آج – 07؍فروری 1930
بھارت کے معروف اور ممتاز شاعر” ریاست علی تاجؔ صاحب “ کا یومِ ولادت…
نام ابو محمّد ریاست علی صدّیقی، تخلص تاجؔ تھا ۔ وہ 7؍فروری 1930ء کو رحمت صدیقی کے یہاں کریم نگر (حیدر آباد) بھارت میں پیدا ہوئے ۔ مقامی اسکول سے تعلیم حاصل کی اور مختلف زبانیں سیکھیں اور اس پر عبور حاصل کیا ۔ ابتدا میں انہوں نے اردو عالم ادیب کامل علی گڑھ سے کامیاب کیا پھر ہندی وبھوشن پاس کیا ۔ بے اے، بی او ایل اور ایم اے ڈگری عثمانیہ یونیورسٹی سے حاصل کی اور مخطوطہ شناسی میں پوسٹ ایم۔ اے ڈپلومہ کیا ۔ " دکنی لوک گیت" کے موضوع پر ڈاکٹر رفیعہ سلطانہ کی نگرانی میں یونیورسٹی کی اعلیٰ ترین ڈگری حاصل کی ۔ 20 دسمبر 1950ء کو وہ درس و تدریس کے فرائض انجام دینے لگے اور فروری 1988ء کو بہ حیثیت لکچرر کالج آف سائنس کریم نگر سے وظیفۂ حسن خدمت پر سبکدوش ہوئے ۔
ریاست علی تاجؔ، شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ ادیب، محقق، مترجم، تنقید نگار اور ماہر لسانیات بھی تھے ۔انہوں نے ایم۔ اے کی تکمیل کے دوران پروفیسر سید نجیب اشرف ندوی کی حیات، شخصیت اور کارنامے پر گراں قدر مقالہ پیش کیا تھا جس کے نگراں کار ڈاکٹر مغنی تبسّم تھے ۔اردو کے علاوہ تیلگو زبان میں بھی دسترس حاصل تھا ۔
ریاست علی تاجؔ، ٣؍اپریل ١٩٩٩ء انتقال کر گئے۔
✨ پیشکش : اعجاز زیڈ ایچ
✦•───┈┈┈┄┄╌╌╌┄┄┈┈┈───•✦
ممتاز شاعر ریاست علی تاجؔ کے یوم ولادت پر منتخب کلام بطور خراجِ عقیدت…
زادِ رہ بھی نہیں، بے رختِ سفر جاتے ہیں
سخت حیرت ہے کہ یہ لوگ کدھر جاتے ہیں
بے خودی میں ترے دیوانے جدھر جاتے ہیں
منزلیں پوچھتی پھرتی ہیں کدھر جاتے ہیں
ہائے کس موڑ پہ حالات نے پہنچایا ہے
آپ ہمسائے سے، ہم سایہ سے ڈر جاتے ہیں
آپ جا سکتے نہیں چاند ستاروں سے پرے
ہم ورائے حد ادراک نظر جاتے ہیں
آپ کے طنز سر آنکھوں پہ مگر یاد رہے
یہ وہ نشتر ہیں کے سینے میں اتر جاتے ہیں
آپ دیکھیں یہ مری نیند سے بوجھل آنکھیں
ہو چکی رات اجازت ہو تو گھر جاتے ہیں
زلف کھولو تو گھنی چھاؤں میں کچھ سستا لیں
دو گھڑی کے لیے سائے میں ٹھہر جاتے ہیں
زخم الفاظ کے ناسور ہوا کرتے ہیں
بات زخموں کہ نہیں زخم تو بھر جاتے ہیں
لاکھ سنجیدہ سہی تاجؔ حسینوں کی روش
دل اڑا لینے کے انداز کدھر جاتے ہیں
●━─┄━─┄═•✿✺❀✺✿•═┄─━─━━●
یہ سرمئی آفاق یہ شمعوں کے دھندلکے
آ جاؤ بھی یادوں کے جھروکوں سے نکل کے
دیوانے چلے آتے ہیں صحرا سے نکل کے
رکھ دیں نہ کہیں نظم گلستاں ہی بدل کے
پھولوں کی طرح ان کی حفاظت ہے ضروری
یہ آج کے بچے ہی بڑے ہوتے ہیں کل کے
ہے جب تو تحمل کہ کوئی آہ نہ نکلے
اک اشک کا قطرہ مری پلکوں سے نہ ڈھلکے
دو روٹیاں عزت سے جو مل جائیں تو بس ہے
دروازے پہ لے جائے نہ وقت اہل دول کے
جائیں تو کہاں جائیں ترے چاہنے والے
حالات کے تپتے ہوئے صحرا سے نکل کے
ہم دست درازی کے تو قائل نہیں ساقی
حصے میں ہمارے بھی اگر مے ہو تو چھلکے
فن کار کی منہ بولتی تصویر ہے فن بھی
تم کیا ہو بتا دیتے ہیں اشعار غزل کے
کافی ہے ہمارے لیے مٹی کے گھروندے
ہم خاک بسر اہل نہیں تاجؔ محل کے
●•●┄─┅━━━★✰★━━━┅─●•●
ریاست علی تاجؔ
انتخاب : اعجاز زیڈ ایچ