’’ہندتوا بھارتی قومیت پرستی کی علامت ہے اور آر ایس ایس ہندتوا کی سچی پیروکار ہے‘‘۔
جھاڑکھنڈ کی ریاست بھارت کے مشرقی حصے میں واقع ہے۔ اس میں جنگلات بہت زیادہ ہیں؛ چنانچہ جھاڑ جھنکار اور جھاڑیوں کی نسبت سے نام جھاڑکھنڈ ہے۔ بہار کی ریاست کو 2000ء میں دو حصوں میں تقسیم کر دیا گیا اور جنوبی حصے کو ایک الگ ریاست قرار دیا گیا۔ یوں جھاڑکھنڈ کی ریاست وجود میں آئی۔ اس کا محلِ وقوع زبردست سیاسی اہمیت کا حامل ہے۔ مشرق میں مغربی بنگال اور مغرب میں یوپی کی طاقت ور ریاستیں ہیں۔ شمال میں بہار اور جنوب میں اڑیسہ کی ریاست واقع ہے۔ مشہور و معروف شہر رانچی اس کا دارالحکومت ہے۔ صنعتی شہر جمشید پور بھی‘ جہاں 1964ء میں اور دوبارہ 1979ء میں ہولناک مسلم کُش فسادات رونما ہوئے‘ جھاڑکھنڈ ہی میں ہے۔
راگھوبار داس ان دنوں اس ریاست کا وزیراعلیٰ ہے۔ کسی زمانے میں وہ ٹاٹا سٹیل مل میں نوکری کرتا تھا۔ پھر سیاست میں آ گیا۔ اس کا انتخابی حلقہ جمشیدپور ہی ہے۔ ذات کا وہ تیلی ہے۔ بی جے پی (بھارتیہ جنتا پارٹی) کا بانی رکن ہے۔ 2004ء میں اسے بی جے پی کی جھاڑکھنڈ شاخ کا سربراہ مقرر کیا گیا‘ بی جے پی نے ’’خدمات‘‘ کے اعتراف میں 2014ء میں اُسے قومی سطح کی کمیٹی کا نائب صدر بنایا۔
جس بیان سے اس تحریر کا آغاز کیا گیا ہے‘ وہ اسی راگھوبار داس کا ہے۔ وزیراعلیٰ نے یہ بات پانچ دن قبل ایک تقریر کے دوران کہی۔ اس بیان کے مضمرات اُس وقت تک سمجھ میں نہیں آ سکتے جب تک یہ معلوم نہ ہو کہ بھارت میں ہندتوا سے کیا مراد لی جاتی ہے اور آر ایس ایس کیا چیز ہے؟ یہ حسنِ اتفاق نہیں‘ سوئِ اتفاق ہے کہ ہم پاکستانیوں کی اکثریت کو بھارتی فلمی دنیا اور بھارتی کرکٹ کے بارے میں الف سے ی تک سب کچھ معلوم ہے مگر ’’سنجیدگی‘‘ کا یہ عالم ہے کہ وہ حقائق جو بھارتی مسلمانوں کے حوالے سے‘ اور خود ہماری اپنی سلامتی کے ضمن میں حد درجہ اہم ہیں‘ ہماری توجہ سے محروم ہیں!
ہندتوا کی اصطلاح ایک کٹر متعصب ہندو وی ڈی ساورکر نے 1923ء میں وضع کی۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ اصل ہندوستانی صرف ہندو ہیں۔ ہندتوا میں ساورکر نے ہندوئوں‘ سکھوں اور جین مت اور بدھ مت کے پیروکاروں کوشامل کیا مگر مسلمانوں‘ عیسائیوں‘ یہودیوں اور پارسیوں کو غیر ہندوستانی قرار دیتے ہوئے اس عزم کا اظہار کیا کہ جو لوگ خود یا ان کے آبائو اجداد ہندو دھرم چھوڑ کر مسلمان یا عیسائی ہو گئے ہیں‘ انہیں دوبارہ ہندو بنایا جائے گا۔ اُس نے اکھنڈ بھارت کا بھی نعرہ لگایا اور ہندی زبان کو واحد قومی زبان بنانے کی مہم چلائی۔
اب سوال یہ اٹھا کہ ان نظریات کو عملی جامہ کیسے پہنایا جائے۔ اس کے لیے 1925ء میں راشٹریہ سوائم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کی تنظیم بنائی گئی۔ یہ متعصب اور کٹر ہندوئوں پر مشتمل تھی۔ 1990ء تک آر ایس ایس تمام بھارت کے طول و عرض میں خیراتی اور تعلیمی ادارے قائم کر چکی تھی۔ مہاتما گاندھی کو بھی آر ایس ایس ہی کے ایک رکن نے قتل کیا۔ آر ایس ایس کے دوسرے سربراہ گول وال کر کے بقول… ’’ہندوستان کے غیر ہندوئوں پر لازم ہے کہ وہ ہندو ثقافت اور زبان اپنائیں‘ ہندو مذہب کو سیکھیں اور اس کی عزت کریں‘ صرف اور صرف ہندو نسل اور ہندو کلچر کی عظمت کے گُن گائیں‘ دوسرے لفظوں میں ’’غیر ملکی‘‘ نہ رہیں۔ اگر وہ یہ سب کچھ نہیں کر سکتے تو بے شک ہندوستان میں رہیں لیکن اس صورت میں انہیں ہندو قوم کا مکمل ماتحت ہو کر رہنا ہوگا۔ انہیں کوئی حقوق حاصل نہیں ہوں گے‘ نہ وہ ان کا دعویٰ ہی کریں گے۔ ترجیحی سلوک کو تو وہ بھول جائیں‘ وہ عام شہری حقوق سے بھی محروم ہوں گے‘‘۔
بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) آر ایس ایس ہی کی سیاسی شاخ ہے۔
ان بنیادی حقائق سے آگاہ ہونے کے بعد جھاڑکھنڈ کے وزیراعلیٰ کا تازہ ترین بیان دوبارہ ملاحظہ کیجیے… ’’ہندتوا بھارتی قومیت پرستی کی علامت ہے اور آر ایس ایس ہندتوا کی سچی پیروکار ہے‘‘۔
دوسرے الفاظ میں حکمران جماعت بی جے پی کی قومی (یعنی مرکزی) کمیٹی کا یہ نائب صدر کہہ رہا ہے کہ جو لوگ ہندو نہیں ان کا بھارتی قومیت سے کوئی تعلق نہیں!
خود جھاڑکھنڈ میں‘ سرکاری اعدادو شمار کی رو سے صرف 68 فیصد آبادی ہندو دھرم سے تعلق رکھتی ہے۔ مسلمان چودہ فیصد ہیں۔ تیرہ فیصد آبادی قبائلی ہے اور مظاہر پرست ہے۔ عیسائی چار فیصد ہیں۔ 2001ء کی مردم شماری کے مطابق بھارت کی کل آبادی کا صرف 80 فیصد حصہ ہندوئوں پر مشتمل ہے۔ مسلمان ساڑھے تیرہ فیصد اور عیسائی تقریباً اڑھائی فیصد ہیں۔ بھارت پر عملی طور پر آر ایس ایس کی حکومت ہے۔ بی جے پی ہندتوا کا محض سیاسی لبادہ ہے۔ منظم کوششیں ریاست کی اشیرباد سے ہو رہی ہیں کہ مسلمانوں اور عیسائیوں پر زمین اس قدر تنگ کردی جائے کہ یا تو وہ اپنی الگ شناخت سے دستبردار ہو جائیں یا ملک چھوڑ کر بھاگ جائیں۔ گرجوں پر کچھ عرصہ سے مسلسل حملے ہو رہے ہیں۔ یہ اسی فروری کی بات ہے کہ ہزاروں عیسائیوں نے بھارتی پارلیمنٹ کے سامنے اپنی عبادت گاہوں پر مسلسل حملوں کے خلاف احتجاج کیا۔ سینکڑوں کو گرفتار کیا گیا۔ چونکہ اس وقت حکومت کٹر ہندوئوں کی ہے جو نظریاتی حوالے سے غیرہندوئوں کو ختم کرنے کا عزم رکھتی ہے‘ اس لیے یہ ممکن ہی نہیں کہ مسلمانوں اور عیسائیوں کو مارنے‘ لوٹنے‘ جلانے اور تنگ کرنے والوں کو روکا جائے! عملی طور پر بھارت تھیوکریسی (مذہبی حکومت) کی تحویل میں ہے!
بھارت غیر ہندوئوں کو بھارتی قومیت دینے پر تیار نہیں! اس ضمن میں ہمارا نظریہ اور عمل کس قسم کا ہے؟ کیا ہم غیر مسلموں کو پاکستانی قوم کا حصہ مانتے ہیں؟ ہماری قومیت کی بنیاد پاکستانیت ہے یا کوئی اور شے؟ کیا پاکستان میں ایک غیر مسلم کے وہی حقوق ہیں جو ایک مسلمان کے ہیں؟ اگر نہیں تو پھر جس طرح بھارتی نیشنلزم صرف ہندتوا کے لیے مخصوص ہے‘ کیا پاکستان میں بھی‘ اسی طرح‘ پاکستانی نیشنلزم صرف مسلمانوں کے لیے ہے؟
ہم نے علیحدہ وطن کا مطالبہ اس بنیاد پر کیا تھا کہ مسلمان الگ قوم ہیں اور ہندو ا لگ۔ اب ہم کہتے ہیں یا دعویٰ کرتے ہیں کہ پاکستان میں رہنے والے سب لوگ پاکستانی قوم سے تعلق رکھتے ہیں۔ پاسپورٹ کی رُو سے ہندوئوں اور عیسائیوں کی قومیت (نیشنیلٹی) بھی پاکستانی ہے اور مسلمانوں کی بھی۔ فارم پُر کرتے وقت قومیت
(Nationality)
کے خانے میں بھگوان سنگھ بھی ’’پاکستانی‘‘ کا لفظ لکھتا ہے اور عبدالکریم بھی اسی کا اندراج کرتا ہے۔ اس ظاہری تضاد کا واحد حل یہ ہے کہ ہم اپنا ریکارڈ درست کریں اور تاریخ کی حقیقت پسندانہ توجیہہ کریں۔ اُس وقت حالات اور تھے۔ متحدہ ہندوستان میں انتخابات جداگانہ ہوتے یا مخلوط‘ ہمارے حقوق خطرے میں تھے۔ معیشت اور ریاست دونوں کسی اور کے ہاتھ میں جا رہی تھیں۔ پاکستان بننے کے بعد صورت حال تبدیل ہو چکی ہے۔ عملیت پسندی کا تقاضا یہ ہے کہ اب ہماری قومیت کی بنیاد صرف اور صرف پاکستانیت ہو۔ عقائد اور مذاہب سے قطع نظر‘ ہم‘ اس ملک میں رہنے والے لوگ‘ سب پاکستانی ہیں اور برابر کے پاکستانی ہیں! قومی مساوات کی اس نعمت سے بھارت محروم ہے۔ وہاں قومیت کی بنیاد مذہب کو بنا کر غیر ہندوئوں کو دوسرے درجے کا شہری قرار دیا جا رہا ہے۔
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔
“