کیا آپ کو احساس ہے کہ آپ ننگے ہیں ؟ آپ کے اور میرے جسموں پر جولنگوٹیاں تھیں، چور بھاگتے ہوئے وہ بھی اتارلے گئے ۔
پیپلزپارٹی ، قاف لیگ، اے این پی، ایم کیوایم، جے یو آئی (ف) اور نون لیگ (کچھ ظاہری اتحادی اور کچھ خفیہ اتحادی) جاتے ہوئے جوکچھ ہاتھ آیا بوریوں میں بھر کر لے گئے۔ ان کے سروں پر پوٹلیاں تھیں، ہاتھوں میں تھیلے تھے، کندھوں پر بیگ تھے۔ یہ وہ ٹھگ تھے جو ان ٹھگوں کو بھی مات کرگئے جو انگریزوں کے زمانے میں ہندوستان کی شاہراہوں پر دندناتے پھرتے تھے اور مسافروں کے گلے ریشمی رومال سے گھونٹتے تھے ۔ آج کے ٹھگ جس ریشمی رومال سے لوگوں کے گلے گھونٹ گئے اس کو وہ جمہوریت کا نام دیتے ہیں۔
یہ لٹیرے جوکچھ کر گئے ہیں اس کا عشرعشیر بھی سامنے نہیں آیا۔ بدنام زمانہ ڈاکو پناہ مانگتے پھررہے ہیں اور چوروں کے سردار انگشت بدنداں ہیں۔ ڈاکہ زنی کی انتہا کا اندازہ اس سے لگایئے کہ آخری تین ہفتوں میں چارکھرب 65ارب روپے کے ’’فیصلے ‘‘ کیے گئے۔ اربوں روپے کے ترقیاتی فنڈاراکین اسمبلی کو پیش کیے گئے ۔ سندھ میں وزراء ، معاونین، سپیکر، ڈپٹی سپیکر اور اراکین اسمبلی کی تنخواہوں اور مراعات میں کئی گنا اضافہ کیا گیا ۔ چوروں کے کپڑے اور ڈانگوں کے گز۔ سابقہ اراکین اسمبلی کو بھی تاحیات مراعات دے دی گئیں۔ اگر کوئی رکن دنیا سے بادل نخواستہ رخصت ہوجائے تو یہ ’’ڈاکہ ٔ جاریہ‘‘ اس کے شوہر یا بیوی کو بھی ملتا رہے گا۔ ایک دن بھی جو وزیر اعلیٰ، سپیکر یا ڈپٹی سپیکر رہا اسے گریڈسترہ کا پرائیویٹ سیکرٹری ، ایک اردلی، ایک ڈرائیور، ایک باورچی، ایک مالی اور ایک سینٹری ورکر یعنی خاکروب تاحیات بخشا جائے گا۔ گویا ڈاکوئوں کے جانے کے بعد بھی گھر ان کے قبضے ہی میں رہے گا۔
وفاق اس ڈاکہ زنی میں صوبوں سے پیچھے نہیں رہا۔ پانچ سال تک عوام کے ٹیکسوں سے شہنشاہوں کی زندگی گزارنے والی سپیکر فہمیدہ مرزا نے بھاگنے والے 342اراکین اسمبلی کے الائونس کو دوگنا کردیا۔ روزنامہ ’’دنیا‘‘ کے مطابق چالیس کروڑ روپے اس اضافے پر خرچ ہوں گے۔ قمرزمان کائرہ نے جاتے جاتے اپنے تقریباً تمام ذاتی سٹاف کو بیرون ملک تعینات کرادیا۔ لطیفہ یہ ہے کہ گریڈ چودہ کے ایسے ملازم کو ترکی بھیجا جارہا ہے جو وزارت کا ملازم ہی نہیں۔ نوکرشاہی کے جوارکان بیرون ملک کئی سال گزار کر واپس آئے ہی تھے، انہیں دوبارہ باہر تعینات کردیا گیا ہے۔
جس افسر کو وزیراعظم راجہ پرویز اشرف نے دارالحکومت کے ترقیاتی ادارے کاسربراہ بناتے وقت قوم کو یہ نوید دی تھی کہ ’’ہم اچھے اور ایماندار افسروں کی نئی ٹیم لائے ہیں‘‘ اسے پانچ ماہ بعد ہی ہٹا دیا گیا کیونکہ طاہر شہباز کی راست گوئی اور دیانت ناقابل برداشت ہورہی تھی۔ اس نے ایسے افسروں کے خلاف انکوائری کا حکم دیا جو بہت طاقت ور تھے۔ کھوکھے الاٹ کرنے کرانے کا ’’کاروبار ‘‘ عروج پر تھا۔ طاہر شہباز نے پانچ سو کھوکھوں کے لائسنس منسوخ کرکے شفافیت کے لیے کوشش کی۔ ان میں ایک
ایسی شخصیت کا بھی کھوکھا تھا جو عالی مقام تھی۔ ایک قصور اس راست باز سرکاری ملازم کا یہ بھی تھا کہ اس نے چند معاملات میں سپریم کورٹ کے احکامات کی تعمیل پر زور دیا تھا۔
ذہنی افلاس کے اس مقابلے میں صوبے وفاق سے پیچھے نہیں رہے۔ پنجاب کے وزیراعلیٰ کے ’’اعزاز ‘‘ میں ، وزیراعلیٰ ہی کے ماتحت چیف سیکرٹری نے عظیم المثال تقریب کا اہتمام کیا جسے پنجاب حکومت کے الوداعیہ کا سرکاری نام دیا گیا۔ یہ وہی پنجاب حکومت ہے جس کے کسی وزیر کا نام پانچ سال کے دوران سننے میں نہیں آیا۔چیف سیکرٹری یعنی سب سے بڑے ماتحت نے وزیراعلیٰ کی شان میں جو قصیدہ گوئی کی، اسے نقل کرنے کی ہمت نہیں ہورہی اس لیے کہ قارئین کو کسی قصور کے بغیر ابکائی کی اذیت میں مبتلا کرنے کا کوئی جواز نہیں۔ بس یہ تصور کیجیے کہ بیس وزارتیں اپنی جیب میں ڈالنے والے جمہوری وزیراعلیٰ کی گردن، چیف ماتحت کی قصیدہ گوئی سے کس طرح تن گئی ہوگی! ایک زمانہ وہ تھا کہ شرفا صرف اس تعریف کو اہمیت دیتے تھے جو مخالفین کے منہ سے سنی جاتی تھی۔ ایک صاحب نے حضرت عمرفاروقؓ کی تعریف ان کے منہ پر کی تو آپ زمین پر جھکے، مٹھی میں مٹی ڈالی اور خوشامد کرنے والے کے منہ میں ٹھونس دی۔ لیکن اب خوشامد ایک فن ہے اور جو جتنا بڑا ماتحت ہو، اتنا ہی بڑا خوشامدی ثابت ہوتا ہے۔ چیف سیکرٹری یہ ہمت تو نہ کرسکے کہ پولیس کے سینکڑوں ملازمین کو رائے ونڈ اور دوسرے متعدد محلات کی پہریداری سے ہٹا دیتے۔ اگر ایسا، یا اس قبیل کا کوئی کام کرتے تو پھر معلوم ہوتا کہ وزیراعلیٰ ان کی قصیدہ گوئی سنتے ہیں یا نہیں ؎
یہ لاالٰہ خوانیاں جائے نماز پر
سولی پہ چڑھ کے نغمہ یہ گاتے تو جانتے
اس ’’الوداعیے‘‘ میں جوکچھ پنجاب حکومت یعنی وزیراعلیٰ کے لیے مہیا کیا گیا، اس کا اندازہ صرف اس سے لگائیے کہ صرف گوشت کی خریداری پر دولاکھ روپے صرف ہوئے۔ بیس وزیروں کا کام ایک شخص کرے گا تو پروٹین (لحمیات) کی ضرورت لازماً بہت زیادہ ہوگی!!
بات ان ٹھگوں کی ہورہی تھی جو رہگیروں کو ریشمی رومالوں کے پھندوں سے ہلاک کرتے تھے۔ انگریزی حکومت نے ان کا قلع قمع کیا تو خلق خدا کی جان میں جان آئی۔ آج کے ٹھگوں کا کمال یہ ہے کہ ان کا قلع قمع ہونے کے باوجود خلق خدا ان کی لوٹ مار کا نقصان اٹھاتی رہے گی۔ اکثر اخبارات میں اس قسم کی خبریں شائع ہوتی ہیں کہ فلاں شخص قتل کرنے کے بعد بھرے بازار میں چھرا لہراتا ہوا فرار ہوگیا، تو یہ ٹھگ ریشمی رومال لہراتے ہوئے فرار ہوئے ہیں۔
آخر میں قارئین کی خدمت میں مستقبل کی ایک ہلکی سی جھلک پیش کی جاتی ہے۔ دودن پہلے کے اخبارات میں شائع ہونے والا اشتہار ملاحظہ فرمائیے۔
’’عوام کی پہلے بھی بھرپور خدمت کی، انشاء اللہ آئندہ بھی کرتے رہیں گے اور اپنے قائد میاں نواز شریف کی قیادت میں حلقے کی تعمیر و ترقی کے لیے کوشاں رہیں گے۔ عمرایوب خان۔ امیدوار حلقہ فلاں، پاکستان مسلم لیگ نون۔ ‘‘
یہ وہی عمر ایوب خان ہیں جو پرویز مشرف کے تمام دور میں وزارت کے عہدے پر فائز رہے۔ آپ کے ذہن میں اب یہ سوال بلبلے کی طرح اٹھ رہا ہوگا کہ آخر سیاست دان پارٹیاں کس طرح بدلتے ہیں اور کیوں بدلتے ہیں۔ لیکن اصل سوال یہ ہے کہ انہیں دوسری پارٹیاں قبول کیوں کرتی ہیں ؟ مگر آپ سوالات کے اس جنگل سے نکل آئیے اور اس دن کا انتظار کیجیے جب ایسا ہی ایک اشتہار جنرل پرویز مشرف کی طرف سے بھی شائع ہوگا اور اشتہار کے دائیں کونے میں میاں نواز شریف کی تصویر ہوگی!!احمد ندیم قاسمی بھی کہاں یاد آگئے ؎
اک روز اس طرح بھی مرے بازوئوں میں آ
میرے ادب کو تیری حیا کو خبر نہ ہو
ادب کا تو معلوم نہیں، ہاں حیا ڈھونڈے سے بھی نہیں مل رہی!