١٧ء کو انتقال کر گئے ۔
✦•───┈┈┈┄┄╌╌╌┄┄┈┈┈───•✦
بھارتی شاعر شہبازؔ ندیم ضیائی کے یوم وفات پر منتخب کلام بطور خراجِ عقیدت…
دیارِ شام نہ برجِ سحر میں روشن ہوں
میں ایک عمر سے اپنے ہی گھر میں روشن ہوں
ہجومِ شب زدگاں سے فرار ہو کر آج
جمال شعلۂ شمع سحر میں روشن ہوں
میں منتظر ہوں تو پھر منتظر بھی آئے گا
چراغِ جاں کی طرح رہگزر میں روشن ہوں
نہ جانے کب مری ہستی دھواں دھواں ہو جائے
میں ایک ساعتِ نا معتبر میں روشن ہوں
مرے حریفِ سخن کچھ تجھے خبر بھی ہے
ترے سبب سے حصار ہنر میں روشن ہوں
نظام گردشِ دوراں مرا مقدر ہے
میں اک ستارے کی صورت سفر میں روشن ہوں
اکیلا جان کے خود کو نہ ہو اداس کہ میں
مثالِ اشک تری چشمِ تر میں روشن ہوں
مجھے تلاش نہ کر میری ذات میں شہبازؔ
بہت دنوں سے جہانِ دگر میں روشن ہوں
●━─┄━─┄═•••═┄─━─━━●
ساعتِ آسودگی دیکھے ہوئے عرصہ ہوا
مفلسی کو میرے گھر ٹھہرے ہوئے عرصہ ہوا
لمحۂ راحت رسا دیکھے ہوئے عرصہ ہوا
ماں ترے شانے پہ سر رکھے ہوئے عرصہ ہوا
ہجر کی تاریکیوں کا سلسلہ ہے دور تک
چاندنی کو چاند سے بچھڑے ہوئے عرصہ ہوا
زندگی بے خواب لمحوں میں سمٹ کر رہ گئی
ہجر میں تیرے پلک جھپکے ہوئے عرصہ ہوا
خوف سے سہما ہوا ہے دل پرندہ آج بھی
سر سے سیلاب الم گزرے ہوئے عرصہ ہوا
دل کو رہتا ہے مسلسل منتشر ہونے کا خوف
یعنی اندر سے مجھے ٹوٹے ہوئے عرصہ ہوا
کاروبارِ زیست میں کچھ اس قدر الجھا کہ بس
تیرے بارے میں بھی کچھ سوچے ہوئے عرصہ ہوا
اے ہجومِ آرزو اب چاہتا ہوں تخلیہ
خانۂ دل میں تجھے رہتے ہوئے عرصہ ہوا
میں کہاں ہوں کون سی منزل میں ہوں کوئی بتائے
مجھ کو اپنی کھوج میں نکلے ہوئے عرصہ ہوا
دشمنی گم ہو گئی ہے دوستوں کی بھیڑ میں
چہرہ ہائے دشمناں دیکھے ہوئے عرصہ ہوا
جا تو اپنی راہ لے اب اے دلِ عشرت طلب
پہلوئے شہبازؔ میں بیٹھے ہوئے عرصہ ہوا
◆ ▬▬▬▬▬▬ ✪ ▬▬▬▬▬▬ ◆
شہبازؔ ندیم ضیائی