گھنٹی بجی۔ دروازہ کھولا تو میرے بچپن کے لنگوٹیے مولوی حسین احمد اور چودھری منور کھڑے تھے۔ ہم تینوں پرائمری سکول سے کالج تک اکٹھے بیٹھے اور اکٹھے کھیلے تھے۔ رزق کے ذرائع قدرت نے تینوں کے مختلف رکھے۔ مولوی حسین احمد کاروبار کی طرف گیا اور خوب کامیاب ہوا۔ چودھری منور کالج میں استاد ہوا۔ لیکچردینے کا اسے بچپن ہی سے چسکا تھا۔ دماغ کھاتا رہتا تھا۔ میں صحافت کی منشی گیری کی طرف نکل آیا۔
گھر میں داخل ہونے کے لیے انہیں اجازت کی ضرورت نہیں تھی۔ مجھے ایک طرف دھکیلتے ہوئے اندر آگئے۔ گھر کا لائونج کافی وسیع ہے۔ میں بیٹھ گیا لیکن وہ کھڑے رہے۔ دونوں ایک دوسرے کی طرف معنی خیز نظروں سے دیکھ رہے تھے مولوی حسین احمد نے منور کی طرف دیکھا اور کہنے لگا ’’تو ہوجائے پھر؟‘‘ منور مسکرایااور جواب دیا۔’’ہاں۔ ہوجائے‘‘۔ آناً فاناً دونوں بھنگڑا ڈالنے لگے۔ یوں لگتا تھا سرمستی کے عالم میں ہیں۔ پائوں کی دھمک کے ساتھ ایک ہی آہنگ میں بازوئوں کو اوپر نیچے کرتے تھے۔ پھر دیکھتے دیکھتے بھنگڑا لڈی میں تبدیل ہوگیا۔ اب وہ بازوئوں کو آگے پیچھے کررہے تھے۔ اندر سے بچے بھی آگئے اور محظوظ ہونے لگے۔
کافی دیر کے بعد انہوں نے رقص بند کیا اور بیٹھ گئے۔ چھجوکو میں نے چائے لانے کے لیے کہا۔ مولوی حسین احمد اور چودھری منور سے پوچھا کہ یہ بھنگڑے اور لڈیاں کس خوشی میں ڈالی جارہی ہیں؟دونوں بیک وقت بولے’’ کیا تم نے آج کا اخبار نہیں دیکھا؟‘‘
’’دیکھا تو ہے‘‘ میں نے جواب دیا ’’لیکن اس میں تم دونوں کے بارے میں تو کوئی خبر نہیں!‘‘
’’ہم دونوں کے بارے میں تو نہیں لیکن پوری دنیا کے مسلمانوں کے لیے خوش خبری ہے!تعجب ہے تم نے نوٹ نہیں کیا! بھائی! اللہ کے فضل سے امریکہ کے ٹکڑے ہورہے ہیں۔ اللہ نے ہماری دعائیں سن لیں۔ امریکہ کی بیس ریاستوں نے امریکی وفاق سے الگ ہونے کی درخواست دے دی ہے۔ اگر درخواست پر پچیس ہزار افراد کے دستخط ہوجائیں تو امریکی صدر اس درخواست پر غور کرنے کا پابند ہے۔‘‘
’’یہ تو بہت اہم خبر ہے۔‘‘ میں نے کہا۔
’’ہاں ! بہت بڑی خبر ہے‘‘۔ مولوی حسین احمد نے اپنی ٹوپی کو ذرا سا ترچھا کیا اور سفید ریش مبارک پر ہاتھ پھیرا۔ ’’کل سوویت یونین کے بھی ہم ہی نے ٹکڑے کیے تھے اور آج انشاء اللہ امریکہ بھی ہمارے ہاتھ ہی سے لخت لخت ہوگا‘‘۔
چھجو پیالیوں میں چائے ڈال رہا تھا۔ اس نے ایک پیالی مولوی حسین احمد کے سامنے رکھی۔ رکھنے کے بعد ایک طرف کھڑا ہوگیا اور مولوی صاحب کو غور سے دیکھنے لگا۔ پھراچانک بولا۔
’’مولوی صاحب !گستاخی نہ ہوتو کچھ عرض کروں؟‘‘
مولوی حسین احمد نے اسے تعجب سے دیکھا اور کہنے لگا ’’ہاں! بھئی!چھجو! بولو، کیا کہنا چاہتے ہو؟‘‘
’’مولوی صاحب!سوویت یونین توڑنے کے بہت سے دعویدار ہیں۔ سب سے بڑا مدعی تو امریکہ ہے۔ پھر افغان مجاہدین کا دعویٰ ہے۔ کچھ لوگ یہ سہرا جنرل ضیاء الحق کے سر باندھتے ہیں ۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ سوویت یونین اپنی کرپشن اور نااہلی سے ٹوٹا اور یہ تاریخ کی مرحلہ وار صورت تھی۔ لیکن فرض کریں یہ آپ ہی نے توڑا تو آپ کو اس سے کیا فائدہ ہوا؟ اگر آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ مسلم وسط ایشیا کی ریاستیں آزاد ہوگئیں تو یہ آپ کا خیال تو ہوسکتا ہے، اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں!ان ریاستوں پر وہی روس زدہ حکمران مسلط ہیں جو سوویت یونین کے زمانے میں حکومت کررہے تھے۔ اکثر کی بیگمات روسی ہیں۔ روسی فوجیں ان ریاستوں میں کسی نہ کسی صورت میں موجود ہیں۔ سوویت یونین کے انہدام کے بعد ان ریاستوں کے تقریباً ایک ہزار معاہدے اسرائیل سے ہوئے۔ اسی طرح تجارت‘ تعلیم اور صنعت کے شعبوں میں ان ریاستوں پر بھارت چھایا ہوا ہے۔ اردو سیکھنے کے لیے وسط ایشیائی مسلمان طالب علم اب بھی دلی اور لکھنو جاتے ہیں۔ ہوٹل بھارت تعمیر کر رہا ہے۔ جوتوں سے لے کر فلموں تک‘ منڈی میں ہرمال بھارت سے آرہا ہے۔ ایک ہفتے میں بیسیوں پروازیں ان ریاستوں کو بھارت سے جاتی ہیں۔ دوسری طرف ان ریاستوں کا نام پاکستان میں کوئی لیتا ہے نہ پاکستان کی اہمیت ان ریاستوں میں ہے!
رہا امریکہ کا ٹوٹنا تو اگر آپ یہ سمجھ رہے ہیں کہ بس ٹوٹا ہی ٹوٹا تو آپ کی عقل کے کیا کہنے! جہاں امریکہ کے سفید فام مرد اوباما کے دوسری بار صدر منتخب ہونے پر چیں برجبیں ہیں وہاں یہ بھی نہ بھولیے کہ سفید فام امریکی عورتوں کی اکثریت نے اوباما کو ووٹ ڈالا ہے ۔ اور یوں حساب برابر ہوگیا ہے۔ ووٹ ڈالنے والی امریکی آبادی میں سے 53فی صد عورتیں اور 47فی صد مرد ہیں۔ اکیلی رہنے والی (غیر شادی شدہ، بیوہ اور مطلقہ) عورتوں کی بھاری اکثریت اوبامہ کی طرفدار تھی ۔ لیکن اصل مسئلہ یہ نہیں!فرض کریں کہ امریکہ واقعی مستقبل قریب میں ٹکڑے ٹکڑے ہوجاتا ہے تو اس سے مسلمانوں کو اور بالخصوص پاکستانیوں کو کیا فائدہ ہوگا؟ دوسروں کی تباہی سے زیادہ اہم اپنی نجات ہے۔ فرض کریں آج ریاست ہائے متحدہ امریکہ سمندر میں غرق ہوکر صفحۂ ہستی سے مٹ جاتا ہے تو کیا اس سے پاکستان کے مسائل حل ہوجائیں گے؟ پاکستان کی آبادی تیزی سے خط غربت کو عبورکرتی جارہی ہے۔ خواندگی کا تناسب دن بدن کم ہورہا ہے۔ صنعتیں روبہ زوال ہیں۔ سرمایہ کار ملائیشیا ، بنگلہ دیش ، ویت نام اور کینیڈا میں منتقل ہورہے ہیں، اغوا برائے تاوان اور بھتہ خوری کی وبا ایک شہرسے دوسرے شہر میں پھیلتی جارہی ہے۔ ملک میں اسلحہ کے انبار لگے ہیں۔ ہرچوتھا شخص مسلح ہورہا ہے ۔ بجلی اور گیس ناپیدہورہی ہیں۔ قتل‘ دھماکے اور خودکش حملے روزمرہ کا معمول ہیں۔ دنیا بھر میں پاکستان کو صومالیہ ، افغانستان اور زمبابوے کے ساتھ بریکٹ کیا جارہا ہے۔ ڈالر سوروپے سے اوپر جانے کے لئے پرتول رہاہے۔ پاکستانی پاسپورٹ اور پاکستانی کرنسی پاکستانیوں کے لیے شرمندگی کا باعث ہے۔ ریلوے، پی آئی اے اور کئی دوسرے ادارے موت کے دروازے پردستک دے رہے ہیں اور مولوی صاحب!آپ امریکہ ٹوٹنے کی خوشی میں بھنگڑے ڈال رہے ہیں!واہ جی واہ!‘‘
چھجو نے چائے کی دوسری پیالی چودھری منور کو پیش کی اور اپنی بات جاری رکھی۔ ’’آپ نے وہ واقعہ کئی بار سنا ہوگا کہ میراثی کے بچے نے اپنی ماں سے پوچھا کہ چودھری کے مرنے کے بعد نمبردار کون ہوگا۔ ماں نے جواب دیا کہ ایک اور چودھری ، بچے نے پوچھا کہ وہ مرگیا تو پھر؟ ماں نے بتایا کہ اگر سارے چودھری مرگئے تب بھی تمہاری باری نہیں آسکتی۔ سوویت یونین ٹوٹ گیا۔ مسلمان اس کے بعد بھی وہیں کھڑے ہیں جہاں سوویت یونین کی موجودگی میں کھڑے تھے۔ امریکہ ٹوٹ گیا تو سپرپاور بننے کے لئے چین بھی تیار ہے اور یورپی یونین بھی !جاپان بھی اس دوڑ میں شامل ہے اور بھارت کا شمار بھی طاقت ور اورترقی یافتہ ملکوں میں ہونے لگا ہے۔ بھارتی بھاری تعداد میں بیرون ملک سے واپس اپنے ملک میں آرہے ہیں لیکن مسلمانوں کی قطاریں غیرملکی سفارت خانوں کے سامنے طویل سے طویل ترہوتی جارہی ہیں۔ پچپن مسلمان ملکوں میں ایک ملک بھی ایسا نہیں جہاں مسلمان جاکر آباد ہوسکیں۔ ان پچپن ملکوں کے مسلمان آسٹریلیا ،یورپ، امریکہ اور کینیڈا جارہے ہیں اور واپس نہیں آنا چاہتے۔
کیا عقل کا تقاضا یہ نہیں کہ دوسروں کے خاتمے پر ڈھول پیٹنے کے بجائے اپنی فکر کی جائے؟