کیا معصوم خواہش تھی اس جٹی کی جو حجرہ شاہ مقیم کی تھی! پانچ سات پڑوسنیں مر جائیں، اور باقی کو تپ چڑھ جائے۔ کراڑ کی ہٹی (بنیے کی دکان) میں آگ لگ جائے کہ وہاں رات گئے تک چراغ جلتا رہتا ہے۔ فقیر کی کتیا ہلاک ہو جائے جو ہر وقت بھونکتی رہتی ہے۔ جب گلیاں ویران ہو جائیں اور کوئی بھی دیکھنے والا باقی نہ بچے تو پھر میرا یار آئے اور ان گلیوں میں خراماں خراماں چلے۔
پتہ نہیں جٹی کی یہ معصوم خواہش پوری ہوئی تھی یا نہیں، لیکن پاکستان میں گلیاں ویران ہونے کو ہیں۔
کراچی کے ایک بڑے کلب کے، جو اشرافیہ کا پسندیدہ ہے، تیس فیصد ارکان گزشتہ آٹھ ماہ کے دوران پاکستان کو خیر باد کہہ کر بیرون ملک چلے گئے ہیں۔ کلب کو اس کا اندازہ یوں ہوا کہ اس کی ماہانہ آمدنی لاکھوں کے حساب سے کم ہو گئی۔ تحقیق کی گئی تو پتہ چلا کہ ایک ہزار تین سو اسی معزز ممبران امریکہ، کینیڈا، برطانیہ اور متحدہ عرب امارات منتقل ہو گئے ہیں، ممبروں کی کل تعداد چار ہزار ہے۔ جو ارکان بیرون ملک نہیں گئے، انہوں نے اپنے اہل خانہ کو اغوا برائے تاوان، ٹارگٹ کلنگ اور دھماکوں سے محفوظ رکھنے کے لیے باہر بھیج دیا ہے۔ یہ بھی آمدنی میں کمی کا سبب بن گیا۔
کلمہ پڑھنے والوں کی باری اب آئی ہے لیکن گلیاں ویران ہونے کا آغاز ستر کی دہائی میں اس وقت ہو گیا تھا جب مرد مومن مرد حق منتخب حکومت کا گلا گھونٹ کر تخت پر رونق افروز ہوئے تھے۔ اس زمانے میں کراچی صدر کا علاقہ، بالخصوص ایمپریس مارکیٹ اور
بوہری بازار کے اردگرد گلی کوچے پارسیوں اور عیسائیوں سے بھرے ہوئے تھے۔ راولپنڈی چھائونی کے علاقے میں بھی کرسچین برادری کی بہت بڑی تعداد آباد تھی۔ اینگلو انڈین بھی موجود تھے۔ جی ایچ کیو، ملٹری اکائونٹس اور کئی دوسرے شعبوں میں رونق انہی کے دم قدم سے تھی۔ لیکن پھر ملک کی مجموعی فضا میں عدم برداشت کا زہر سرایت کرتا گیا۔ ضیاء الحق کا مذہب کا فہم ایک نیم خواندہ مُلّا کے فہم سے زیادہ نہیں تھا۔ اس کے طویل آمرانہ دور میں اسلام لوگوں کی زندگیوں میں تو نہ آ سکا، ہاں سطح کے اوپر اوپر مذہب کا خوب چرچا ہوا۔ ظاہر مذہبی ہو گیا اور باطن میں کچھ بھی نہ رہا۔ ضیاء الحق کا دور ختم ہونے تک، کیا کراچی اور کیا راولپنڈی، پارسی، عیسائی، اینگلو انڈین… سب اڑنچھو ہو گئے۔
اور اب ہیومن رائٹس گروپوں کا کہنا ہے کہ گزشتہ سال ایک سو اکاون ہندوئوں نے بھارت جا کر پناہ طلب کر لی ہے۔ 2011ء میں سات ہزار ہندو بھارت گئے لیکن واپس صرف چھ ہزار آئے۔ جب بھی کوئی قافلہ جاتا ہے، ساٹھ سے ستر فیصد مسافر واپس نہیں آتے اور وہیں پناہ طلب کر لیتے ہیں۔ پاکستان ہندو کونسل کے سربراہ ڈاکٹر رامیش کمار کا دعویٰ ہے کہ سندھ سے ہر ہفتے بیس سے پچیس خاندان ہجرت کرکے بھارت کا رُخ کر رہے ہیں۔ گزشتہ سال عین اقلیتوں کے دن، یعنی گیارہ اگست کو ایک سو چار ہندو سرحد عبور کرکے بھارت چلے گئے۔ دو دن بعد تیس پاکستانی ہندوئوں کا ایک اور گروہ سمجھوتہ ایکسپریس کے ذریعے امرتسر پہنچا اور پہنچ کر اعلان کیا کہ وہ واپس نہیں جانا چاہتے۔ انہی دنوں ہندو پنچایت کے صدر لچھمن داس پروانی نے، جو سندھ اسمبلی کے سابق رکن بھی ہیں، بتایا کہ ایک مہینے میں ستر ہندو گھرانے لوٹے گئے اور دو نوجوان ہندو لڑکے اغوا برائے تاوان کے نتیجے میں ہلاک کر دیے گئے۔ میرپور خاص کے ہندو خاص طور پر ان سرگرمیوں کا نشانہ بنائے جا رہے تھے۔ چنانچہ درجنوں خاندان وہاں سے ہجرت کرکے سرحد پار چلے گئے۔
تاہم اب پاکستان چھوڑنے کے میدان میں مسلمان اور غیر مسلم دونوں ایک ہی رفتار سے دوڑ رہے ہیں۔ ہزارہ جس بے دردی اور تواتر سے موت کے گھاٹ اتارے جا رہے ہیں اس کے پیش نظر علمدار روڈ کوئٹہ کے ہر مکین کی خواہش اور کوشش ہے
کہ وہ جلد از جلد یہ ملک چھوڑ جائے۔ چند دن پیشتر ایک معروف صحافی نے لکھا ہے کہ یہ قتل و غارت مذہبی گروہ نہیں، بلکہ بعض دوسری قوتیں کرا رہی ہیں تاکہ ہزارہ کی اونے پونے بکنے والی جائیدادیں خریدی جا سکیں۔
تاجروں اور صنعتکاروں کی کثیر تعداد دوسرے ملکوں کو ہجرت کر رہی ہے۔ ہزاروں بزنس مین کروڑوں روپے کا سرمایہ لے کر ملائیشیا چلے گئے ہیں۔ کپڑا بنانے والوں نے کراچی سے اپنے کارخانے اُکھاڑ کر بنگلہ دیش میں جا لگائے ہیں۔ صنعت کاروں کی بھاری تعداد ڈھاکہ، چٹاگانگ اور سلہٹ منتقل ہو گئی ہے۔
دوسری طرف ٹیکنوکریٹ بھی لاکھوں کی تعداد میں ملک چھوڑ رہے ہیں۔ ڈاکٹر، انجینئر، چارٹرڈ اکائونٹینٹ، سائنس دان اور پروفیسر مغربی ملکوں کے سفارت خانوں کے باہر طویل قطاریں باندھے کھڑے ہیں اور زبان حال سے کہہ رہے ہیں کہ ؎
بھاگ مسافر میرے وطن سے، میرے وطن سے بھاگ
اُوپر اُوپر پھول کھلے ہیں بھیتر بھیتر آگ
ایک سروے کے مطابق 2008ء میں پاکستان کے چھ فیصد لوگ بیرون ملک آباد ہونا چاہتے تھے لیکن آج یہ تعداد بیس فیصد سے کہیں زیادہ ہے۔ لگتا ہے ایک وقت ایسا آ جائے گا کہ یا تو سیاست دان ملک میں رہ جائیں گے یا بندوق بردار مذہبی گروہ۔ گجرات، رائے ونڈ، گڑھی خدا بخش، چارسدہ، لکی مروت، ڈی آئی خان، ملتان، جھنگ، ہالہ اور کراچی کے مخصوص سیاسی خانوادے، جاگیردار اور مذہبی مافیا کے ارکان ہی ملک میں نظر آئیں گے۔ پھر امرا کے یہ طبقات ڈاکٹروں، انجینئروں، سائنس دانوں اور پروفیسروں کو درآمد کرکے اپنی ضروریات پوری کیا کریں گے کیونکہ تمام پڑھی لکھی آبادی جا چکی ہوگی۔ سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے تکبر سے کہا تھا کہ جو ملک چھوڑ کر جانا چاہتے ہیں، چلے جائیں، اُنہیں روکتا کون ہے! انہوں نے یہ نہیں سوچا کہ سب تعلیم یافتہ پاکستانی ہجرت کر گئے تو ان کے صاحبزادوں کی جگہ امتحان کون دے گا؟
ذرا اس منظر کا تصور کیجیے۔ فقیر کی کتیا مر گئی ہے۔ بنیے کی دکان نذر آتش ہو گئی ہے۔ پڑوسنیں کچھ مر گئی ہیں اور کچھ بستروں میں لیٹی ہائے ہائے کر رہی ہیں۔ گلیاں سنسان ہیں اور مرزا یار ان میں خراماں خراماں چل رہا ہے۔ اپنے تین شعر یاد آ رہے ہیں ؎
یہاں سے پہلے تو کچھ بے نوا ہجرت کریں گے
پھر اک دن سب پرندے دیکھنا ہجرت کریں گے
کوئی منظر نہیں ہوگا نہ کوئی آنکھ ہوگی
ہوا اور پھول تارے اور گھٹا ہجرت کریں گے
بکھیرو سرحدوں پر پھول اور سلگائو لوبان
کہ اب اک دن تمہارے بادشہ ہجرت کریں گے