برصغیر کی جدو جہد آزادی میں کئی نامور شخصیات کی کوششیں اور لہو شامل ہے۔
ان ہی ہستیوں میں ایک معروف ترین ہستی بھگت سنگھ ہے۔
بھگت سنگھ 28 ستمبر 1907 کو جڑانوالہ کے نواحی گاؤں 105 گ۔ ب بنگیانوالہ میں پیدا ہوئے۔ اُنکے والد کا نام کشن سنگھ جب کہ والدہ کا نام ودیا وتی تھا۔
بھگت سنگھ کو انقلابی اور ترقی پسند نظریات گویا ورثے میں ملے تھے کیونکہ اُس کا والد کشن سنگھ اور چاچا تحریک آزادی کے سرگرم کارکن تھے اور دادا ارجن سنگھ بھی بھارت کی سیاست میں سرگرمی سے حصہ لیتے تھے جو ہندو آریا سماج پارٹی کے رہنما کے طور پر جانے جاتے تھے۔
بھگت سنگھ نے ابتدائی تعلیم دیانند ویدک ہائی سکول جو آریا سماج کا ہائی سکول تھا سے حاصل کی جب کہ 1925میں اعلٰی تعلیم کے حصول کے لیے لاہور منتقل ہو کر نیشنل کالج لاہور میں داخلہ لیا۔ بھگت سنگھ نے بہت کم عمری میں ہی کئی ترقی پسند تنظیموں اور آزادی کے لیے جدوجہد کرنے والی سیاسی جماعتوں کی رکنیت حاصل کر لی۔ جن میں کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا، ریپبلکن ایسوسی ایشن، کرتی کرشن پارٹی، نوجوان بھارت سبھا، برٹش سماج مخالف وغیرہ شامل ہیں۔اس نوجوان نے عملی سیاست کا آغاز 12 برس کی کم عمری میں 1919 میں میلا وساکھی کے موقعہ پر انگریز سرکار کے نافذ کردہ رولٹ ایکٹ ( اس قانون کے مطابق کسی بھی شہری کو مقدمہ چلائے بغیر حراست میں لیا جا سکتا تھا) کے خلاف جلیانوالہ باغ میں ہونے والے احتجاج میں شرکت کر کے کیا۔ اس احتجاج میں جنرل ڈائر نے شرکا پر گولی چلانے کا حکم صادر کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے سینکڑوں افراد کو موت کے گھاٹ اُتار دیا گیا۔
بعد ازاں یہ نوجوان انگریز سامراج کے ظلم کے خلاف ایک زور دار آواز بن کر سامنے آیا۔انقلاب سے ہماری مراد ایک ایسے سماجی نظام کا قیام ہے جس میں پرولتاریہ (عام لوگوں) کا اقتدار تسلیم ہو اور ایک عالمگیر فیڈریشن کے ذریعے نسلِ انسانی سرمایہ داری، مصائب اور سامراجی جنگوں کی غلامی سے آزادی پا لے. بھگت سنگھیہ نوجوان انقلابی انگریز سامراج سے آزادی کی کوششوں کے دوران کئی بار گرفتار کیا گیا لیکن وہ کسی بھی قیمت پر اپنے نظریات کو بدلنے سے انکاری تھا۔ انگریز حکومت نے بھگت سنگھ کو تحریک آزادی ختم کرنے کے عوض راجباہ پاؤلیانی جڑانوالہ کے تمام چکوک کی زمین دینے کی پیشکش کی تھی مگر اس نے یہ کہہ کر ٹھکرا دیا کہ "زمین ہماری ہے تم کون ہو جو ہمیں دیتے ہو۔
تم برصغیر کو چھوڑ دو۔ میری جدوجہد لوگوں کے حقوق اور دھرتی کی آزادی کے لیے ہے اپنے مفاد کے لیے نہیں۔"شروع میں بھگت سنگھ مہاتما گاندھی کا سخت گیر پیروکار تھا لیکن20 فروری 1921 میں ننکانہ صاحب گوردوارا میں نہتے انسانوں کو تہ تیغ کیا گیا۔ اسی بنا پر وہ مہاتما گاندھی کی عدم تشدد کی تحریک سے بھی متنفر ہوا۔ اسکا ماننا تھا کہ "گولی کا جواب گولی سے ہی دیا جا سکتا ہے۔بھگت سنگھ کا کہنا تھا کہ انقلاب سے ہماری مراد ایک ایسے سماجی نظام کا قیام ہے جس میں پرولتاریہ (عام لوگوں) کا اقتدار تسلیم ہو اور ایک عالمگیر فیڈریشن کے ذریعے نسلِ انسانی سرمایہ داری، مصائب اور سامراجی جنگوں کی غلامی سے آزادی پا لے۔ “ ہندوستان کی تقسیم اور آزادی کے بارے بھگت سنگھ کا کہنا تھا کہ "ہمیں آزادی نہیں چاہیے! ہمیں ایسی آزادی نہیں چاہیے جہاں انگریز حکمرانوں کی جگہ مقامی اشرافیہ لے لیں۔
ہمیں ایسی آزادی نہیں چاہیے جس میں غلامی اور استحصال پر مبنی یہ بوسیدہ نظام قائم رہے۔ ہماری لڑائی ایسی آزادی کے لیے ہے جو اس ظالمانہ نظام کو ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے بدل کر رکھ دے۔"1928 میں برطانوی سائمن کمیشن کی لاہور آمد کے موقع پر تحریک آزادی میں شامل جماعتوں نے احتجاجی مظاہرہ کیا۔ احتجاج کے دوران برطانوی پولیس نے مظاہرین پر لاٹھی چارج کر کے اُنھیں بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنایا۔
بھگت سنگھ نے سائمن کمیشن کی مخالفت اور احتجاج کے شرکا پر پولیس تشدد کے ردعمل میں ایک برطانوی پولیس اہلکار کو گولی مار کر ہلاک کر دیا اور 8 اپریل 1929 کو اپنے ایک ساتھی باتو کشور دت کے ساتھ ملکر لاہور میں پنجاب اسمبلی میں، انقلاب زندہ باد، جئے ہندوستان، کے نعرے لگاتے ہوئے دو بم دھماکے کیے۔
1929 کو اسے اس کے انقلابی ساتھیوں سمیت گرفتار کر کے مقدمہ چلایا گیا۔ برطانوی اہلکار کے قتل کیس میں بھگت سنگھ اور اس کے ساتھیوں کو پھانسی کی سزا سنائی گئی اور اس پر عملدرآمد کرتے ہوئے 23 مارچ 1931 کے دن صرف 23 سال کی عمر میں بھگت سنگھ کو اس کے ساتھیوں کے ہمراہ لاہور میں شادمان چوک کے مقام پر پھانسی دے دی گئی
لوگ بھگت سنگھ کو تحریک آزادی کا ہیرو مانتے ہیں اور اُس نوجوان انقلابی کی برسی ہر سال جوش و جذبے سے منائی جاتی ہے۔
جب تک آزادی کی تاریخ میں بھگت سنگھ کا نام نہ آئے تب تک یہ تاریخ مکمل نہیں ہوتی۔
“