عمران اور پنکی نے بھینسیں بیچ دیں ۔ زلفی کی صورت میں کٹے پال لیے گئے ۔ کل ایک راولپنڈی سے میری فالور کہ رہی تھی کہ جانوروں کو زبح نہیں کرنا چاہیے ۔ یہ بھی جاندار ہیں ۔ ڈولفقار علی بھٹو فرانس سے پینے کا پانی منگواتا تھا ، نواز شریف زرا دیسی زہن کا مالک تھا ہالینڈ سے دودھ منگوانے کی بجائے بھینس ہی پال لی گو کہ سیانے کہتے ہیں اگر دودھ بازار سے مل جائے تو بھینس پالنے کی کیا ضرورت ؟ عمران خان کی سوچ اس ضمن میں اچھی ہے ۔ اس نے ان جانوروں کی اوپن آکشن کروائ تا کہ نواز شریف کہ دلدادے منہ مانگی قیمت دے سکیں ۔ خریدار نے تو یہاں تک کہا کہ وہ ان بھینسوں کی پوجا کرے گا ، کیونکہ اس کا اس کی جان سے زیادہ عزیز لیڈر ان کا دودھ پیتا تھا ۔
جانور ، پھل اور پھول بھی زندگی کی بہت خوبصورت رمک اور چمک رکھتے ہیں ۔ فلم Life itself میں ایک زیتون کا پھل چننے والے شخص کو کھیتوں کہ مالک نے محض اس بنا پر ترقی دی اور اپنا محل نما گھر رہنے کہ لیے پیش کیا کیونکہ وہ اپنے ہاتھ سے زیتون توڑتا تھا جبکہ باقی ورکر ، مشین یا قینچی کا استمعال کرتے تھے ۔ وہ اسے پلانٹیشن مینیجر بنا دیتا ہے ۔ مینیجر کہ نزدیک پودوں میں بھی جان ہے ، اور جب پھل یا پھول کو ان سے الگ کرنا ہو تو اس جان کو نقصان نہ پہنچے اور اس جان کی رمک اور چمک ان میں رہ جائے ۔ یہی قدرت سے پیار اور محبت کا صدیوں پرانا رقص ہے ۔ یہی اصل زندگی ہے فلم جس کی شاندار عکاسی کرتی ہے ۔ گو کہ اس فلم میں ہر طرف موت ہی موت لیکن ان کونپلوں سے جو بچے پُھوٹتے ہیں وہ مالا کی صورت اس رقص اور دنیا کہ سائیکل کا حصہ بن جاتے ہیں ۔ اصل میں موت نئ زندگیوں کو جنم دیتی ہے ۔
میں اس وقت نیو جرسی کہ ایک بچہ زچہ کہ ہسپتال Robert Wood Johnson میں موجود ہوں ، میری بیٹی کو یہاں لیبر پین کی وجہ سے صبح صبح لایا گیا ۔ یہاں زندگیاں جنم شروع کرتی ہیں ۔ ننھے منے بچے ایک نئ کرن نئ زندگی لیے دنیا کو فتح کرنے نہیں بلکہ اس کے پیار بھرے محبت والے رقص میں شامل ہونے نمودار ہوتے ہیں ۔ پاکستان میں تو پھل اور پھول تو کیا ہم نے ان نئ انسانی کونپلوں کو بھی رکشوں ، گدھا گاڑیاں اور برآمدوں میں آنکھیں کھلوائیں ۔ کوئ ڈھنگ کا استقبال ہی نہیں کیا ۔ بیٹا ہو تو کُھسرے نچا دیے بیٹی تو آیت کریمہ ۔ ہماری یہ ترجیحات ہی نہیں رہیں ۔ ہم نے تو بس ہر صورت ، زلفی ، علیم خان اور جہانگیر ترین جیسے کٹوں کو پالنا ہے ۔ پاکستان صرف ان کا ہے ۔ نواز شریف ، زرداری اپنی باری لے چکے اب فوج نے عمران کو باری دی ہے ، ۲۲ کروڑ کا خون چُوسنے کے لیے ۔
بھینسوں کی تو کھلے عام ، صاف شفاف نیلامی ہو گئ ۔ کاش ہچھلے دس سال کی ملک کو بیچنے کی ڈیلز سے بھی پردہ اٹھایا جائے ۔ ایل این جی معاہدہ ، اورنج ٹرین کی ڈیل ، تمام میٹرو کہ ٹھیکے کیوں نہیں عوام کو دکھائے جاتے ؟۔ کیوں نہیں عوام کو بتایا جاتا کہ ماڈل ٹاؤن میں چودہ قتل شہباز شریف نے کیے یا علامہ طاہرالقادری نے ؟ قدرت تو بدلہ لے لے گی ۔ وہ چودہ روحیں تو زندہ ہیں اور پاکستان میں ہی موجود ہیں لیکن آپ کو کب عقل آئے گی ؟ مجھے یہ سوچ کر ہی دکھ ہوتا ہے کہ یہ ظلم کتنے برس اور چلے گا ؟ میرے سارے پاکستانی بھائ اس ایک عجب تماشہ کا نا چاہتے ہوئے حصہ بنے ہوئے ہیں جو مجھے پریشان کیے رکھتا ہے ۔ کل ایک پاکستان سے مجھے خاتون نے کہا وہ اپنے بچہ امریکہ adoption
کہ لیے دینا چاہتی ہے ، میں نے کہا امریکہ تو نہیں لے گا البتہ پاکستان فوج کو چاہیے کہ ایک Adoption سینٹر بنا دے جہاں سے بچوں کی فوج تیار کی جائے ، مستقبل کی جنگوں کہ لیے ۔ بہت سارے لوگ بچہ کی پیدائش کہ لیے نیشنیلیٹی کی خاطر امریکہ آتے ہیں ۔ کیوں نہ خان صاحب اور پنکی ، پاکستان کو ہی امریکہ بنا دیں اور بچے تو ویسے بھی سانجھے ہوتے ہیں ۔
بہت خوش رہیں ۔ جیتے رہیں ۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...