برطانوی حکام نے 1909ء میں پنجاب کو برصغیر کے لیے "زرعی علاقہ" بنانے کے لیے "سندھ طاس کا منصوبہ" بنایا تاکہ ایک دریا کے پانی کو دوسرے دریا تک پہنچایا جائے۔ جہلم کو ایک نہر کے ذریعہ چناب سے ملا دیا گیا۔ پنجند اور معاون دریاؤں پر بہت سے بند اور بیراج باندھے گئے جو سیلاب کے وقت پانی کا ذخیرہ کرلیتے تھے۔ اس طرح سیلابوں پر کسی حد تک قابوں پایا گیا اور ان میں جمع شدہ پانی کو سردیوں کے خشک موسم میں استعمال کیا جانے لگا۔
1932ء میں دریائے سندھ پر سکھر کے مقام پر پہلا بیراج تعمیر کیا گیا اور دنیا کے سب سے بڑے آبپاشی کے نظام نے کام کرنا شروع کر دیا۔ برٹش انڈیا کی تقسیم سے کچھ عرصہ پہلے کالا باغ کے مقام پر دوسرا بیراج تعمیر کیا گیا۔ 1947ء تک برطانوی انجینئر سندھ طاس کو دنیا کا سب سے بڑا آبپاشی کا نظام مہیا کرچکے تھے اور انہوں نے جو طریقہ کار اختیار کیا اسے دنیا میں ھر جگہ نہروں کی تعمیر اور ان کو چلانے کے لیے استعمال کیا جاتا ھے۔
تقریباً پچاس سال تک طاقتور دریاؤں کو قابو میں رکھنے اور لگام ڈالنے کا کام ایک مکمل وحدت کے طور پر انجام دیا جاتا رھا۔ مگر 1947ء میں پنجاب کی تقسیم کے بعد سب کچھ بدل گیا۔ سر سیرل کلف اس کمیشن کا چیئرمین تھا۔ جسے پنجاب تقسیم کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی تھی۔ سر سیرل کلف نے پنجاب کی تقسیم کے وقت نہروں اور دریاؤں کو کنٹرول کرنے کے نظام کی اھمیت پوری طرح دونوں فریقوں پر واضح کردی اور تجویز پیش کی کہ دونوں ملک ایک معاھدہ کر لیں کہ وہ اس سارے نظام کو ایک اکائی کی طرح چلائیں گے۔
پاکستان اور بھارت کے رھنما ایک دوسرے پر اعتبار کرنے کے لیے تیار نہیں تھے۔ انہوں نے یہ تجویز رد کردی۔ قائد اعظم اور لیاقت علی خان شاید جانتے تھے کہ کشمیر کو پاکستان میں شامل نہیں کیا جائے گا۔ اس لیے پاکستان کو بھارت کے رحم و کرم پر رھنا پڑے گا۔ جبکہ پنڈت نہرو کو شاید امید تھی کہ کشمیر میں مسلم اکثریت کے باوجود وھاں کا ھندو راجا بھارت میں شامل ھونا پسند کرے گا۔ جبکہ لیاقت علی خان کشمیر کو پاکستان میں شامل کرنے کے بجائے حیدرآباد دکن کو پاکستان میں شامل کرنے کو ترجیج دے گا۔ کشمیر کے بھارت میں شامل ھونے کی صورت میں دریاؤں پر بھارت کی بالادستی قائم رھے گی۔
تقسیم کے وقت پنجاب کی 23 مستقل نہروں میں سے 21 پاکستان کے قبضہ میں آگئیں۔ اس لیے ظاھری طور پر پاکستان فائدے میں نظر آرھا تھا۔ لیکن بھارت کے کشمیر پر قبضہ سے بھارت کو پاکستان کی نہروں کو پانی مہیا کرنے کے نظام پر مکمل بالادستی حاصل ھوگئی۔ پجند کے پانچوں دریا مغربی پنجاب میں داخل ھونے سے پہلے کشمیر اور مشرقی پنجاب سے بہتے ھوئے آتے تھے۔ جس پر اب بھارت قابض ھوچکا تھا۔
دریائے سندھ بھی لداخ کے مقام پر بہتا ھے۔ لداخ بھی کشمیر کا ایک حصہ ھے۔ لیکن ھمالیہ کی دور دراز گھاٹیوں میں بہنے کی وجہ سے وھاں اس کا رخ بدلنا ممکن نہیں ھے۔ دوسرے دریا خاص طور پر راوی اور ستلج مشرقی پنجاب میں سے ھوتے ھوئے مغربی پنجاب میں داخل ھوتے ھیں۔ اس کے علاوہ پانی کی تقسیم کے لیے راوی اور ستلج پر قائم تمام اھم ھیڈ ورکس بھی بھارت کے قبضہ میں آگئے تھے۔
راوی اور ستلج کے ھیڈورکس پچاس سال سے ان کھیتوں کو پانی پہنچا رھے تھے جو مغربی پنجاب کے علاقے میں تھے۔ لیکن دریا کے اوپر والے حصے کے لیے دریا کے نچلے حصے کو پانی دینے کا بین الاقوامی قانون نہیں ھے۔ اس لیے بھارت اس پوزیشن میں تھا کہ وہ جب چاھتا مغربی پنجاب کو پانی کی سپلائی روک سکتا تھا۔ بھارت نے آزادی کے فوری بعد مغربی پنجاب کا پانی روک لیا۔ آخر کار رقم کی ادائیگی کے عوض پانی فراھم کرنے کے لیے مارچ 1948ء تک کی مدت کے لیے ایک معاھدے پر دستخط ھوئے۔ جس میں تنازعات کے حل کے لیے ایک کمیٹی کی تجویز بھی شامل تھی۔
مارچ 1948ء میں جب معاھدے کی مدت ختم ھوئی تو بھارت نے راوی اور ستلج کا پانی روک دیا۔ کسانوں نے گرمیوں کی فصلیں بونی شروع کی ھوئی تھیں۔ بھارت کے راوی اور ستلج کا پانی روکنے کی وجہ سے لاکھوں ایکڑ پر مشتمل فصلیں مکمل طور پر تباہ ھوگئیں۔ جبکہ پاکستان اور بھارت کے درمیان تکرار جاری تھی۔ پانی کی قیمت اور دریائی پانی وصول کرنے کے اوقات کے حوالے سے تنازعات تھے۔ اس سلسلے میں عارضی بنیادوں پر جو معاھدے ھوئے تھے۔ وہ پاکستان کے لیے غیر تسلی بخش تھے۔ کیونکہ جب مغربی پنجاب کے علاقوں میں پانی کی سپلائی میں کمی ھوتی تھی تو بھارت اپنے استعمال کے لیے پانی روک لیتا تھا۔ جب موسمی سیلاب پنجند دریاؤں میں امڈ آتے تو پاکستان کے سالانہ کوٹے میں سے پانی منہا کر لیا جاتا تھا۔ جو مغربی پنجاب کے کسی کام نہیں آتا تھا۔
1951ء میں ورلڈ بینک نے کوشش کی کہ دونوں ممالک سندھ طاس نظام کو ایک وحدت کے طور پر چلانے کے لیے آپس میں تعاون کر لیں اور کسی معاھدے پر پہچنے کی کوشش کریں۔ لیکن بھارت کسی ایسے معاھدے کا خواھش مند نہیں تھا۔ جس کے تحت اس کا دریاؤں پر سے کنڑول ختم ھوجائے۔ جبکہ پاکستان کو کسی صورت میں بھارت کی بالادستی اور دریاؤں پر پورا کنڑول منظور نہیں تھا۔ دریاؤں کے بالائی حصوں پر قبضہ کی وجہ سے راوی اور ستلج دریاؤں پر بھارت کی بالادستی قائم تھی اور مغربی پنجاب کو پانی فراھم نہیں ھورھا تھا۔ دوسری طرف بھارت کو اندرونی طور پر بڑھتے ھوئے معاشی اور سیاسی مسائل کا سامنا تھا۔ جبکہ بیرونی سطح پر چین کے دستے ھمالیہ میں اس کی بیرونی چوکیوں پر حملے کر رھے تھے۔
ورلڈ بینک کے نمائندے اور دوست حکومتیں پاکستان اور بھارت کے درمیان سندھ طاس نظام کے مسئلے کو حل کرنے میں مدد دے رھی تھیں۔ ان پر واضح ھو گیا تھا کہ سندھ طاس نظام کو ایک وحدت کے طور پر چلانا ممکن نہیں ھے۔ لہذا نئی تجاویز کے ساتھ ورلڈ بینک اور دوست حکومتیں 19 ستمبر 1960ء کو بھارت اور پاکستان کے درمیان سندھ طاس کے معاھدے پر دستخط کروانے میں کامیاب ھو گئے۔ بھارت اور پاکستان نے دریاؤں کے حوالے سے اپنے مشترکہ مفادات کو تسلیم کرتے ھوئے؛
1۔ ایک مستقل انڈس کمیشن قائم کیا۔ جو بھارت اور پاکستان کے کمشنروں پر مشتمل تھا۔
2۔ ھائیڈرولوجیکل اور موسمیاتی مراکز کا ایک مربوط نظام قائم کیا گیا۔ جس کی معلومات تک رسائی دونوں ممالک کو حاصل تھی۔
3۔ دریائے سندھ اور پنجند کے دو دریاؤں جہلم اور چناب پر بھارت نے پاکستان کی حاکمیت تسلیم کی اور بھارت نے وعدہ کیا کہ وہ ان کے بہاوَ میں کبھی بھی کوئی مداخلت نہیں کرے گا۔
4۔ پنجند کے تین مشرقی دریا راوی ' بیاس ' ستلج مکمل طور پر بھارت کے سپرد کر دیے گئے۔ لیکن بھارت نے ایک مقرہ مدت تک پانی کی ایک طے شدہ مقدار پاکستان کو مہیا کرنی تھی۔ تاکہ پاکستان مغربی دریاؤں پر ڈیم اور ھیڈ ورکس تعمیر کرکے زراعت کے لیے پانی کا انتظام کرسکے۔
پاکستان نے مقرہ مدت کے دوران مغربی دریاؤں پر ڈیم اور ھیڈ ورکس تعمیر کرکے زراعت کے لیے پانی کا انتظام کرنا تھا۔ تاکہ مشرقی دریاؤں کے مکمل بند ھو جانے کی صورت میں پانی کی کمی کو پورا کیا جاسکے۔ اس لیے ایک خطیر رقم کی ضرورت تھی۔ بھارت اور پاکستان نے کچھ رقم اکھٹی کی اور ورلڈ بینک نے قرضہ مہیا کیا۔ جبکہ امریکا ' برطانیہ ' کنیڈا اور جرمنی نے امدادی رقوم دیں۔ لہذا مغربی پنجاب میں جہلم کے مقام پر منگلا ڈیم ' صوبہ سرحد (موجودہ نام خیبر پختونخوا) میں دریائے سندھ پر تربیلا ڈیم اور دریائے کابل پر وارسک ڈیم بنائے گئے۔
دریائے جہلم ' دریائے سندھ اور دریائے کابل پر ڈیم بنا کر پانی و بجلی کا انتظام کرنے کے علاوہ زراعت کے فروغ کے لیے ھیڈ ورکس بناکر بیراج بنانے اور نہریں نکالنے کے منصوبے بھی شروع کیے گئے۔
1۔ سندھ میں 1955ء میں کوٹری بیراج مکمل ھوا۔ اس سے سندھ کے مشرقی علاقوں میں زراعت کے لیے پانی میسر آیا۔
2۔ ڈیرہ غازی خان کے نزدیک چشمہ بیراج کی تعمیر کا کام 1953ء میں شروع ھوا۔ جس کی منصوبہ بندی برطانیہ نے کی تھی۔ چشمہ بیراج کی تعمیر 1958ء میں مکمل ھوئی۔
3۔ پنجاب اور سندھ کی سرحد کے نزدیک پنجند اور سکھر کے درمیان گدو کے مقام پر 1962ء میں گدو بیراج کا کام مکمل ھو گیا۔ اس بیراج کی منصوبہ بندی بھی برطانیہ نے کی تھی۔
4۔ دوسرے بڑے ھیڈ ورکس جن کی پاکستان نے منصوبہ بندی کی تھی وہ پنجند کے دریاؤں پر پھیلے ھوئے تھے۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...