گڑیا سے میری آخری ملاقات اس وقت ہوئی تھی جب میں نے بی اے کا امتحان پاس کیا تھا۔ جب دادا جان فوت ہوئے تو وہ لوگ سرگودھا سے ہمارے گھر آئے تھے۔ اُن دنوں وہ نویں جماعت میں پڑھتی تھی۔ بچپن کی دو پونیوں کی جگہ اب ایک ننھی منی سی گت نے لے لی تھی جس میں سنہری زلفیں بلدارراستوں سے گزرتی ہوئی زوال پزیر دکھائی دیتیں۔ آنکھ پر موٹی سی عینک اس کی بوجھل سنجیدگی میں اضافہ کر رہی تھی۔ گھر پر کافی مہمان موجود تھے جس کے باعث کوئی تفصیلی گفتگو نہ ہو سکی۔ فوتگی کے چوتھے دن تک دوسرے رشتہ دار وغیرہ چلے گئے تھے۔ صرف میری دو خالائیں اوررشتے میں دور کی ایک پھوپھو رہ گئی تھیں۔ جی پھوپھو صابرہ جن کی بیٹی گڑیا کی میں بات کر رہا ہوں۔شام کو جب ساری خواتین بڑے ہال میں رشتے ٹانک رہی تھیں تو اچانک گڑیا چپکے سے اُٹھ کر میرے کمرے میں آ گئی۔مہمانوں کے جمِ غفیرسے گھر کی تمام چیزیں اتھل پتھل ہو گئی تھیں۔ میں اپنے کمرے کی چیزوں خاص کر کتابوں کی ترتیب ٹھیک کر رہا تھا۔ اندر داخل ہوتے ہی گڑیا نے بھائی جان کے پرانے الفاظ سے مجھے مخاطب کر کے سلام کیا اور بڑی اپنائیت کے ساتھ میری کتابوں کو ترتیب دینے لگی۔خاموشی طویل ہو رہی تھی۔ تھوڑی دیر میں سفید شیشوں کے نیچے متحرک سنجیدہ آنکھوں میں اچانک بجلی کوندی اور سنجیدگی کی جگہ شرارت نے سنبھال لی۔ناک کے ایک طرف والا چھوٹا سا تل نمایاں ہو چکا تھا۔ گڑیا نے پرانے کھلنڈرے انداز میں مجھ سے سوال کیا کہ بھائی جان مجھے کہانی اور افسانے میں فرق تو بتا دیں۔ میرے سنبھلنے اور جواب دینے سے پہلے ہی وہ قہقہ لگا کر غائب ہو چکی تھی۔
پھوپھو صابرہ ہمارے محلے میں ہمارے ساتھ والے مکان میں رہا کرتی تھیں۔گھر کے پچھلے حصے کی دیوار گرا کر اُن کے مکان کو ہمارے گھر کے ساتھ ملا دیا گیا تھا۔گڑیا پرائمری میں تھی تو میں میٹرک میں تھا۔ہمارے گھر کے پچھلے حصے میں ان دنوں ایک کُنج ہوا کرتا تھا۔ بیری، توت اور آم کے چند درختوں نے ایکا کر کے پچھواڑے کی اس نکر کو اندھیارا کر رکھا تھا۔گرمیوں کی تپتی دوپہروں میں بھی اس جگہ ایک عجیب سی خاموشی اور ٹھنڈک کا احساس ہوتا تھا۔ اکثر اوقات گڑیا بھی اپنا ننھا سا سکول بیگ لے کر وہاں آ جاتی اور میرے پاس بیٹھ کر سکول کا کا م کیا کرتی۔ وہ اکثر مجھ سے انگریزی کا سبق پڑھا کرتی اور نئے نئے انگریزی کے حروف کا تلفظ سمجھنے کی کوشش کرتی۔ جب وہ کچھ سمجھ نہ پاتی یا سمجھنے میں دیر کر دیتی تو میں اس کے ناک کو ہلکا سا مروڑتا جس سے ناک کی جلد پر پیوست کالا سا تل مسل کر مجھے انجانی سی مسرت ہوتی۔ اس سزا سے اس کی چینی بچوں جیس ناک سرخ ہو جاتی۔
میرے میٹرک کے پرچے شروع ہونے والے تھے ۔ ایک اوسط درجے کا طالب علم ہونے کے ناطے میں کافی تناؤ محسوس کر رہا تھا۔ میری ریاضی شروع ہی سے کمزور تھی۔ اس لیے میں زیادہ وقت ریاضی کرتا رہتا۔ جس دن ریاضی کا پرچہ ہونا تھا سے ایک روز قبل عصر کے وقت میں ضرب تقسیم کے چکروں میں سرگرداں تھا کہ اچانک گڑیا آ موجود ہوئی۔ آتے ہی زور سے بھائی جان کہہ کر مجھے ڈرا دیا۔ آج اس نے انگریزی کی بجائے اردو کا سوال سمجھنا تھا۔ اس نے کہا بھائی جان ذرا مجھے کہانی اور افسانے میں فرق تو سمجھا دیں۔میں کہانیاں پڑھتی ہوں تو سمجھ آ جاتی ہیں لیکن افسانے سمجھ نہیں آتے۔ ریاضی نے پہلے ہی میری مت مار رکھی تھی، گڑیا کی آمد اور اس کے اس سوال سے مجھے بہت غصہ آیا۔ میں نے غصے میں کہا کہ مجھے نہیں پتہ اس فرق کا ۔ وہ تھوڑی دیر خاموش بیٹھی رہی۔ اس کو بیٹھا دیکھ کر میں نے اس کی طرف پیٹھ کر کے دیوار کی طرف منہ کر دیا۔ ابھی میں سوال کے درمیان میں ہی تھا کہ مجھے گڑیا کے سسکنے کی آواز سنائی دی۔ کچھ دیر تو میں نے پرواہ نہیں کی لیکن جب سسکیاں شور مچانے لگیں تو میں نے ہارمان لی او ر کہانی اور افسانے کا فرق سوچنے لگا۔ میں نے گڑیا کی طرف رخ موڑا لیکن اب وہ غائب ہو چکی تھی۔ یہ وہی گڑیا تھی جس کو ایک دو سال قبل تک میں سائیکل پر بٹھا کر بازار لے جایا کرتا تھا۔ ہم ایک ساتھ بیریاں چنتے اور ایک ساتھ ہی درختوں سے چیڑھ نکال کر کھایا کرتے ۔ گڑیا کو گڈی پٹولے کھیلنے کا بہت شوق تھا۔مجھے پتہ تھا لوہا لوہے کو کاٹتا ہے۔ گڑیا کو میں بآسانی منا سکتا تھا۔ میں نے ساتھ والی منیاری کی دوکان سے بیٹری والی سرخ و سبز کپڑوں میں ملبوس گڑیا خریدی اور گوشت پوست کی گڑیا کی طرف اچھال دی۔ چال کامیاب رہی اور تھوڑی دیر میں ہم پھر سائیکل پر دہی لینے بازار جا رہے تھے۔ گڑیا حاصل کرنے پر وہ بہت خوش تھی۔ اب اکثر وہ جان بوجھ کر مزاق میں مجھ سے کہتی، “ بھیاجی وہ ذرا کہانی اور افسانے میں فرق تو بتا دیں “ ۔یہ سوال اب میرا مذاق بن گیا تھا۔
وقت گزرتے پتہ نہیں چلتا۔ پھوپھو جو سکول ٹیچر تھیں کو ترقی ملی اور وہ سرگودھا جا ٹھہریں اور میں بھی بی اے کرنے کے بعد لاہور آ گیا۔ ہماری ملاقاتیں خاندانی غمی خوشی پر ہو جایا کرتیں تھیں۔ گڑیا سے جب بھی ملاقات ہوتی وہ تھوڑی دیر میں پرانی فارم میں آ جاتی جس کا تان ہمیشہ اسی پرانے سوال پر ٹوٹتی۔ اس کے چہرے کی بچگانہ معصومیت تادیر برقرار رہی۔ وہ مجھے بھائی جان یا بھیا کہتی تو پرانا انس و محبت تازہ ہو جاتا اور ایک عجیب قسم کی خوشی کا احساس ہوتا۔ پھر یوں ہوا کہ وہ وقت جو کروٹیں بدل بدل کر دھیرے دھیرے آگے کی طرف رواں دواں تھا نے اچانک سرپٹ بھاگنا شروع کر دیا۔ زمانے کی ایک ایسی ہی جست نے مجھ سے میرا وطن چھین لیا اور مجھے دیارِ غیر میں پٹخ دیا۔ گوروں کی چاکری میں یوں لگا کہ ہمیشہ کے لیئے ادھر کا ہی ہو کر رہ گیا۔ خوب پیسے کمائے اور خوب عیاشی کی۔ میرا کام برطانیہ کے مشہور اور خوبصورت تفریحی مقام لیک ڈسٹرکٹ میں تھا۔ اس دلفریب شہر کے لیک ڈسٹرکٹ نیشنل پارک کے ایک کیفے ٹیریا کے منیجر کے طور پر کام کر رہا تھا۔ یہ وہی علاقہ ہے جہاں عظیم انگریز رومانوی شاعروں نے خوابوں اورخیالوں کی رومانوی دنیائیں آباد کی تھیں۔۔محبت، انقلاب اور فطرت کے ترانے گائے گئے تھے ۔یہ کیفے ٹیریا علاقے کے معروف پہاڑوں گریٹ گیبل اور گرین گیبل کے بیچوں بیچ ایک پہاڑی ندی کے کنارے پر واقع تھا۔ تفریحی مقام ہونے کے ناطے ہر روز سینکڑوں لوگ لیک ڈسٹرکٹ کے پہاڑوں، وادیوں، پارکوں اور جنگلوں کو دیکھنے آیا کرتے۔ شام کے وقت میں بھی ایک گھنٹہ کے لیئے نیچے وادیوں میں اتر جایا کرتا اور فطرت کے حسین مناظر سے لطف اندوز ہوتا۔ میری آنکھیں گہری وادیوں میں کسی انجانی راہوں پر چلتے ہوئے کسی اجنبی کسان عورت کی منتظر رہتیں جس کی نامعلوم زبان میں گایا گیاطلسماتی گیت میرے حواس کو وقتی طور پر سلا دیتا۔کبھی کبھی چشمِ تصور میں مَیں پہاڑ کے دوسرے طرف گھنے جنگل میں رہائش پزیز بلبلوں کے نیمتاریک بسیروں میں جا بستا۔ بعض اوقات یوں بھی ہوتا کہ اپریل کے مہینے کی بہار ان پہاڑوں کے دامن میں چلتے چلتے مجھے اپنے وطن کی بہار کی موہوم سی بھولی بسری یاد دلا دیتی۔ یوں اپریل کی دو صبحوں کا ایک بے جوڑ تقابل مجھے گڑیا کے پاس لے جاتا۔ گڑیا کے ساتھ کنج میں گزارے لمحات کی یادیں اچانک مجھے لیک سے اپنے شہر پہنچا دیتیں۔ لیکن یہ وقتی فرار ہوتا۔ تھوڑے لمحوں بعد میں ایک دفعہ پھر اپنے کیفے میں گاہک ڈیل کر رہا ہوتا۔ سچ ہے انسان زندگی کی پریشانیوں اور مصروفیات سے اس زندگی میں نہیں بھاگ سکتا۔ دس سال گزرتے دیر نہ لگی۔ میں نے دیارِ غیر میں اچھا خاصا بنک بیلنس بنا لیا تھا۔نہ جانے کیوں ابھی تک میں نے اپنا گھر بسانے کے بارے میں کبھی نہیں سوچا تھا۔میرا عقیدہ تھا کہ گوریوں کے ساتھ اور برطانیہ میں مقیم پاکستانی لڑکیوں کے ساتھ دل پشوری تو کی جاسکتی ہے لیکن ہمیشہ کا تعلق نہیں نبھایا جا سکتا۔ پس میں نے اپنے آپ کو دل پشوری تک ہی محدود رکھا۔
مجھے پاکستان چھوڑے شاید بارھواں برس تھا جب ایک دسمبر کی چھٹیوں میں مجھے بھائی کی شادی پر وطن آنا پڑا۔دسمبر برطانیہ میں شدید سردی کی وجہ سے مشکل ترین مہینہ سمجھا جاتا ہے۔ہر طرف ہو کا عالم لیک جیسے خوبصورت علاقے کو بھی بے آباد کر دیتا ہے۔دسمبر کے آخری عشرے میں پاکستان اور پھر اپنے شہر پہنچا تو سہانے موسم نے استقبال کیا۔ شہر سے باہر دور تک سرسوں کے پھولوں نے زردی بکھیر رکھی تھی۔ برطانیہ کے برعکس یہاں بہار کا سماں تھا۔بس سٹینڈ، بازار، گلیاں، محلے اور مارکیٹیں زندگی کے شور سے پر تھیں۔بچوں کی سردیوں کی چھٹیاں ہو چکی تھیں۔
شادی شروع ہونے میں ابھی ایک ہفتہ باقی تھا۔ برسوں پرانے دوستوں، رشتہ داروں اور ہمسایوں سے ملتے ہوئے بڑا مزہ آ رہا تھا۔ میرا کمرہ جو کبھی میری کتابوں، کپڑوں، خوشبوؤں اور دوسری اشیاء سے مزین ہوتا تھا بالکل خالی پڑا تھا۔ ایک شام مجھے کسی کام سے گھر کے پچھواڑے جانا پڑا۔ درختوں کا کنج دیکھ کر مجھے بہت کچھ یاد آنے لگا۔ جن میں پڑھائی کے ساتھ ساتھ گڑیاکی معصوم حرکا ت بھی تھیں۔گڑیا اب کیسی ہو گی اور کتنی بڑی ہو گئی ہو گی جیسے سوال میرے ذہن میں بیدار ہو نے لگے۔ اسی شام جب مجھے امی نے یہ بتایا کہ پھوپھوصابرہ کل آ رہی ہیں تو جانے کیوں میرے ذہن میں گدگدی سی ہونے لگی۔کس کے ساتھ ، کب اور کیسے آ رہی ہیں یہ امی سے پوچھنا اچھا نہ لگا۔ رات اپنے تنہا کمرے میں لیٹا تو دن بھر کی ٖفضول لوفریوں اور چھوٹے موٹے متفرق کاموں کی تھکن کے باوجود نیند کے آثار دور دور تک نہ دِکھے۔ شام سے شروع ہونے والا تیز ہواؤں کا سلسلہ ابھی تک جاری تھا۔ سردی میں کافی اضافہ ہو چکا تھا۔ہواؤں کے دوش خشک پتے ادھر اُدھر اُڑتے ہوئے شور مچا رہے تھے۔میں کمرے کا روشن دان بند کرنا بھول گیا تھا جہاں سے یخ ہوائیں کمرے میں داخل ہو رہی تھیں۔باہر صحن میں پڑے پرانے برتن اور لوہے پترے کی چیزیں ایک دوسرے کے پیچھے لُڑھک رہی تھیں۔ نصف شب کے بعد ہلکی ہلکی بارش شروع ہو گئی۔ مٹی کی سوندی سوندی خوشبو کمرے میں داخل ہونے لگی۔ جانے کب تک میں گڑیا کی یادوں میں سرگرداں رہا اور کب مجھے نیند نے اپنی آغوش میں لے لیا۔
صبح دیر تک سویا رہا۔ دس بجے کے قریب آنکھ کھلی تو باہر ابھی اندھیرا محسوس ہوا۔ بارش رک چکی تھی لیکن بادل ابھی تک چھائے ہوئے تھے۔ساتھ والے کمرے میں عورتوں کے باتیں کرنے کی آواز سنائی دی۔امی کے ساتھ کوئی اجنبی عورتوں باتیں کر رہی تھیں۔ سردی کے
باعث میں رضائی میں ہی گھسا پڑا رہا۔ تھوڑی دیر بعد امی کمرے میں آئیں اور پھوپھو صابرہ کی آمد کی اطلاع دی۔ اس مرتبہ امی نے خود ہی بتا دیا کہ ان کے ساتھ ان کی بیٹی راحیلہ بھی آئی ہے۔ میں بھول چکا تھا کہ گڑیا کا اصل نام راحیلہ تھا۔
بارشوں کا سلسہ تین دن تک چلتا رہا۔ کبھی ہلکی اور کبھی تیز بارش ہونے لگتی۔ کبھی زور کی ہوائیں چلنا شروع ہو جاتیں۔ گھر کے روایتی ماحول میں گڑیا کو آسانی سے دیکھنا مشکل تھا۔ ایک عجیب سا تجسس مجھے ستائے جا رہا تھا کہ گڑیا کا گڑیا سے راحیلہ کا سفر کیسے طے ہوا ہو گام، وہ اب کیسی دکھتی ہوگی اور کیا میں اُسے اور وہ مجھے پہچان بھی لیں گے؟ اسی دوسران پھوپھو سے ایک دو دفعہ ملاقات ہو ئی لیکن گڑیا ابھی میرے سامنے نہیں آئی تھی۔ شام کو بارش رکی تو امی نے کچھ سودا سلف لانے کے لیئے مجھے بازار بھیجا۔ واپسی پر میں سامان کا تھیلا باورچی خانے میں رکھنے گیا تو امی کے ساتھ ایک دراز قد لڑکی کو کھڑے دیکھا۔گول گول آنکھوں پرسنہری چشمہ گورے اور گول چہرے کے حسن میں اضافہ کر رہا تھا۔ میری آہٹ پا کر اُس نے زلفوں سے پھسلتا ہوا دوپٹہ سر پر اوڑھنے کی نیم دلی سے کوشش کی لیکن میں زہرناک ناگنوں کے درشن کر چکا تھا۔ میرا اب واپس جانا بھی معیوب تھا کیونکہ میں مکمل طور پر کچن میں داخل ہو چکا تھا۔ امی نے میری جھجھک کو محسوس کرتے ہوئے صورتحال کو سنبھالنے کے لیئے مجھ سے کہا کہ بیٹے کیا راحیلہ کو سلام نہیں کرو گے؟برطانیہ میں رہنے سے مَیں لڑکیوں سے آزادانہ انداز میں باتیں کرنے کا عادی ہوچکا تھا۔ لیکن پاکستان آتے ہی میں نے جیسا دیس ویسا بھیس کے قول پر عمل کرتے ہوئے مشرقی چادر تان دی تھی۔ لیکن امی نے جیسے ہی مجھے راحیلہ کو سلام کرنے کو کہا میری قوتِ گفتار بھڑک اُٹھی۔ میرے سلام کا جواب راحیلہ نے آہستگی سے چھپی ہوئی مسکراہٹ کے ساتھ نظریں جھکا کر دیا۔ یورپ میں بارہا لڑکیوں سے گفتگو کرنے کے مواقع ملے۔ تمام لڑکیاں آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر مردوں کی طرح گفتگو کیا کرتی تھیں۔ آج مجھے پہلی مرتبہ اُٹھی اور جھکی ہوئی نگاہوں کے فرق کا پتہ چلا تھا۔ امی کی موجودگی میں چار پانچ منٹ ہی گفتگو ہو سکی۔ یہ چند منٹ کی ملاقات راحیلہ کے سرسری معائنے کے لیئے کافی تھی۔ ناک کے ایک طرف تل سفید دودھیہ چہرے پر بہت خوشنما دکھائی دے رہا تھا۔ راحیلہ نے سیاہ رنگ کا لباس پہن رکھا تھا جو اس کی سفیدی کو اور بھی بڑھا رہا تھا۔ راحیلہ کی آواز دھیمی تھی لیکن انداز میں خود اعتمادی کی وجہ سے اٹھان تھی۔ راحیلہ مجھے صرف یہ بتا سکی کہ میں سرگودھا میں کسی پرائیویٹ کالج میں اردو کی لیکچرار کے طور پر پڑھا رہی ہوں۔ اس نے ایم اے اردو کر رکھا تھا اور ایم فل اردو ادب میں داخلے کی کوششیں کر رہی تھی۔
ایک ملاقات سے ہی میں مکمل طور پر راحیلہ کے سحر میں مبتلا ہو چکا تھا۔ مجھے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ مجھے کیا ہو رہاہے۔ لڑکیوں کے معاملے میں مَیں نے کبھی بھی زیادہ سنجیدگی نہیں دکھائی تھی اور نہ ہی کسی لڑکی کے زیرِ اثر آیا تھا۔لیکن جانے کیوں اب اس صنفِ نازک نے میری بھوک اور نیند تک اڑا دی تھی۔
شادی کی تیاریاں زوروں پر تھیں۔ میں بھی اپنے طور پر گھر والوں کی پوری معاونت کر رہا تھا لیکن میرا ذہن اُن کا ساتھ نہیں دے رہا تھا۔ چند ایک مرتبہ راحیلہ اور میری ملاقات بھی ہوئی لیکن بندہ اگر کسی کے بارے میں زیادہ سوچنا شروع کر دے تو ایک حد کے بعد اس کی جسمانی موجودگی کو شدید خواہش کے باوجود برداشت نہیں کر پاتا۔ اپنے احساسات کو چھپانے کے لیے میں نے راحیلہ سے باتیں کرنا بہت کم کر دیں۔آتے جاتے اگر اس سے آمنا سامنا ہو بھی جاتا تو میں کنی کترا کے گزر جاتا۔ میں راحیلہ میں سے گڑیا ڈھونڈنے کی کوشش کر رہا تھا۔ وہ گڑیا جس کو بچپن میں مَیں سائیکل پر بٹھا کر بازار لے جایا کرتا تھا۔ ہم ایک ساتھ بیریاں چنتے اور ایک ساتھ ہی درختوں سے چیڑھ نکال کر کھایا کرتے تھے۔
ایک روز میں کمرے میں داخل ہوا تو ر احیلہ میرے کمرے میں موجود تھی۔ وہاں موجود چند عارضی چیزوں کو ترتیب دیتے ہوئے وہ اتنی محو تھی کہ میری آمد کو بھی محسوس نہ کر سکی۔ میں نے کھانستے ہوئے اپنی آمد اور موجودگی کا احساس دلایا تو وہ چونک اُٹھی۔ اب وہ میرے سامنے کھڑی تھی۔راحیلہ کی آنکھیں بدستور جھکی ہوئی تھیں۔ اس کی قربت سے قدرتی پھولوں سے لدے قدیم جنگلوں کی سی خوشبو آ رہی تھی۔زلفوں ، کپڑوں اور بدن سے نکلتی ہوئی بے شمار اقسام کی مہک نے اس کو کوہ قاف کی ایک دیوی کا روپ دے دیا تھا۔ اچانک راحیلہ غائب ہو گئی اور اس کی جگہ گڑیا نمودار ہوئی ۔ گڑیا نے میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بولنا شروع کر دیا۔ بات بچپن سے شروع ہو کر آگے بڑھتی گئی۔گڑیا بول رہی تھی اور گڈا سن رہا تھا۔ گڑیا کی لہجہ آہستہ آہستہ سنجیدہ ہوتا گیا۔ آخر جب اس نے یہ کہا کہ بھیا آپ مجھ سے خفا کیوں ہیں تو میں نے پہلی دفعہ اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر جواب دینے کی کوشش کی۔ لیکن اس کے اگلے جملے نے میری تمام قوتِ گویائی چھین لی۔ گڑیا نے آہستگی اور سنجیدگی کے ساتھ مجھے اگلے ماہ اپنی شادی میں شرکت کے دعوت دی۔ اس نے بتایا کہ میری شادی میرے ساتھ کالج میں پڑھانے والے ریاضی کے ایک سینیئر پروفیسر کے ساتھ ہو رہی ہے۔یہ گڑیا تھی یا شاید راحیلہ جس نے میری بے حس آنکھوں میں نمی دیکھ لی۔ کمرے سے باہر نکلنے سے پہلے اس نے میری آنکھوں کی نمی اپنے معطر دوپٹے سے صاف کرتے ہوئے کہا کہ بھائی جان ! لگتا ہے آپ ابھی تک کہانی اور افسانے کے فرق کو نہیں سمجھے۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...