بیواؤں کی شادی
میں نے یہ مضمون اس لیے لکھا کہ میں نے کل میں نے ایک پوسٹ دیکھی جس میں کئی لوگوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ وہ ناحق بھارت سے علحیدہ ہوئے اور اس مضمون میں یہ بتایا گیا ہے کہ ہندوؤں ہندوؤں ہو کر تنگ نظری اور فکر کی آزادی حاصل کی ہے ۔ جس کا غالباً بہت سے لوگوں کو احساس بھی نہیں ہے ۔ ہماری فکر میں تبدیلی آزادی کا ثمر ہی ہے ۔
ہمارے مذہب میں پیواؤں کی شادی ممنوع نہیں ہمارا مذہب اس کی اجازت دیتا ہے ۔ اگرچہ ہمارے معاشرے میں نہ بیواہ کی شادی ممنوع ہے نہ اسے برا سمجھا جاتا ہے ۔ لیکن یہ تصور آزادی کے ہمارے سماج میں آیا ہے ۔ ورنہ مشترکہ ہندوستان میں اسے معیوب سمجھا جاتا تھا ۔ خاص کر اشراف مثلاً سید ، شیخ ، مغل پٹھانوں میں بیواہ کی شادی کا تصور ہی نہیں تھا ۔
ہندوؤں میں صرف چند ایک نچلے قبائل اور جاٹ قبائل کے علاوہ بیواہ کی شادی کا تصور ہی نہیں تھا ۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ جن قبیلوں نے برہمنوں کی بالا دستی ۔ بیواؤں دوبارہ پر پابندی اور زراعت سے گزیز کیا انہیں راجپوت کا درجہ مل گیا اور جنہوں نے انکار کیا انہیں کمتر خیال کیا گیا ۔ ایسا بھی جن قبائل نے ان میں کسی احکام کی خلاف ورزی کی ان کا درجہ سماج میں گر کر جاٹوں کے برابر ہوگیا ۔ چاہے وہ برہمن ہو یا راجپوت یا کوئی اور ۔ ان احکام پر عمل کرنے والے راسخ عقیدہ ہندو کہلاتے تھے ۔ یہی چیز ہندوؤں سے مسلمانوں نے اپنا لی اور یہاں تک شاہ اسمعیل شہید کی بہن انیس سال کی عمر میں بیوہ کا عقد ثانی نہیں کیا گیا ۔ یہ صورت حال حال شاہ ولی اللہ کے خاندان میں تھی تو عام آدمی کا کہنا ہی کیا ۔
ہندوؤں میں کمسنی کی شادی رائج تھی اور مسلمانوں میں کمسنی میں شادی ہونے لگی ۔ اس کے جو اثرات معاشرے پر پڑ رہے تھے اس کا اندازہ اس سے لگایا جاتا تھا کہ ۱۹۳۱ء کی مردم شمادی کے مطابق دس ہزار زائد کم سن لڑکیاں جن کی بارہ سال سے چند ماہ کی بیوائیں تھیں ۔ اس مردم شماری کے مطابق ہندوستان میں صرف بھاؤ نگر میں پانچ سو سے زائد کم عمر پچیاں تھیں جن کی عمر زیادہ سے زیادہ بارہ سال تھی اور ان میں سے کئی کی عمر ایک سال تھی ۔ ان بچیوں کی شادی قانونی ہوتے ہوئے ہندو مذہب اور سماج کی رو سے ناممکن تھی ۔ اس کا منفی پہلو یہ تھا ان میں سے بہت سی بیوائیں جن کی عمریں ایک سال سے کم عمر بیواؤں میں مسلمان بھی شامل تھیں ۔ یعنی آزادی سے پہلے ہندوستان کے ہر حصہ اور آبادی کے ہر فرقوں میں دو بارہ شادی کو معیوب سمجھا جاتا ہے ۔ دلہن ایک بار اور زچہ بار بار کا مسلک ہندوستان کے تمام فرقوں ، طبقوں اور سماجوں پر مسلط تھا ۔ اس وقت ہندوستان کے مختلف سماجوں میں ایسی دس ہزار بیوہ لڑکیاں موجود تھیں جن عمریں چند ماہ سے چند سال کی تھیں ۔ یہ لڑکیاں جب سن شعور کو پھہنچتی تھیں تو انہیں معلوم ہوتا تھا کہ وہ بچپن میں بیاہ دی گئیں اور بیواہ ہوچکی ہیں ۔ ان بے گناہ بیواؤں کو الٹا سماج منحوس اور قصور وار ٹہرتا تھا اور انہیں زندگی بھر انہیں زندگی بھر انہیں مصیبتوں اور اذتیوں کا سامنا کرنا پڑتا تھا ۔ وہ یقیناًیہ سوچتی ہوں گی کہ وہ کیوں کہ ایسے جاہل ملک اور سماج میں ہوئیں ہیں جہاں وہ جہالت کے دیوتا کی بھینٹ پر چڑھائی گئیں ۔ ان میں سے بہت سی لڑکیاں مختلف ترغیبات سے بے بس ہو کر بالا خانے پہنچ جاتیں تھیں اور اس طرح اس قول کی تصدیق ہوگی کہ خود سماج سماجی برائیاں پیدا کرتا ہے ۔
یہ بات قابل ذکر ہے جو لڑکے رنڈوے ہوجاتے ہیں وہ دوبارہ شادی کرسکتے ہیں ان کی شادی دوبارہ ہوجاتی تھی ۔ مگر بیوہ بچیاں اور لڑکیاں زندگی پھر بیوہ رہنے پر مجبور کی جاتی تھی ۔ یہ صورت حال اگر مستقم ہندوستان میں اب بھی موجود ہے ۔ صورت حال بہتر ہوئی ہے مگر اطمنان بخش نہیں ۔ البتہ بیوااؤں کو آشرم بھیج دیا جاتا ہے جہاں وہ یا تو پجاریوں کے پہلو گرماتی ہیں یا وہاں سے فرار ہونے کی کوشش میں بالاخانے میں پنچ جاتی ہیں اور جلد ہی موت کی پناہ میں چلی جاتی ہیں ۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔