(Last Updated On: )
پس منظر:
دنیا ، ایک کرہ ہے جہاں سورج کی روشنی ہر وقت ہر مقام پر یکساں نہیں پڑتی بلکہ زمین کی گردش کے ساتھ ہی سورج کی روشنی کا مقام بھی تبدیل ہوتا رہتا ہے ۔
چنانچہ انسان نے اپنی سہولت کی خاطر دنیا کو 24 ٹائم زونز میں تقسیم کردیا ہے۔
ہر ٹائم زون دراصل ایک خیالی Longitude پر بیسڈ ہے اور ہر Longitude کا فرق 15 ڈگری کا ہے۔۔۔۔۔ مجموعی طور پر 360 ڈگریز یعنی پورا کرہ ارض۔
وقت کی یہ پیمائش ایک وسطی Longitude سے کی جاتی ہے جسے Prime Meridien کہا جاتا ہے۔۔۔۔جو کہ برطانیہ کے شہر “گرین وچ” میں واقع ہے۔
ہر ٹائم زون کا اپنے دونوں متوازی ٹائم زونز سے فرق 1،1 گھنٹے کا ہے۔۔۔۔24 ٹائم زونز= 24 گھنٹے۔
مثلا پاکستان اور بھارت میں وقت کا فرق نصف گھنٹہ ہے۔
بھارت اور امریکہ میں وقت کا فرق 10 گھنٹے اور 30 منٹ ہے۔
پاکستان اور کینیا کے درمیان وقت کا فرق 2 گھنٹے ہے۔
نیپال اور بھوٹان کے درمیان یہ فرق 15 منٹ ہے۔
۔
لیکن۔۔۔۔۔۔ دنیا کا جغرافیہ دراصل ٹائم زونز کے ٹھیک مطابق نہیں ۔ یعنی دنیا میں ممالک کی تقسیم ٹائم زونز کے اعتبار سے نہیں۔۔ لہذا جغرافیائی طور پر بڑے ممالک ایک سے زیادہ ٹائم زونز رکھتے ہیں جیسے روس میں 11، امریکہ میں 11، آسٹریلیاء ، برطانیہ ،انٹارک ٹیکا میں 9،
کینیڈا میں 6 ، انڈونیشیاء میں 4 اور پرتگال میں 2 ٹائم زونز ہیں۔
۔۔۔۔۔
بھارت میں وقت کے مسائل :
بھارت دنیا کا ساتواں بڑا ملک ہے لیکن بھارت صرف ایک ہی ٹائم زون کو فالو کرتا ہے جس کا Longitude اترپردیش میں مرزاپور کے مقام سے گزرتا ہے۔
لیکن۔۔۔۔ جیسے کہ میں نے بتایا کہ زمین ایک کرہ ہے اور ہم سورج کو کسی ملک یا خطے کی تمام
حدود میں ایک ہی وقت میں طلوع اور غروب ہونے پر مجبور نہیں کر سکتے ۔
مثلا ۔ بھارت میں شمال مشرقی ریاستوں میں سورج جلدی طوع ہوتا ہے اور گجرات و راجھستان میں پورے 2 گھنٹے بعد۔
گویا جب اروناچل پردیش میں صبح کا وقت ہوتا ہے تو گجرات کے لوگ گہری نیند میں ہوتے ہیں۔
ناگالینڈ میں آج طلوع آفتاب کا وقت 5:24 تھا جبکہ پنجاب میں 6:51 پر۔
۔۔۔
اور وقت کے اس فرق سے بےشمار مسائل پیدا ہوتے ہیں۔
کیونکہ سکولز ، آفسز، بنکوں کے کھلنے اور بند ہونے کے اوقات پورے ملک میں ایک جیسے ہی ہیں۔
گویا اس ٹائم سائیکل سے بننے والا سب سے بڑا اور بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ مغربی ہند میں سورج شہر سے نکلتا اور اسی طرح شہر سے غروب ہوتا ہے یعنی مغربی ہند کے باشندے مشرقی اور شمال مشرقی ہند کے باشندوں کی نسبت 1 سے 2 گھنٹے بعد سوتے ہیں۔۔۔۔لیکن۔۔۔۔سکول ٹائمنگ ایک جیسی ہونے کے باعث بچوں کو دیر سے سونے کے باوجود بھی جلدی جاگنا ہوتا ہے۔
گویا انہیں 30 منٹ سے 2 گھنٹے تک کم نیند میسر ہو پاتی ہے ۔
بالکل اسی طرح سبھی آفسز کے کھلنے اور بند ہونے کا وقت بھی ایک ہی ہے۔۔۔ گویا ورکنگ کلاس کو بھی ہمیشہ معمول سے کم نیند ہی میسر ہو پاتی ہے۔
روزانہ اگر صرف 30 منٹ بھی نیند کم ملے تو یہ سالانہ 182 گھنٹے کم نیند ہے۔
کم نیند کے باعث پیدا ہونے والے عام مسائل میں سٹریس، ڈیپریشن، بلڈ پریشر اور دل کے مسائل ، یاداشت کی کمزوری ، تھکاوٹ ، غنودگی ، جسمانی اور ذہنی استعداد کار میں کمی سر فہرست ہیں۔
گویا جہاں کروڑوں کی آبادی نیند کی کمی کا شکار ہو وہاں کوئی بھی کام اپنی نارمل استعداد کار سے کم ہی رہے گا جس سے مالی مسائل میں اضافہ ہوگا جس کا اثر ملکی معیشت پر پڑے گا۔۔۔۔
ایک ہی ٹائم زون صرف نیند ہی نہیں بلکہ دیگر بہت سے مسائل جیسے قدرتی وسائل کے ضیاع اور اضافی بجلی کے خرچ کا باعث بھی بنتا ہے جس سے ملکی معیشت پر مزید سے مزید بوجھ پڑتا چلا جاتا ہے ۔
۔۔۔۔۔
ان سب مسائل کے حل کے لیے بھارت کو اگر 4 نہیں تو کم از کم 2 ٹائم زونز میں تقسیم کرنا ضروری ہے ۔ پہلا اندرون ہند اور دوسرا شمال مشرقی ریاستیں(بھارت اور شمال مشرقی بھارت کے درمیان بنگلہ دیش واقعہ ہے)۔