انور جلال پوری نے بھگوت گیتا کا ترجمہ اردو میں کیا تھا۔ انھوں نے اپنے اس ترجمے کو اردو شاعری میں ’گیتا‘ کا نام دیا ہے۔ انور جلال پوری اس سے پہلے رابندر ناتھ ٹیگور کی ’گیتانجلی‘ اور عمر خیام کی ’رباعیات‘ کا بھی اردو میں ترجمہ کر چکے ہیں۔ انور جلال پوری کا کہنا تھا کہ انھوں نے یہ ترجمہ دونوں زبانوں ہندی اور اردو جاننے والوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے کیا ۔
انور جلال پوری کا انتقال 2 جنوری کو لکھنؤ میں ہوا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تحریر شارب ردولوی
ملک زادہ منظور احمد کے ایک تہنیتی جلسے میں میں نے کہا تھا کہ مشاعروں کی نظامت کی شہرت ناظم کی اپنی شعری حیثیت کو پس پشت ڈال دیتی ہے۔ اس پر انور جلال پوری نے مجھ سے کہا کہ یہ بات بہت صحیح ہے لیکن ہم لوگوں کی مجبوری ہے جسے شاید آپ نہ سمجھ سکیں۔ میں نے معلوم نہیں کتنے جلسوں میں انور جلال پوری کو دیکھا اور اس کرب کو محسوس کیا ہے کہ ہر چھوٹے بڑے شاعر کی تعریف میں ادب کی ساری صفات صرف کرنے والے شخص کے اپنے شعر پڑھنے کے موقع پر کوئی تعارف کرانے والا نہیں ہوتا۔
انور جلال پوری ایک بہت اچھے انسان ایک اچھے شاعر اور ادیب تھے انہوں نے شعراء کا تعارف صرف اسٹیج سے زبانی نہیں کرایا بلکہ ہم عصر شاعروں اور ادیبوں پر مضامین لکھ کر ان کی شعری اور ادبی حیثیت کے تعین میں معاونت کی اپنے دو مضامین کے مجموعوں ’قلم کا سفر‘ اور ’سفیرانِ ادب‘ میں انہوں نے تقریباً پچاس شعراء اور ادیبوں کے شعری اور ادبی کارناموں کا جائزہ لیا جس میں انہوں نے مجازؔ سے لے کر اپنے ہم عصر شاعروں میں رئیس انصاری اور ڈاکٹر نسیم نکہت کی شاعری کا بڑی خوبصورتی سے جائزہ لیا۔
انور جلال پوری بنیادی طور پر شاعر تھے لیکن انہوں نے انگریزی اور اُردو ادبیات میں ایم اے کیا تھا۔ فارسی زبان سے اچھی واقفیت رکھتے ہیں ہندی زبان پر انہیں پورا عبور حاصل تھا اس لئے ادب یا نثر و نظم کے بارے میں ان کی رائے کی ادبی و علمی اہمیت تھی اپنے مضامین ’’قلم کا سفر‘‘ کے مقدمے میں انہوں نے لکھا:
’’نثر کا معاملہ ہی کچھ اور ہے یہ دماغ کی اُپج ہے، یہ شعور کی فصل ہے، یہ ذہانت کی پیداوار ہے۔ یہ فکری سلیقہ مندی کی نستعلیقیت کا مظہر ہے۔ نثر لکھ کر اپنی انفرادیت کو تسلیم کرانا مشکل کام ہے۔ … جملوں کی تراش خراش میں نثرنگار کا احساس بھی پسینہ پسینہ ہوجاتا ہے۔ موضوع سے جڑے رہنے کے ساتھ ساتھ الفاظ کا انتخاب اور جملوں کی کشش کو سلامت رکھنا نثرنگار کے لئے ایک بڑا امتحان ہے۔‘‘
نثر کی دشواریوں کا انہوں نے ذکر تو کیا لیکن خود جب کسی شاعر یا ادیب پر مضمون کا اور اس کی تحریروں کا تجزیہ کرتے تو بہت اچھی سلیس اور شستہ نثر لکھتے تھے انہوں نے اپنے دونوں نثری مجموعوں میں جدید و قدیم شعراء کے ساتھ نثر نگاروں پر بھی مضامین لکھے ہیں جن میں نیر مسعود، ڈاکٹر کلب صادق، پروفیسر مہدی حسن، مہدی جعفر اور کتنے لوگوں کی شخصیت اور ان کے کارناموں کے بارے میں لکھا ہے۔
مجازؔ کی مقبولیت کے بارے میں لکھتے ہیں کہ
’’مجازؔ جب بولتے تھے تو لگتا تھا کہ آدمی نہیں بلکہ زندگی گفتگو کررہی ہے… مجاز زمانے کی ستم ظریفی سے اوب چکے تھے۔ وہ سماج کی اقتصادی عدم مساوات سے بے انتہا نالاں تھے ان کی مشہور نظم (اے غم دل کیا کروں اے وحشت دل کیا کروں) اس بات کا ثبوت ہے کہ زمانے کی ناہمواریوں سے ان کا دل کتنا ٹوٹ چکا تھا۔‘‘
اپنے ہم عصر ادب اور ادیبوں پر گہری نظر کے ساتھ وہ دوسری زبانوں پر بہت اچھی دسترس رکھتے تھے، عام طورپر دیکھا گیا ہے کہ شاعروں کو دوسری زبانوں کے شعر و ادب سے زیادہ تعلق نہیں رہتا۔ ان کی دنیا الگ ایک دنیا ہوتی ہے لیکن انور جلال پوری کی یہ انفرادیت قابل ذکر ہے کہ انہیں انگریزی ادبیات کے ساتھ ہندی، سنسکرت، فارسی اور بنگالی ادب سے اسی طرح دلچسپی تھی۔ انہوں نے رویندر ناتھ ٹیگور کی گیتانجلی کے سو سال مکمل ہونے پر (1913-2013) 2013 ء ہی میں گیتانجلی کا منظوم ترجمہ کیا۔ ان سے پہلے نیازؔ فتح پوری اور فراقؔ گورکھ پوری گیتانجلی کا اُردو نثر میں ترجمہ کرچکے تھے۔ اس کے علاوہ انور جلال پوری ترجمے کی د شواریوں سے واقف تھے۔ انہوں نے خود لکھا ہے کہ
’’ترجمے کا فن بڑا مشکل فن ہے، شاعر کے کلام میں اس کا خیال، جذبہ، احساس، فکر، لہجہ اور اس کی زبان کا انداز بیان بھی شامل ہوتا ہے۔ اتنی ساری خوبیوں کو دوسری زبان میں منتقل کرنا لوہے کے چنے چبانے کے مترادف ہے۔‘‘
ان دشواریوں کے باوجود انہوں نے گیتانجلی کو اُردو کے شعری قالب میں پیش کرنے کی کوشش کی ان کے سامنے نثر کے ترجمے ضرور تھے لیکن اس کے باوجود گیتانجلی کی خوبیوں کو سمجھ کر ایک ایسے شعری قالب میں ڈالنا کہ سمجھ میں آسکے بہت مشکل کام تھا۔ ٹیگور شاعری کئی مختلف طرح کے عناصر مثلاً سنگیت، مذہب، تصوف، روحانیت سے مل کر بنی ہے ان سب عناصر کا ترجمے میں خیال رکھنا آسان نہیں تھا۔ انور جلال پوری اس کی ایک نظم ’میرے مالک میں کیا جانوں…‘ کا ترجمہ کس خوبصورتی سے کرتے ہیں اس کے چند اشعار سے ہی آپ کو اندازہ ہوجائے گا:
میرے مالک میں کیا جانوں کہ نغمہ تیرا کیسا ہے
بڑی حیرت سے میرا دل ترا سنگیت سنتا ہے
ترے نغمات سے ہی ساری دنیا میں اُجالا ہے
ترے نغموں کا چلتا آسمانوں تک میں سکہ ہے
ترے نغموں کی دھارا پتھروں کو توڑ دیتی ہے
ہیں جتنے نرم دل سارے دلوں کو جوڑ دیتی ہے
اسی طرح بڑی خوش اسلوبی کے ساتھ انہوں نے گیتانجلی کی تمام نظموں، گیتوں کا ترجمہ اردو نظم میں کیا۔ جہاں تک ان کے ترجموں کا سوال ہے۔ انہوں نے رباعیات عمر خیام کا بھی ترجمہ کیا لیکن ان کے دو تراجم سب سے اہم ہیں لیکن بھگوت گیتا کا ترجمہ اور پارہ عم کے مفہوم کو شعری پیکر دینا تھا۔ یہاں پر تفصیل سے ان کے تراجم کا ذکر اور مثالیں دینا ممکن نہیں سورئہ فاتحہ کی ابتدا کی آیات کا مفہوم دیکھئے کس آسانی سے انہو ںنے اسے نظم کیا ہے:
ہے تعریف ساری خدا کے لئے
جو کن کہہ دے اور ساری دنیا بنے
وہی رب تو سارے جہانوں کا ہے
مکانوں کا ہے لامکانوں کا ہے
رحیم اور رحمن بھی اس کے نام
چلائے وہی سارے جگ کا نظام
قیامت کے دن کا بھی مالک وہی
اسی کے اشارے سے دنیا سجی
اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ انہیں شعر گوئی پر کتنی قدرت اور استعمال زبان کا کتنا سلیقہ تھا میں ابتدا میں یہ عرض کرچکا ہوں کہ وہ بنیادی طور پر شاعر تھے۔ انہوں نے نظمیں بھی کہی ہیں اور غزلیں بھی رباعیات بھی لکھی ہیں اور قطعات بھی۔ ان کے اشعار پڑھ کر ان کے حسن اظہار کا اندازہ ہوتا ہے وہ اپنے کو ہندی، اُردو، اودھی، کا شعری وارث سمجھے تھے اور اس کا اظہار انہوں نے اپنے ایک شعر میں اس طرح کیا ہے:
کبیر و تلسی و رسکھان میرے اپنے ہیں
وراثت ِ ظفر و میر جو ہے میری ہے
اور اسی غزل میں وہ اپنے وقار اور اپنی انا کا اظہار اس طرح کرتے ہیں:
یہ ٹوٹی پھوٹی سی تقدیر جو ہے میری ہے
یہ میرے پاؤں میں زنجیر جو ہے میری ہے
میں جنگ ہار کے بھی معتبر سپاہی ہوں
میری نیام میں شمشیر جو ہے میری ہے
میں سمجھتا ہو کہ ایک شعر ان کی پوری شخصیت کو سمجھنے کے لئے کافی ہے اور اگر اس ردیف کو استعارے کی شکل میں دیکھیں تو وہ پورے اپنے معاشرے کا احاطہ اور ان کی سربلندی کا نشان بن جاتے ہیں۔ انور جلال پوری کی شاعری ان کے نفسیاتی مطالعے کا ایک بڑا اثاثہ ہے۔ ان کی شاعری میں دو احساسات ساتھ ساتھ چلتے دکھائی دیتے ہیں۔ ایک پریشانی، دل گرفتگی اور اُداسی کا اور دوسرا اَنا اور سربلندی کا۔ یوں ہر دونوں احساسات ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ لیکن بعض ایسے مضبوط کردار ہوتے ہیں جو اُداسی اور دل شکستگی سے گذرتے تو ضرور ہیں لیکن ان سے ہار نہیں مانتے ان کی غزلوں کے یہ چند اشعار دیکھئے:
قیام گاہ نہ کوئی نہ کوئی گھر میرا
ازل سے تابہ ابد صرف اک سفر میرا
خراج مجھ کو دیا آنے والی صدیوں نے
بلند نیزے پہ جب بھی ہوا ہے سر میرا
عطا ہوئی ہے مجھے دن کے ساتھ شب بھی مگر
چراغ شب میں جلا دینا ہے ہنر میرا
یہ زندگی کا توانا تصور ہے جو انہیں میراث ہندی کے باوجود سربلند رکھتا ہے یہاں نیزے پر سر کے بلند ہونے کے باوجود دنیا سے خراج لیا ہے اور دن کے بعد شب اگر ہمیں ملی تو ہم نے اس اندھیرے اور اس تاریکی سے لڑنے کے لئے چراغ جلا لیا۔ یہ ان کی فکری رجائیت ہی ہے جو اُن سے یہ کہلاتی ہے:
ابھی آنکھوں کی شمعیں جل رہی ہیں پیار زندہ ہے
ابھی مایوس مت ہونا ابھی بیمار زندہ ہے
اور اگر آج اس بیمار کی آنکھیں بند بھی ہوجائیں تو اس پر فکر اور اس کا ہر کلام ضرور زندہ رہے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انور جلال پوری کے چند اشعار
اگر تم آسماں تک جا رہے ہو شوق سے جاؤم
مرے نقش قدم آگے کی منزل کا پتہ دیں گے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب نام نہیں کام کا قائل ہے زمانہ
اب نام کسی شخص کا راون نہ ملے گا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چاہو تو مری آنکھوں کو آئینہ بنا لو
دیکھو تمہیں ایسا کوئی درپن نہ ملے گا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کوئی پوچھے گا جس دن واقعی یہ زندگی کیا ہے
زمیں سے ایک مٹھی خاک لے کر ہم اڑا دیں گے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں نے لکھا ہے اسے مریم و سیتا کی طرح
جسم کو اس کے اجنتا نہیں لکھا میں نے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میرا ہر شعر حقیقت کی ہے زندہ تصویر
اپنے اشعار میں قصہ نہیں لکھا میں نے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مسلسل دھوپ میں چلنا چراغوں کی طرح جلنا
یہ ہنگامے تو مجھ کو وقت سے پہلے تھکا دیں گے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نہ جانے کیوں ادھوری ہی مجھے تصویر جچتی ہے
میں کاغذ ہاتھ میں لےکر فقط چہرہ بناتا ہوں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سبھی کے اپنے مسائل سبھی کی اپنی انا
پکاروں کس کو جو دے ساتھ عمر بھر میرا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انتخاب و پیشکش
نیرہ نور خالد