خواتین نے فیکٹریوں میں کام کرنا کس وجہ سے شروع کیا؟
بھاپ کی وجہ سے
صنعتی انقلاب کا آغاز ٹوٹے کھلونے سے ہوا تھا۔ گلاسگو یونیورسٹی نے کلاس کے تجربات کے لئے استعمال ہونے والے نیوکومن سٹیم انجن کی مرمت کرنے کے لئے کاریگر جیمز واٹ کو کہا تھا۔ دو فٹ کا یہ کھلونا انجن ٹھیک کام نہیں کرتا تھا۔ جیمز واٹ اس سے کھیلتے رہے، اس کو بہتر بناتے رہے۔ یہ ان کی زندگی کا جنون بن گیا۔
پانی سے مشین چلانے کا کام انسان بہت عرصے سے کرتا آیا ہے بلکہ دوسری صدی کے اسکندریہ میں گانے اور ناچنے والے روبوٹ ہیرو نے بھاپ سے بنائے تھے۔ سیوری نے 1696 میں بھاپ کی طاقت کو پہلی بار کانکنی کے لئے استعمال کیا جو بیلوں کی طاقت سے بہتر تھا۔ سیوری نے اس کو “آگ سے پانی نکالنے والے انجن” کا نام دیا تھا، جس کو نیوکومن نے بہتر کیا تھا۔ اس انجن کو چلانے کا خرچہ بہت زیادہ تھا اور روز بہت سا کوئلہ ہڑپ کر جاتا تھا۔ اس انجن کا کھلونا ماڈل تھا جس کو جیمز واٹ ٹھیک کر رہے تھے۔
اس وقت کی سائنس میں حرارت کے ضائع ہونے یا ہیٹ لاس جیسے تصورات تو نہیں تھے لیکن واٹ بھاپ ضائع ہونے کا ذکر کرتے تھے۔ نیوکومن کا انجن پانچ میں سے چار حصے بھاپ ضائع کر دیتا تھا یعنی سو روپے کے کوئلے میں سے اسی روپے ضائع چلے جاتے تھے۔ کیتلی سے نکلتے بھاپ سے لے کر چیزوں کو پگھلانے تک واٹ نے تجربے شروع کئے۔ کیمسٹری میں جازف بلیک جیسے سائنسدان کی مدد لی اور کتابوں میں اپنے آپ کو غرق کر لیا کیونکہ وہ باقاعدہ سائنس نہیں پڑھے ہوئے تھے۔
اپنے ورکنگ کلاس بیک گراوٗنڈ کے باجوجود وہ برمنگھم کے لونر سوسائٹی کا حصہ بن گئے۔ برمنگھم اس وقت کی سلیکون ویلی تھا اور لونر سوسائٹی میں ولیم ہرشل، ارسمس ڈارون، جان پریسٹلے جیسے نام بھی تھے۔ ان کی ایک لوناٹک بولٹن سے دوستی ہو گئی جن کی برتنوں، تھرمامیٹر اور کانچ کے زیور بنانے کی فیکٹری تھی (وہی کانچ کے زیور جن کے عوض یورپوں نے امریکی انڈینز کی زمینوں کو خریدا تھا)۔ بولٹن کی صورت میں جینز واٹ کو اپنی ریسرچ کو فنڈ کرنے والا مل گیا تھا۔
جیمز واٹ نے بھاپ کے لئے کنڈنسر کا الگ خانہ بنا کر مسئلے کی سائنس کو حل کر لیا۔ اس کی انجینیرنگ پر مزید وقت لگا۔ اس انجن کی ایفیشنسی نیوکومن کے ڈئزائن کے مقابلے میں چار گنا بہتر تھی۔ یہ بڑے پیمانے پر استعمال کے لئے قابلِ عمل ہو گیا تھا۔
واٹ اور بولٹن نے 1775 میں اپنا پہلا انجن بیچا۔ چند ماہ میں ایک فروخت ہوتی کیونکہ اس میں صرف کانکنی کے ادارے دلچسپی لے رہے تھے۔
لکڑی سے لے کر جوتوں تک کے کارخانوں کو سٹیم انجن کیسے بیچا جائے؟ کسی کو یہ کیسے بتایا جائے کہ اس انجن کی مدد سے آٹا کتنا زیادہ پیسا جائے گا یا کپڑا کتنا زیادہ بن سکے گا۔ واٹ نے اس کا ایک طریقہ سوچا۔ یہ ہارس پاور کا تصور تھا۔
جو کام سٹیم انجن کرتا تھا، وہ گھوڑوں سے لیا جاتا تھا۔ واٹ نے انجن کی طاقت کا یونٹ اسے رکھ دیا۔ کسی کے ذہن میں اس کی طاقت کا تصور بنانے کے لئے یہ ایک مشترک زبان تھی۔
مارکیٹنگ کا یہ تصور سائنس میں بھی رائج ہو گیا۔ اگلی صدی میں کیمسٹری اور فزکس میں تھرموڈائنمکس کا شعبہ سب سے اہم رہا۔ حرارت اور توانائی کا مطالعہ ایک بڑی فیلڈ ہے۔ ہارس پاور توانائی کا یونٹ بن گیا۔ اس یونٹ کو 1882 میں بدلا گیا اور اس کا نیا یونٹ پچھلے یونٹ کا نام دینے والے جیمز واٹ کے نام پر واٹ قرار پایا۔
واٹ کی اپنی زندگی میں یہ انجن اتنا مقبول نہیں ہوا۔ اس کی ایک وجہ واٹ خود تھے۔ ان کا زیادہ زور پیٹنٹ کا دفاع کرتے عدالت میں گزرا۔ اراسمس ڈارون نے بھاپ کی طاقت سے چلنے والی پہلی آٹوموبائل سکیچ کی۔ واٹ نے اس کو پیٹنٹ کروا لیا۔ اس نیت سے، کہ کوئی اور اس کو بنا نہ پائے۔
لیکن واٹ تاریخ کے چلتے پہئے کے آگے کھڑے ہو کر اسے روک نہیں سکتے تھے۔ پانی، بھاپ کی صورت بہت زیادہ طاقتور تھا۔ واٹ کا ڈیزان اس قدر زبردست تھا کہ ان کے انتقال کے 75 سال بعد تک یہی ڈیزائن استعمال ہوتا رہا۔
یہ اس قدر طاقتور تھا کہ اس نے معاشرہ پلٹ دیا۔ برطانیہ کی سوسائٹی کی چولیں ہلا دیں۔ فیکٹریوں کو اب دریا کنارے ہونے کے مجبوری نہیں تھی۔ یہ شہروں میں آ سکتی تھیں۔ فیکٹریاں شہروں میں آئیں، اپنے ساتھ کئی ملین مزدوروں کو لے کر آئیں۔ انیسویں صدی کے وسط میں برطانیہ دنیا کا پہلا ملک بن چکا تھا جہاں پر شہری آبادی دیہی آبادی سے زیادہ ہو گئی تھی۔ خواتین اور بچے بھی ان میں کام کر سکتے تھے۔ اس نے معاشرے میں ایک اور کلاس پیدا کر دی جو اس سے پہلے کبھی نہ تھی۔ یہ مڈل کلاس کہلائی۔
فرانس میں خونی انقلاب کے برعکس برطانیہ کا انقلاب کھولتے ہوتے پانی کی طاقت سے آیا تھا۔ ٹوٹے ہوئے کھلونے کی مرمت کے لئے بلائے گئے کاریگر کا اس میں ایک اہم ترین کردار تھا۔