نام نہ جانے اس کا کیا تھا۔ سب ڈوری کہہ کر پکارتے تھے۔ شاید بہری تھی اس لیے ڈوری کہلاتی تھی۔ چھوٹا سا قد‘ چہرے پر جھریوں کا جال۔ دائیں طرف ٹوکرے کو کمر اور بازو کے درمیان رکھے‘ بائیں ہاتھ میں جھاڑو۔ ڈوری صبح صبح آتی تھی۔ قصبے کی جس گلی میں ہم رہتے تھے‘ اُس کے سارے گھر اُسی کے ذمے تھے۔ میرا سِن کچا تھا۔ بہت سی باتیں اُس زمانے کی یادداشت کی گرد میں کھو گئی ہیں۔ مگر اُس بڑھیا کا ہر روز آنا‘ خاموشی سے سیڑھیاں چڑھ کر بالائی منزل پر جانا‘ دور ایک کونے میں واقع بیت الخلا کو صاف کرنا اور پھر قدموں کی آواز پیدا کیے بغیر سیڑھیاں اُتر کر باہر چلے جانا آج بھی یوں یاد ہے جیسے کل کی بات ہے۔
آج کے بہت سے بچوں‘ بلکہ شاید نوجوانوں کو بھی نہیں معلوم کہ فلش سسٹم سے پہلے کون سا ’’سسٹم‘‘ تھا اور اُس سسٹم میں بھنگی کی کیا اہمیت تھی۔ دو دن… صرف دو دن… بھنگی ہڑتال کرتے تو قیامت آ جاتی۔ سب معتبروں کو‘ اکڑی ہوئی گردنوں کو اور پھولی ہوئی توندوں کو دن میں تارے نظر آ جاتے۔ بھنگی کا کوئی نعم البدل نہ تھا۔ وہ معاشرے میں ریڑھ کی ہڈی جیسا اہم تھا۔
کفار کی ایجاد‘ فلش سسٹم‘ ہم مسلمانوں کے ہاں بھی بالآخر پہنچ گئی۔ اس ایجاد کو انگریزوں نے کئی مراحل کے بعد وہ صورت بخشی جو آج رائج ہے۔ 1596ء میں ملکہ برطانیہ کے لیے یہ سسٹم لگایا گیا۔ لیکن ملکہ کو شکایت تھی کہ اس سے شور بہت برپا ہوتا ہے۔ وسیع کمرشل پیمانے پر اس کی پیداوار 1851ء کے بعد شروع ہوئی۔ جو علاقے اب پاکستان میں ہیں‘ ان میں اس ایجاد کو آتے آتے ایک صدی سے زیادہ لگ گئی۔ فربہ احباب اور کمزور بوڑھوں کے لیے یہ ایسی سہولت ہے جس کا اندازہ صرف وہی کر سکتے ہیں!
آج کے بچے کو جہاں یہ نہیں معلوم کہ فلش سسٹم سے پہلے کیا ہوتا تھا‘ وہاں اُسے یہ بھی نہیں معلوم کہ بھنگی کسے کہتے ہیں۔ باتھ روموں کی صفائی کرنے والے کو اب خاکروب کہتے ہیں۔ سینیٹری ورکر بھی کہا جاتا ہے۔ اس پیشے کے لیے بھنگی کے علاوہ اور بھی الفاظ رائج تھے جو انسان کی عزتِ نفس کے اعتبار سے مستحسن نہیں تھے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اصطلاحات بدلتی گئیں۔
کیا کسی کو اُس کے پیشے کے لحاظ سے مخاطب کیا جا سکتا ہے؟ جب ہم کسی دکان میں داخل ہوتے ہیں تو کیا ہم یہ کہتے ہیں ’’دکاندار! تمہارے پاس فلاں شے ہے؟‘‘۔ گوشت خریدنے جائیں تو کیا ہم بات اس طرح کرتے ہیں۔ ’’قصائی! دو کلو گوشت دے دو!‘‘۔ اچھے زمانوں میں بچوں کو باقاعدہ تربیت دی جاتی تھی کہ ملازم کو نام لے کر نہیں بلانا۔ اسے چاچا یا ماموں کہنا ہے۔ یہ شائستگی کی علامت تھی اور خاندانی پس منظر بھی بچے کا اُس کے طرزِ تخاطب سے معلوم ہو جاتا تھا! اب خاندانی پس منظر کو فیملی بیک گرائونڈ کہتے ہیں اور اچھے فیملی بیک گرائونڈ کے لیے شائستگی‘ نرم گفتاری اور مہذب اندازِ گفتگو ضروری نہیں رہا! اب اچھے بیک گرائونڈ کی پہچان کارخانوں‘ گاڑیوں کی تعداد اور بیرون ملک سرمایہ کاری سے ہوتی ہے۔
ہم اپنے سوال کی طرف پلٹتے ہیں۔ کیا کسی کو اُس کے پیشے کے لحاظ سے مخاطب کیا جا سکتا ہے؟ کیا بھنگی کو ’’اوئے بھنگی!‘‘ کہہ کر بلائیں گے؟ نہیں! بالکل نہیں! جو اس طرح کرے گا‘ وہ اپنے پست خاندانی پس منظر کو آشکارا کرے گا!
اگر بھنگی کو بھی بھنگی کہہ کر بلانا شائستگی اور تہذیب کے خلاف ہے تو کسی شخص کو جو بھنگی نہیں ہے‘ بھنگی کیسے کہا جا سکتا ہے! ظاہر ہے یہ دشنام دہی کا اسلوب ہے۔ جھگڑا کرنے کا انداز ہر تہذیبی گروہ کا اپنا ہی ہوتا ہے۔ جھگڑا کرتے وقت‘ غضب ناک ہو کر‘ غصے میں کسی کی تحقیر کرنے کے لیے اسے بھنگی کہنا‘ صرف اُن لوگوں کا کام ہوتا ہے جنہیں گھروں میں مثبت تربیت نہیں دی گئی۔ یہ ایک خطرناک طرزِ عمل ہے۔ اس کے ڈانڈے اگر کوئی خاندانی پس منظر سے ملا بیٹھے تو پھر گالی دینے والے کو بھی چیں برجبیں اور سیخ پا ہونے کی ضرورت نہیں! فرمان یہ ہے کہ جھگڑا کرتے وقت گالی دینے والا منافق ہوتا ہے۔ یوں تو منافق کی اور بھی علامات بتائی گئی ہیں مثلاً وعدہ کرے گا تو پورا نہیں کرے گا‘ بات کرے گا تو دروغ گوئی کا ا رتکاب کرے گا اور امانت اس کے سپرد کی جائے تو خیانت کرے گا! اس کسوٹی پر پرکھا جائے تو ہم میں سے بھاری اکثریت منافقین کی ہے!
ویسے یہ بھنگی تھے عجیب! معاشرے کی پست ترین سطح پر رہتے تھے۔ برتن ان کے الگ رکھے جاتے تھے۔ اگر کوئی انہیں کھانا دیتا تو دور بیٹھ کر کھاتے۔ کوئی بھی یہ نہیں کہتا تھا کہ اس کا بیٹا بڑا ہو کر بھنگی بنے گا۔ یہاں تک کہ خود بھنگی بھی نہیں کہتے ہوں گے۔ مگر اس ساری پستی‘ ذلت اور بے پناہ غربت کے باوجود کچھ کام بھنگیوں نے بالکل نہیں کیے۔ مثلاً بوری بند لاشوں کا رواج بھنگیوں نے نہیں ڈالا۔ ڈرل مشینوں سے انسانی اجسام میں سوراخ کرنے کا فن بھی ان بھنگیوں کو نہ آیا! انہوں نے وطن عزیز میں بھتہ خوری بھی متعارف نہیں کرائی۔ خاص کر جو تاجر بھتہ دینے میں لیت و لعل یا تاخیر سے کام لیتا‘ آدھی رات کو یہ بھنگی اُس کی دکان اور دفتر جلانے کا مکروہ کام ہرگز نہ کرتے! بھنگی اس طرح کی فرمائش بھی کبھی نہ کرتے کہ میں فلاں کے سوئم میں شریک ہونا چاہتا ہوں۔ بھنگی پرامن ہوتے ہیں۔ یہ اپنے ٹوکرے اور جھاڑو فروخت کر کے بچوں کو غلیلیں نہیں فراہم کرتے۔ یہ بھاگ کر بیرون ملک بھی نہیں جا بیٹھتے۔ اور چلے بھی جائیں تو محنت کر کے خود کماتے ہیں۔ اپنی پرورش و کفالت کا بوجھ دوسروں پر نہیں ڈال دیتے۔ پھر یہ زبان کے قابلِ اعتبار ہوتے ہیں۔ جو کہتے ہیں اُس پر قائم رہتے ہیں۔ یہ
نہیں کہ صبح کچھ کہا اور شام کو کچھ اور۔ اسی لیے انہیں ہر بات کی صفائی دینا پڑتی ہے نہ معذرت ہی کرنا پڑتی ہے۔
ہاں! یاد آیا کہ بھنگی‘ بھنگ پینے والے کو بھی کہا جاتا ہے۔ بھنگ کو فارسی میں بنگ کہتے ہیں۔ رومی کا شعر ہے ؎
رزق از حق جُو، مجو از زید و قمر
مستی از حق جُو، مجو از بنگ و خمر
یعنی رزق انسانوں سے نہیں‘ پروردگار سے مانگ‘ اور مستی وہ ڈھونڈ جو فنا فی اللہ ہو کر حاصل ہوتی ہے‘ وہ نہیں جو بھنگ اور شراب سے ملتی ہے!
تاہم بھنگی ہمیشہ حقیر نہیں رہے گا۔ اس کا پیشہ ہمیشہ گالی نہیں بنا رہے گا۔ ایک دن آئے گا جب انسان پیشوں کے اعتبار سے نہیں‘ اعمال اور نیتوں کے لحاظ سے گروہوں میں تقسیم کیے جائیں گے۔ خاندانی پس منظر کو کوئی گھاس نہیں ڈالے گا۔ کوئی سرداری‘ کوئی سربراہی کام نہیں آئے گی ؎
لباس بے آبرو، جواہر سیاہ سارے
وہ دن کہ جب جمع ہوں گے عالم پناہ سارے
محنت کر کے حلال کھانے والا اور بچوں کے منہ میں حلال کی چوگ ڈالنے والا بھنگی وہاں وی آئی پی ہوگا ؎
جو مٹی پائوں کے نیچے آتی رہتی ہے
کبھی ہو گی اُس کی داد رسی کوئی آئے گا
اُس کے نامۂ اعمال میں قتل ہوگا نہ بھتہ خوری! اُس دن دوسروں کو حقارت سے بھنگی کہنے والے اور اپنے آپ کو سردار سمجھنے والے بھنگی پر رشک کریں گے۔
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔
“