بھاٹی دروازہ
——————-
یہ دروازہ شہر قدیم کی فصیل میں جنوبی جانب واقع ہے۔ فصیل میں بھاٹی دروازے کی دائیں جانب موری جبکہ بائیں جانب ٹکسالی دروازہ ہے۔ اس کے سامنے لوئر مال ہے جو آگے جا کر ملتان روڈ بن جاتی ہے۔
بھاٹی دروازے کے سیدھے ہاتھ تانگوں کا اڈہ اور خالی میدان تھا جہاں سرکس کمپنیاں سرکس لگاتی تھیں جبکہ الٹے ہاتھ پر مسجد و مزار غلام رسول ہے۔ یہ بزرگ ’’بلیوں والی سرکار‘‘ کے نام سے مشہور ہیں۔ دروازے کے بالکل پاس الٹے ہاتھ پر ایک بڑا درخت ہے جس کی شاخوں نے جھک کر دروازے کا منظر چھپایا ہوا ہے۔
بھاٹی گیٹ کی بیرونی جانب سرکلر روڈ سے پرے حضرت داتا گنج بخش علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ کا مزار ہے اور اس کے قریب ہی کربلا گامے شاہ ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے شہر قدیم سے داتا گنج بخش علی ہجویری کے مزار تک آنے کے لیے یہ دروازہ بنایا گیا تھا۔ ملک ایاز کے زمانے میں یہاں بھٹ قبیلے لوگوں کو رہائش اختیار کرنے کے لیے حوصلہ افزائی کی گئی اور انہوں نے صدیوں اس دروازے کے اندر قیام کیا اور ان کی مناسبت سے ہی دروازے کا نام بھاٹی دروازہ مشہور ہو گیا۔ بھٹ قبیلے کے لوگ تالا سازی کے پیشہ سے منسلک رہے۔ غزنوی عہد کا شہر قدیم یہاں اختتام پذیر ہوتا تھا اور اکبر کے عہد میں جب شہر قدیم کو نو گزروں میں تقسیم کیا گیا تو تلواڑہ گزر اور مبارا خان گزر بھاٹی دروازے کے پاس باہم ملتی تھیں۔
حکیم احمد شجاع مرحوم ’’لاہور کا چیلسی‘‘ (مطبوعہ 1988ء) کے صفحہ 111پر بھاٹی دروازے کے نام کی وجہ تسمیہ بیان کرتے ہوئے اپنی رائے کا اظہار کرتے ہیں:
’’بھاٹی دروازے کا اصل نام بھٹی دروازہ تھا اور یہی وہ مقام تھا جہاں مغلوں کی سلطنت سے پہلے بھٹی قوم کے جنگجو دلیروں نے فتح ملتان کے بعد لاہور آ کر پڑائو ڈالا تھا۔ امتداد زمانہ سے بگڑتے بگڑتے بھٹی سے بھاٹی دروازہ ہو گیا۔‘‘
بھاٹی گیٹ کے باہر کھلے میدان میں روایتی تھیٹر کمپنیاں اور سرکس لگتے تھے۔ ہو سکتا ہے اس کی ایک وجہ دربار حضرت داتا گنج بخش بھی ہو کہ عرس کے موقع پر اسی طرح کی تفریحات معمول کا حصہ ہیں تاہم 1938ء میں جب فلموں کا رواج ہوا تو یہ تھیٹر کمپنیاں آہستہ آہستہ اپنی اہمیت کھونے لگیں تب یہاں تین سینما گھر تعمیر ہو گئے۔
علمی و ادبی اور تاریخی حوالے سے اندرون بھاٹی گیٹ کا علاقہ ہمیشہ ہی مرکز و منبع رہا ہے۔ مشہور تاریخی اور لاہور کی ابتدائی مسجد ’’اونچی مسجد‘‘ بھاٹی دروازے کے اندر واقع ہے۔ سکھوں کے عہد کے آخری دو عشروں میں یہاں بہت سی حویلیاں تعمیر کی گئیں، جن میں سے زیادہ تر آج موجود نہیں ہیں۔ بھاٹی بازار، بازار حکیماں اور ٹبی بازار سے ہوتا ہوا شاہی محلہ تک چلا جاتا ہے جہاں ٹکسالی دروازے سے سڑک آ کر مل جاتی ہے۔
کوچہ فقیر خانہ اور فقیر خانہ میوزیم بھی بھاٹی دروازے کے اندرونی حصے میں واقع ہیں۔ ذوالجناح کا جلوس جو اندرون لاہور سے کربلا گامے شاہ جا کر ختم ہو جاتا ہے، بھاٹی دروازے میں سے ہی گزرتا ہے۔ بے شمار علمی و ادبی شخصیات بازار حکیماں اور تحصیل بازار میں قیام پذیر رہیں۔اقبال لندن سے لاہور آکر رہائش پذیر ہوئے تو انہوں نے بھاٹی دروازے کے محلہ جلوٹیاں کو اپنا مسکین بنایا، جہاں ان کے دوست رہتے تھے۔ لاہور کی اولین ادبی انجمن جس کے اجلاس حکیم امین الدین بیرسٹر کے مکان پر ہوتے تھے، یہیں قائم ہوئی۔ اس انجمن کی بنیاد مشہور ڈرامہ نویس حکیم احمد شجاع پاشا کے والد اور فلمی ہدایت کار انور کمال پاشا کے دادا نے رکھی۔ مسلم لیگ کا ترجمان ’’خالد‘‘ نامی اخبار بھی بھاٹی دروازے سے ہی شائع ہوتا تھا۔
سر عبدالقادر نے یہیں سے اپنا رسالہ ’’مخزن‘‘ جاری کیا۔ مشہور ڈرامہ نگار آغا حشر بھی یہیں مقیم رہے۔ مرزا داغ دہلوی جب لاہور آئے تو بھاٹی دروازے کو اپنا مسکن بنایا۔ ڈاکٹر مولوی محمد شفیع کا مکان بھی کوچہ پٹرنگاں کے قریب ہی تھا جو اورینٹل کالج کے پرنسپل اور کالج میگزین کے ایڈیٹر رہے۔ ’’تاریخ لاہور‘‘ کے مصنف سید محمد لطیف کوچہ تحصیل کے مقابل سمیوں کا بازار میں رہتے تھے۔ کوچہ تحصیل میں رسالہ ’’تہذیب نسواں‘‘ کے مالک سید ممتاز علی اور کچھ دیر کے لیے مولانا محمد حسین آزاد بھی قیام پذیر رہے۔ بارود خانے کے علاقہ میں ’’نیرنگ خیال‘‘ کے ایڈیٹر و مالک حکیم یوسف حسن بھی شروع شروع میں مقیم رہے۔ آغا حشر جب اپنی کمپنی کے ساتھ لاہور آتے تو بھاٹی دروازے کے باہر اس مکان میں ٹھہرتے جو ہری کرشن تھیٹر سے ملحق تھا، جس میں ان کی کمپنی کے کھیل دکھائے جاتے تھے۔ کوچہ سبز پیر میں کٹڑی امیر چند میں مولانا ظفر علی خان دکن سے واپس آئے تو رہنے لگے۔ انہوں نے ’’پنجاب ریویو‘‘ کے نام سے رسالہ بھی نکالا۔ پیسہ اخبار کے مالک اور ایڈیٹر منشی محبوب عالم کے ادبی و صحافتی سلسلہ کا آغاز بھی بھاٹی دروازے سے ہی ہوا۔
استاد دامن بھاٹی در وازے کے اندر ہی اپنی نظمیں سنانے آتے تھے۔ ساغر صدیقی کی عمر کا بیشتر حصہ بھاٹی دروازے میں اور اس کے قرب و جوار میں ہی گزرا۔ مولانا محمد حسین آزاد بیرون بھاٹی دروازہ نزد کربلا گامے شاہ دفن ہیں۔
فن تعمیر کے حوالے سے بھاٹی، شیرانوالہ اور کشمیری دروازہ روکار میں ایک جیسے ہیں۔ البتہ سطحی نقشے کے اعتبار سے بھاٹی دروازہ، شیرانوالہ اور کشمیری دروازے سے مختلف ہے۔
بھاٹی دروازہ اپنی ظاہری سطح پر یوں تو گوتھک اندازِ تعمیر کی دوہری کمان پر مشتمل ہے مگر دروازے کے بائیں اور دائیں جانب دو لمبی بیرکیں ہیں جن کے سامنے برآمدے بنے ہوئے ہیں۔ ان بیرکوں کی بیرونی دیواریں شہر کی فصیل کی جگہ لیے ہوئے ہیں۔ دائیں اور بائیں دونوں جانب دو دروازے ڈیوڑھی میں کھلتے ہیں۔ لمبائی کے اعتبار سے بھاٹی دروازہ دیگر دروازوں کی عمارات سے طویل ترین ہے اس کی لمبائی 187فٹ تک پہنچتی ہے۔
دروازے کی بڑی ڈاٹ کو دو ستون سہارا دئیے ہوئے ہیں ہر ستون پر اوپر نیچے مستطیل چوکھٹے بنے ہوئے ہیں۔ ڈیوڑھی کی چھت بھی گوتھک انداز کی ڈاٹ سے بنی ہے۔ ڈیوڑھی کا حصہ دائیں اور بائیں ملحقہ بیرک کی عمارت سے خاصا بلند ہے۔ ڈاٹ کے دونوں اطراف بیرونی جانب مرغولے بنے ہوئے ہیں جو اس کی خوبصورتی میں اضافہ کا سبب بنتے ہیں۔
انگریزی عہد میں بھاٹی دروازے کی تعمیر نو کے وقت نہ تو عسکری ضرورت کو اس طرح ترجیح دی گئی جیسے سکھوں یا مغلوں کے زمانے میں تھی اور نہ ہی اصل دروازوں کی جمالیات کے تناسب و شکل کو بحال رکھنے کی کوشش کی گئی۔ البتہ اتنا ضرور ہے کہ دہلی دروازے کے برعکس ان دروازوں کا روکار داخلی دروازے جیسا ہی نظر آتا ہے۔ گوتھک انداز تعمیر کی ڈاٹ کے علاوہ دیگر عناصر مغلوں کے فن تعمیر سے سرسری ربط بناتے ہیں۔
بیرک اور برآمدہ یک منزلہ ہیں جبکہ اصل دروازے میں بالائی منزل پر داروغوں کی رہائش کے لیے کمرے تعمیر تھے۔ عمارات کے لیے اینٹیں اور چونے کا مسالہ استعمال کیا گیا۔ آج کل ان بیرکوں میں بھاٹی پولیس کے ملازم آباد ہیں۔
آج کل بیرون بھاٹی کے کافی رقبہ پر مدرسہ جامعہ حنفیہ غوثیہ نے قبضہ کر رکھا ہے بلکہ وہاں کثیر منزلہ عمارت بھی تعمیر کر لی ہے۔ محکمہ اوقاف نے کئی برس پہلے داتا دربار کی توسیع کا منصوبہ شروع کیا تو بھاٹی دروازے کے باہر عارضی طور پر دکانات تعمیر کیں جو دراصل ان لوگوں کو دی گئیں جن سے داتا دربار کی توسیع کے وقت دکانات خالی کروائی گئی تھیں مگر اب یہ دوکانات مستقل ہو گئی ہیں۔ چونکہ میاں نواز شریف نے توسیعی منصوبہ میں شامل دوکانات ختم کروا کر سماع ہال بنوا دیا تھا لہٰذا یہ دوکاندار اب مستقل طور پر یہیں سکونت پذیر ہیں۔
(غافر شہزاد کی کتاب ’’لاہور… گھر گلیاں دروازے‘‘ سے اقتباس)
٭٭٭
جسٹس امیر علی لکھتے ہیں کہ جب حضرت داتا گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ کے ہاتھوں غیر مسلم حلقہ بگوش اسلام ہونے لگے تو ہندو راجہ جے سنگھ کے سپاہی گئے اور شکایت کی کہ سید علی ہجویری ایک زبردست سیاسی شخصیت بنتے جا رہے ہیں، آپ اس کی طرف توجہ دیں چنانچہ راجہ جے سنگھ نے سلطان مسعود غزنوی سے اس کا ذکر کیا تو اس نے یہ بات سن کر ٹال دی اور کہا کہ آپ ایک برگزیدہ ہستی ہیں، ان کی طرف سے کسی کوکوئی تکلیف نہیں پہنچ سکتی۔ اس کے کچھ عرصہ بعد مسلمانوں نے بھاٹی دروازہ کو ’’ہجویری دروازہ‘‘ کہنا شروع کر دیا۔ بھٹی راجپوتوں نے اس کا برا منایا اور انہوں نے بھاٹی دروازے کا نام جے سنگھ دروازہ رکھ دیا۔ جب حضرت سید علی ہجویری کواس کی اطلاع ملی تو انہوں نے دونوں قوموں کے عمائدین کو بلایا اور کہا کہ نام بدلنے سے کچھ نہیں ہوتا، جب تک کہ دلوں میں انقلاب نہ آئے۔ پھر کہا کہ آپ لوگ جو نام بھی رکھیں گے ہمیں منظور ہو گا ، اگر بھاٹی دروازہ ہی رہے تو اچھا ہے۔ راجہ جے سنگھ آپ کے فیصلے اور اخلاق سے بہت متاثر ہوا اور اسلام قبول کر لیا اور عرض کی کہ اس کا نام ہجویری دروازہ رکھنے کی اجازت فرمائی جائے مگر آپ نے فرمایاکہ ہجویری کی نسبت بھٹی قوم کا حق اس دروازے پر زیادہ ہے جو یہاں صدیوں سے آباد ہیں لہٰذا ان کو من پسند نام رکھنے کا حق ہے۔ جسٹس امیر علی نے مزید لکھا ہے کہ اس واقعہ کے تقریباً ایک ماہ بعد ساری بھٹی قوم حلقہ بگوش اسلام ہو گئی۔
(پیر صوفی محمد اطہر القادری کی کتاب ’’الجواہرات عن الزیارات‘‘ سے اقتباس)
Bhaati Gate
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...