اولاد اللہ تعالیٰ کا سب سے خوبصورت تحفہ ہے اور اس تحفے کی اہمیت کا اندازہ انسان کو تب تک نہیں ہوتا جب تک یہ انمول تحفہ اس کے ہاتھ میں نہیں دے دیا جاتا ۔ اولاد بیٹا ہو یا بیٹی دونوں سے محبت والہانہ ہی ہوتی ہے ۔ معاشرے کے بنائیے ہوئے اصولوں اور رویات کی وجہ سے یا کسی بھی دباؤ کی وجہ سے انسان اپنی سوچ کو کسی کے لیے تنگ یا کسی کے لیے کشادہ کر لے یہ ایک الگ بات ہے۔ مگر فطری تو پر اولاد تو اولاد ہی ہوتی ہے۔ پھر اولاد چاہے انسان کی ہو یا جانور کی فطری محبت ہمیں ہر جاندار جن کے جذبات سمجھنے کی ہم قدرت رکھتے ہیں ہم سمجھ سکتے ہیں۔
اب کسے بیٹیاں زیادہ پیاری ہیں اور کسے بیٹے اور اس کی کیا کیا وجوہات ہیں اس پر تو میں کچھ نہیں کہہ سکتا مگر اپنے کچھ تجربات ضرور شئیر کر سکتا ہوں۔
شادی کے پانچ سال بعد جب مجھے اللہ نے بیٹا عطا کیا، تو اس وقفے کی وجہ سے اور پہلی اولاد کی وجہ سے محبت میں ایک فطری شدت تو تھی ہی مگر ایک ہی سال بعد جب بیٹی پیدا ہوئی تو محبت کی شدت نے اپنی نوعیت بدل لی۔ شاید غیر فطری طور پر جس کا اندازہ مجھے تب ہوا جب مارکیٹ جاتے ہوئے میرے بیتے نے کچھ خریدنے کی خواہش کا اظہار کرتے ہوئے یہ کہا کہ پاپا یہ چیز لے لیتے ہیں یہ مریم کو بہت پسند ہے۔
میں نے حیرانی سے پوچھا کیوں کیا تمہیں یہ پسند نہیں۔ تو میرا بیٹا جس کا نام اسماعیل ہے وہ مجھ سے کہتا ہے کہ نہیں پسند تو مجھے بھی ہے۔ پھر میں نے مزید پوچھا کہ پھر تم نے یہ کیوں نہیں کہا کہ مجھے پسند ہے اور لے لیں۔ تو اسماعیل نے جواب دیا کہ جو مریم کو پسند ہوتا ہے وہ آپ ضرور لے لیتے ہیں۔
اُس وقت مریم کی عمر 4 سال تھی اور اسماعیل کی عمر 5 سال تھی اور اس نے اتنی چھوٹی عمر میں یہ محسوس کر لیا کہ میری محبت بیٹی کر طرف زیادہ ہے، شاید اس بات کا مجھے سرے سے اندازہ نہیں تھا مگر بچے بہت کچھ محسوس کرتے ہیں۔ اور بچے جھوٹ بھی نہیں بولتے۔
بیٹیاں ہوتی ہی ایسی ہے، کب محبت کا کتنا حصہ لے جاتی ہیں انسان سمجھ بھی نہیں پاتا۔ شاید ایسا بہت سے لوگوں کے ساتھ ہوتا ہو گا۔ اللہ نے بیٹیوں کے لیے ہر انسان کے دل میں ایک الگ مقام رکھا ہے اور وہ چاہتے ہوئے یا نہ چاہتے ہوئے بیٹیوں کے نصیب میں لکھ دیا جاتا ہے۔ اب ہم غیر فطری طور پر اپنے آپ کو مختلف انداز میں پیش کرنے کی کوشش کریں یہ اور بات ہے۔
بیٹوں کی محبت بھی باپ سے کم نہیں ہوتی ، مگر جو گرم جوشی اور ولولہ بیٹیوں کے دلوں میں ہوتا ہے اور ان کی آنکھوں سے اور ان کے کام کاج سے چھلکتا ہے وہ بھی دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے، میں جب گھر واپس آتا ہوں تو جتنے تپاک سے بیٹی کو آ کر ملتے ہوئے دیکھتا ہوں یا پھر جو خوشی بیٹی کے چہرے پر باپ کے لیے کام کر کے محسوس ہوتی نظر آتی ہے وہ بیٹوں کے چہروں پر اتنی شدت سے نظر نہیں آتی ، ایسا نہیں کے بیٹے باپ سے پیار نہیں کرتے مگر بیٹیوں کے دل شاید کچھ زیادہ ہی جڑے ہوئے ہوتے ہیں۔
بیٹیاں بہت جلد اپنے باپ پر ڈومینیٹ کر جاتی ہیں، اپنا حق بہت جلد تسلیم کروا لیتی ہیں اور بیٹوں سے ایک قدم آگے رہتی ہیں۔ سب کا تو مجھے نہیں پتا مگر میری بیٹی کو تو یہ خوب آتا ہے۔
کچھ عرصہ قبل جب میں سعودی عرب گیا اور وہاں میرا سٹے کچھ لمبا تھا تو ایک ماہ تک تو مریم نے برداشت کر لیا کیوں کہ وہ عادی ہو چکی تھی ایک ماہ تک انتظار کرنے کی کیوں کہ کام کے سلسلے میں اتنا وقت مجھے پہلے بھی باہر لگ جاتا تھا۔ مگر جب ایک ماہ سے زیادہ وقت گزرا تو اس نے مجھ سے فون پر بات کرنا چھوڑ دیا، کیوں کہ یہ اس کی برداشت کا آخری پڑاؤ تھا اور مجھے کہتی ہے کہ بات کرنی ہے تو گھر واپس آ کر کریں۔ اتنا ہی وقت اسماعیل کو بھی ہو چکا تھا مگر دونوں کی محبت کی شدت کا فرق بہت محسوس ہوا بیٹیاں ہوتی ہی ایسی ہیں۔ خیر بڑی مشکل سے اس کے لیے کچھ تحفے وغیرہ بھیجوائے اور اسے راضی کر کے پھر بات کرنا شروع کی۔
بہت سی ایسی چھوٹی چھوٹی باتیں ہوتیں ہیں جہاں آپ محسوس کر سکتے ہیں کہ بیٹیوں کے دل میں آپ کی جان بسی ہوتی ہے۔ مریم کو تو اکثر بخار بھی ہو جاتا تھا، کھانا بھی چھوڑ دیتی تھی، فطری تڑپ تو بیٹا اور بیٹی دونوں میں ہی ہوتی ہے مگر بیٹیوں کا لگاؤ بیٹوں کی نسبت کتنا زیادہ ہوتا ہے یہ ہمیشہ با آسانی دیکھا اور محسوس کیا جا سکتا ہے۔
حیرانی ہوتی ہے جب اتنے خوبصورت رشتوں کو ہم بدلے میں ناانصافی دیتے ہیں۔ یہ نا انصافی چاہے شادیوں کےمعاملے میں ہو، تعلیم کےمعاملے میں وراثت میں حصے کے معاملے میں ہو یا پھر لب و لہجے کے بارے میں ہو۔ یاپھر اس پھول کے بارے میں ہو جسے کھلنے سے پہلے مسل دیا جاتا ہے۔ یا پھر ان بھوکی نظروں کے بارے میں ہو جو عورت کو اپنی مستی کے سامان کے سوا کچھ نہیں سمجھتے۔
ہم عجیب ہیں، جو بیٹی باپ کے گھر کو جنت بنا کر رکھتی ہے، اسے جب پرائے گھر میں دبا دیا جاتا ہے تو پھر اس گھر کو کبھی بھی جنت نظیر نہیں بنایا جا سکتا ۔ پھولوں کی چاشنی پھولوں کی آبیاری کرنے سے ہوتی ہے جب کہ پھولوں کے لیے ہوا ، روشنی، پانی اور نرم مٹی فراہم نہ کی جائے تو پھول مرجھا جاتے ہیں اور سرسبز اور شاداب باغ بنجر بیابان کی عکاسی کرنے لگے ہیں۔
معاشرہ ہمیشہ عورت کے جسمانی خدوخال کی وجہ سے اسے کمزور یا کمتر سمجھتا ہے یا سمجھنے کی کوشش کرتا ہے۔ حالانکہ شعور اور آگہی کی بنیاد پر عورت کو کبھی ہرایا ہی نہیں جا سکتا ۔ ایک تربیت یافتہ عورت ہزار مردوں پر بھاری ہو سکتی ہے۔ بہت سی خواتین ہیں جنہوں نے اعلیٰ تعلیم حاصل کی یا اپنی پسند کی فیلڈ میں کوئی بھی مہارت حاصل کی تو ہم دیکھتے ہیں کہ وہ ہزاروں بچوں کو تیار کر رہی ہوتی ہے یا پھر ہزاروں مردوں کی رہنما ہوتی ہے اور اداروں کو آگے لے کر چلتی ہے۔
اگر کسی مرد کو تعلیم اور مہارت کے حصول سے دور رکھ کر جاہل ہی رہنے دیا جائے تو اس سے بھی وہی نتائج حاصل ہوں گے جو نتائج ہم عورت کو تعلیم اور مہارت کے حصول سے دور رکھ کر حاصل کرتے ہیں۔
ایک کوالیفائیڈ لیڈی ڈاکٹر ہزاروں جعلی ڈاکٹروں سے بہتر خدمات سرانجام دیتی ہے اور معاشرے اپنا مقام بھی ہزاروں جعلی ڈاکٹروں سے بہتر رکھتی ہے۔ تو جسے ہم مسئلہ بناتے ہیں یا سمجھتے ہیں وہ مرد اور عورت کا ہرگز نہیں ہے مسئلہ تو ہے ہی علم اور آگہی کا اور شعور کا جو جتنا چاہے حاصل کرلے۔ جیسے کہ اللہ تعالی کہتا ہے کہ اندھا اور آنکھ والا برابر ہیں ہو سکتے ، یقینا بالکل اسی طرح۔
کمزور اور لاچار انسان ہر میدان میں نشانہ بنتا ہے دہاتیوں کو شہریوں میں کوئی نہیں پوچھتا اور شہریوں کو بڑے شہروں میں کوئی نہیں پوچھتا مگر جو خود اعتمادی حاصل کر لے علم اور شعور حاصل کر لے اس کے لیے مشکلیں آسان سے آسان ہوتی چلی جاتی ہے۔ اور ایسے لوگوں کے لیے چاہے دنیا کا کوئی بھی حصہ ہو دروازے کھول دیئے جاتے ہیں۔ اور پھر بکرا ہو یا بکری وہ تو پیدا ہی اس لیے ہوتے ہیں کہ موقع پا کر حلال کر دیئے جائیں۔
یہ ضروری ہے کہ عورتوں کے پاؤں بھی ویسے ہی مضبوط کیے جائیں جیسے کہ ہم مردوں کے پاؤں مضبوط کرتے ہیں۔ یہ ضروری ہے کہ عورتوں کی بھی ویسے ہی حوصلہ افزائی کی جائے جیسے ہم مردوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ یہ ضروری ہے کہ تعلیم اور تربیت کے جو مواقع مرد کو ملتے ہیں وہی عورت کو بھی دیئے جائیں اور پیچھے اگر فرق کسی چیز کا رہ جائے تو وہ قابلیت، مہارت اور تعلیم کم سے کم یہ انسان کا بنیادی حق کے چاہے وہ مرد ہو یا عورت۔
آج بھی معاشرے میں عورت کو ذمہ داری اور مرد کو ایسٹ سمجھا جاتا ہے ۔ مگر بہت سی عورتوں نے مشکل حالات میں ثابت کیا ہے کہ وہ خاندان کا ایسٹ بن سکتی ہے۔ جب ہم شروع سے ہی عورت کو ذمہ داری سمجھ کر اسے تعلیم اورآگہی دیں گے تو آگے چل اس نے معاشرے کا ایسٹ کیسے بننا ہے یا پھر گھر کا ہی ایسٹ، ہم عورت کو ذمہ داری بنا کر چھوڑ دیتے ہیں اور پھر ظلم یہ کہ اکثر یہ ذمہ داری مشکل حالات میں عورت کے ہی سر ڈال دی جاتی ہے ۔ پہلے بھی ظلم اور اس کے بعد بھی ظلم اور اس کے بعد نشانہ بھی اسے بنایا جاتا ہے کہ اگر یہ عورت ٹھیک ہوتی تو بہت سے مسائل پیدا ہی نہ ہوتے ۔
اگر مرد کو سوچ ٹھیک ہو جائے تو عورت مسائل نہیں وسائل پیدا کر سکتی ہے جیسے کہ دنیا میں عورتیں ہر میدان میں اپنے آپ کو منوا رہی ہیں اور بہترین انٹلیکچول وسائل کا متبادل ہیں۔
معاشرے میں روایات کا جو تسلسل ہے وہ اکیلے مرد کا بنا یا ہوا نہیں ہے عورتیں بھی اس کی برابر حصے دار ہیں جس کے وجہ سے نہ مرد بدل سکتا ہے نہ عورت بدل سکتی ہے اور دونوں ہی معاشرے کی چکی میں پستے رہتے ہیں، ہمیں بہت سے ڈر ہیں کہ لوگ کیا کہیں گے۔ ہم بہت زیادہ ٹوٹ جانے کے بعد جب کوئی رستہ ہی باقی نہیں رہتا تب کہیں جا کر رواج کا سامنا کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور تب کچھ حاصل نہیں ہوتا اور مشکلیں اتنی بڑی ہو کر سامنے کھڑی ہو جاتی ہیں کے ان کا مقابلہ کرنا ناممکن ہوتا ہے۔
ہم صر ف ایک چیز کر سکتے ہیں، ماحول پیدا کریں، ماں کے لیے ماحول پیدا کریں، بیٹی کے لیے ماحول پیدا کریں، بہن کے لیے ماحول پیدا کریں بیوی کے لیے ماحول پیدا کریں اور خاندان کی عورتوں کے لیے ماحول پیدا کریں کہ تھوڑا ہو یا زیادہ جتنا ہو سکے علم حاصل کریں اور جتنا ہو سکے اپنے آپ کو مضبوط کرنے کی کوشش کریں۔ اور مردوں کو چاہیے کہ اپنی آخرت خراب نہ کریں اور نہ ہی اپنی دنیا خراب کریں جہاں جہاں جتنا جتنا عورت کا حق ہے اگر اس سے زیادہ نہیں ہو سکتا تو جتنا ہو سکتا ہے اتنا اسے حق ضرور دیں۔
آخرت میں جس طرح نماز کا، روزے کا، ایما ن کا اور باقی چیزوں کا حساب ہونا ہے بالکل اسی طرح عورتوں کے حقوق کے بارے میں بھی پوچھا جائیے گا۔ پھر بھی اگر کچھ نہیں دے سکتے تو کم سے کم اُسے وہ عزت تو دیں جس کی وہ حقدار ہے۔
اگر روش بدلی جائے تو یقیناَمعاشرے کی شکل وہ نہیں ہو گی جو ہم آج دیکھتے ہیں! اللہ سے ہدایت مانگیں کہ ہم ایک بہتر معاشرہ تشکیل دے سکیں جس میں ہمارے انفرادی سلوک کی وجہ سے عورت کو اپنے کمتر ہونے کا احساس نہ ہو !
دعا گو! میاں وقارالاسلام