گہرے سیاہی مائل نیلے آسمان پر ٹمٹماتے ستاروں کی جھرمٹ ماحول کو سحر انگیز بنا رہی تھی مگر میری زیست کے یہ انمول پل بارگاہ خداوندی میں بسر ہوتے تھے۔عثمان جانتے تھے کہ مری رقت انگیز گریہ و زاری کا منبع کیا ہے۔میں ایک عام سی عورت وہی روایتی خواب پلکوں کی باڑ پر سجانے والی۔اگرچہ عثمان کی چاہت میری زیست کے خلا کو پر کر گئ تھی۔مگر اولاد کی محرومی ہم میں کرلانے لگی تھی۔شادی کو دس سال کا طویل عرصہ گزرنے کے بعد بھی میری گود ہنوز خالی تھی۔اس تشنگی نے آ کاس بیل کی مانند مجھے اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔عثمان تفکر سے میرے اضطراب و اضمحلال کو دیکھتے۔عثمان کی بچوں سے الفت دیکھ کر یہ حسرت میرے دل میں اپنے پنجے گاڑ لیتی تھی۔یہ خواہش فطری تھی۔ایک عورت ماں بن کر ہی خود کو مکمل تصور کرتی ہے۔مامتا کے رنگ اس کے ادھورے پن کو، آزردگی کو زوال دے کر تکمیل دیتے ہیں۔جب یہ محرومی مایوسی میں ڈھلنے لگی تو ایک ننھی سی جان نے میرے اندر چٹکلی لی۔یہ ایسی نوید تھی کہ ہماری خوشیوں کا کوئی ٹھکا نہ نہ رہا۔میں رب کریمی کی اس عطا پر نہال تھی۔بے شک اس کا بندہ اس کے متعلق جیسا گمان کرتا ہے ویسا ہی پھل پاتا ہے۔مگر مجھے لگتا تھا مجھے میری استعداد سے بڑھ کر نوازا گیا ہے۔جب میں ہر جہت تاریکی میں کھو چکی تھی۔تب رحمت خداوندی نے میرے ناتواں وجود کو ایمان کی تقویت سے مالامال کر دیا تھا۔۔عثمان ان دنوں میرا اتنا خیال رکھنے لگے تھے کہ مجھے خود پرناز ہونے لگا۔لقمہ بنا بنا کر میرے منہ میں ڈالتے۔راتوں کو جاگتی میں تھی اور رتجگے ان کی آنکھ میں منتقل ہو جاتے۔اس سارے عرصے میں وہ میرے ہمنوا اور ہمراہی تھے۔پھر وہ ساعت بھی آگئی جب ہمارے آنگن میں ایک ننھی پری نے جنم لیا۔وہ ہوبہو عثمان کا پرتو تھی ۔گھنگھریالے بال اور سرمئی آنکھوں والی اس گڑیا نے ہمارے آشیانے کو اپنی خو سے مہکا دیا۔عثمان کتنی دیر اس ننھی جان کو کلیجے سے لگاے چومتے رہے۔اس کا لمس ہمارے لیے حیات کا کل تھا۔عثمان کی آنکھیں نم تھیں۔۔ہماری زیست کا مرکز ومحور وہی تھی۔عثمان نے اس پری کا نام آرزو رکھا۔وہ ہماری تشنہ آرزو کی تکمیل ہی تو تھی۔اگر چہ بھانت بھانت کے لوگوں نے خوب باتیں بنایں کہ اتنے سالوں بعد ہوی بھی تو بیٹی۔مگر ہم ایسی باتوں کو خاطر میں نہ لاتے تھے۔بیٹا اور بیٹی کی تفریق ہمارے دلوں میں آرزو کی محبت میں دراڑ نہ ڈال سکتی تھی۔میری مامتا کا منبع مجھے مکمل عورت بنانے والی آرزو تھی۔جب آرزو نے پاؤں پاؤں چلنا شروع کیا تو ہمارے دل اس کے ہر اٹھتے قدم کے ساتھ دھڑکنے لگے۔آرزو کے لب سے ادا ہونے والا وہ پہلا لفظ ماں تھا جو میری زیست کا کل تھا۔جس دن آرزو کے سکول کا پہلا دن تھا عثمان آرزو کے رونے پر نم دیدہ ہو گئے تھے۔وہ آرزو کی آنکھ میں کرب نہ دیکھ سکتے تھے اس لیے خود بھی اسے روتا دیکھ کر رو دیئے تھے۔
یہ عثمان کی ہماری گڑیا سے محبت کی انتہا تھی۔جوں جوں آرزو شعور کی منزلیں طے کرتی گئی اس کی دوستی عثمان سے زیادہ ہوتی گئی وہ بابا ہی نہ تھے غمگسار دوست اور رہنما بھی تھے۔جیسے ہی عثمان آفس سے تھکے ماندہ گھر آتے آرزو لپک کر اپنے بابا کو پانی کا گلاس پیش کرتی۔ادھر وہ غسل خانے سے تازہ دم ہو کر نکلتے فورا گرم بھاپ اڑاتا چائے کا کپ لئے دن بھر کی روداد سننے اور سنانے کی منتظر ملتی۔
میں قدرے فاصلے سے بیٹھی باپ بیٹی کی اس گونا گوں محبت کو مسکراتی نگاہوں سے دل میں جذب کر لیتی۔عثمان کے لیے نت نئی ڈشز بناتے آرزو نے کبھی تھکان محسوس نہ کی تھی۔عثمان اس کے کھانے کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملانے لگتے۔اگرچہ بسا اوقات وہ لذت کے اعلی معیار چھوتی بھی نہ ہو۔بقول ان کے میری بیٹی کے ہاتھوں سے گندھی چاہت اس کھانے کا کمال ہے۔
ہم آرزو کو ڈاکٹر بنانے کے متمنی تھے مگر جب آرزو کو شاہکار تخلیق کرتے دیکھا تو ہم نے اپنا ارادہ ترک کر دیا۔آرزو کو رنگوں سے کھیلنا پسند تھا اس کی ہر تخلیق میں زندگی کے گہرے رنگ چھلکتے تھے۔اس کا ہر سٹروک بھرپور زندگی کا عکاس تھا۔
وقت کا پنچھی پر لگا کر اڑتا رہا اور آرزو کی شادی کا غلغلہ اٹھ کھڑا ہوا۔ہم دل کی اداسی کو چھپاے کسی اچھے بر کی تلاش میں تھے جہاں ہماری بیٹی کے قدردان ہوں۔پھر ذوہیب کا رشتہ ہمیں ہر لحاظ سے موزوں لگا سسرال والوں نے بھی گویا ہتھیلی پر سرسوں جمالی ہو۔اصرار بڑھتا گیا اور یوں ہمیں ہاں کرتے ہی بنی۔شادی کی تیاریاں عروج پر تھیں۔ہم خوش تھے کہ ذوہیب جیسا پڑھا لکھا باشعور انسان ہماری بیٹی کا نصیب بننے والا تھا۔آرزو ان دنوں بہت اداس سی رہنے لگی تھی۔پھر آرزو کی شادی کا جوڑا آگیا۔اسے دیکھ کر میری آنکھیں اشکبار تھیں۔دل ہی دل میں اپنی بیٹی کی دائمی خوشیوں کےلیے دعا گو تھی۔ذوہیب کی والدہ نے تقاضا کیا کہ ذوہیب کو رقم مہیا کر دی جاے تاکہ وہ من پسند شاپنگ کرلے۔شادی کی تقریب سعید کے لیے جو لباس زیب تن کرے اس کی اپنی چاہت کا ہو۔اگرچہ لڑکی والے ہوکر بھی ہم نے ایسی کوئی خواہش ظاہر نہ کی تھی۔ایک دن ذوہیب کا فون آیا کہ وہ آج زیورات لینے جائے گا اور آرزو بھی ساتھ چلے ۔ہمیں کوی اعتراض نہ تھا ۔یہ جان کر تسلی ہوی کہ آرزو کی پسند نا پسند کی اس کے نزدیک بہت اہمیت ہے۔آرزو شام کو ذوہیب کے ساتھ روانہ ہو گئی۔واپسی پر وہ بہت شرمائی سی لگی۔اتنے عرصے میں پہلی مرتبہ میں نے اس کے چہرے پر محبت کے الوہی رنگوں کی دھنک رنگ اترتے دیکھی۔میں نے دل میں اس کی بلائیں اتاریں اور سجدہ شکر ادا کیا۔اب بات بے بات اس کے لب مسکرانے لگے تھے۔پھر وہ دن بھی آن پہنچا جب آرزو ہماری دعاوں کے حصارمیں ہمارے آنگن کو سونا کر کے نئے گلشن کو اپنی خو اور محبت سے مہکانے پیا گھر سدھار گئی۔
ہمیں یوں لگتا گویا ہماری متاع عزیز کہیں کھو گئی ہو۔سارا گھر بھائیں بھائیں کرنے لگا۔عثمان گھنٹوں آرزو کے کمرے میں بیٹھے اس کے تخیل سے باتیں کرتے رہتے تھے۔جب عثمان کمرے سے آجاتے تو میں کمرے کی جھاڑ پونچھ کے بہانے اس کے کمرے کی ہر شے میں اس کا لمس تلاشتی رہتی تھی۔لگتا تھا ابھی ہنستی ہوئ مجھے کندھوں سے تھام کر بولے گی امی کیوں اداس ہیں۔؟
ساری اداسی یکلخت کافور ہوجاے گی اور خوشی دل میں پنپنے لگے گی۔
ہم خوش تھے کہ وہ اپنے گھر بار کی ہو گئی ہے۔مگر اتنے عرصہ وہ ہم سے ملنے نہ آئی۔جب بھی ملنے کے لیے ہم نے اصرار کیا ۔تو آرزو نے کوئی بہانہ کر کے ٹال مٹول سے کام لیا۔عثمان ہنستے تھے کہ ان کی بیٹی کا خوب دل لگ گیا ہے نئے گھر میں اور بہت خوش باش ہے تبھی ملنے نہیں آتی۔پھر کچھ عرصہ بعد آرزو ہم سے ملنے آی۔ہماری خوشی دیدنی تھی۔میں سرشار سی آرزو کے من پسند کھانے بنانے لگی۔اس کے آجانے سے چہار سو کہکشاں سی بکھر گئی ہو۔ہر شے مسکرا رہی تھی مگر آرزو کی ملکوتی مسکراہٹ معدوم تھی۔ہم اسے اپنا وہم گردان کر اس کی آؤ بھگت میں لگے رہے۔وہ ننھی کونپل سے بنا تناور درخت ہمارے گلشن کا تھا کیونکر ممکن تھا ہم اس کی مہک اور اس کے موسم شناس نہ ہوتے؟ یہاں خزاں اور بہار کی پہچان لفظوں کی متقاضی نہ تھی۔آرزو نے جھجھکتے ہوے قدرے توقف سے بتایا کہ ذوہیب کو کاروبار میں وسعت کے لیے مالی معاونت درکار ہے اگر ہم اس کی رہنمای کر دیں۔
ارے پگلی اتنی سی بات میں آج ہی اس کے اکاونٹ میں ایک بڑی اماونٹ ٹرانسفر کروا دیتا ہوں۔یوں بھئی میرا سب کچھ تمہارا ہی تو ہے۔
مجھ سے پہلے عثمان بول پڑے اور آرزو کے کھوے ہوے رنگ واپس لوٹ آے تھے۔پل بھر میں وہ پہلے والی کھلکھلاتی آرزو بن گئی تھی۔ضد کر کے ہمارے لیے چاے بنا کر لای میری گود میں سر رکھے نجانے کونسی تھکان اتارتی رہی اور میں نہال ہوتی رہی۔جب وہ اپنے گھر طمانیت بھرا چہرہ لیے لوٹی تو ہم نے بھی اطمینان محسوس کیا۔ مگر یہ طمانیت وقتی ثابت ہوی۔کچھ عرصہ بعد آرزو پھر ملنے آئی ۔اس کے لب مقفل تھے مگر آنکھوں سے تفکر ہویدا تھا۔بہت اصرار پر اس نے جھکی نظروں سے اعتراف کیا کہ ذوہیب نے گاڑی کا تقاضا کیا ہے۔
لحظہ بھر کے لیے میری اور عثمان کی نگاہیں آپس میں ٹکرائیں ۔عثمان کے چہرے پر واضح تذبذب تھا۔میرے دل کو گہرے رنج نے دبوچ لیا تھا۔مگر عثمان نے آرزو کی خاطر حامی بھر لی۔جتنا وقت آرزو رہی فضا بے حد بوجھل رہی۔ہر بار آرزو کو کسی نئے تقاضے کے ساتھ بھیج دینا اس کے سسرال والوں کی اخلاقی گراوٹ کی انتہا تھی۔ایک بھاری سل تھی جو ہمارے سینوں پہ آ دھری تھی۔پھر تو جیسے فرمائشوں کا ایک نہ ختم ہونے والا طویل سلسلہ چل نکلا ہو۔آرزو کے گلابی عارض جو میٹھی مسکان لیے رہتے اب زرد اداسی کی لپیٹ میں تھے۔اس کا ہر شکوہ لبوں کی اوٹ میں مقفل رہتا تھا۔وہ رواجوں کے الاو میں سلگ رہی تھی۔ہم نے دو ٹوک بات کرنے کی ٹھان لی اور بنا اطلاع کے اس کے گھر چلے گئے۔آرزو فرش پہ بیٹھی کانچ کے ٹکڑے چننے میں محو تھی۔پاس کھڑی ساس سخت آواز میں اسے سخت سست سنا رہی تھی۔ہم پر نگاہ پڑی تو چپ سادھ لی۔آرزو نے زخم خوردہ نگاہوں سے ہمیں دیکھا اس کی نگاہوں کے نم گوشے ہم سے پوشیدہ نہ رہ سکے۔ساس اس نئی افتاد پر بوکھلائ سی تھی۔ذوہیب کو بلا کر عثمان نے اس سے استفسار کی اور باز پرس پر وہ سر جھکاے سنتا رہا۔بہ ظاہر وہ بے حد نادم نظر آ رہا تھا۔ہم جانتے تھے کہ ہم نے جس نہج پر اپنی بیٹی کی تربیت کی ہے وہ اخیر تک مفاہمت کی راہ اپنائے حالات کے دھارے اپنے حق میں ہموار کر کے دم لے گی۔صبر اور اطاعت شعاری جیسے اعلی وصف اس کی شخصیت کا خاصہ تھے۔تبھی ساس کے ناروا سلوک کے باوجود کبھی حرف شکایت لبوں تک نہ لائی تھی۔مگر بطور والدین یہ ہماری ذمہ داری تھی کہ اسے تنہا نہ چھو ڑیں۔اس لیے ذوہیب کو سامنے بیٹھا کر اسے اس کی غلطیوں کی بابت ادراک دلانا لازم تھا۔وہ خاموشی سے ساری باتیں سنتا رہر اگرچہ فاصلے پر بیٹھی ذوہیب کی والدہ کڑے تیور لیے ہمیں خشمگیں نگاہوں سے دیکھ رہی تھیں۔ہمارا یوں سرزنش کرنا ان کو ایک آنکھ نہ بھایا تھا۔۔ہمیں تسلی دی اب کوی شکایت نہ ہو گی۔ہم اس کے وعدے پر گھر واپس لوٹ آے۔کا فی دنوں تک جامد سکوت طاری رہا۔
وہ ایک پر آشوب مضطرب سی رات تھی۔بار بار گرجنے والے بادل اور چمکتی ہوی بجلی دل پر ہیبت طاری کر رہی تھی۔جب ہمیں جاں گسل اطلاع ملی اور ہم بھاگے بھاگے اسپتال پہنچے۔اک موہوم سی امید تھی کہ شاید قسمت یاوری کر جاے۔اور اطلاع غلط ہو۔مگر وہ جھلسا ہوا پھول کسی اور گلشن کا نہ تھا۔ہمارے آنگن کا تھا۔آرزو بری طرح جل چکی تھی میری مامتا پر یہ کاری ضرب تھی۔میں اپنے جگر کے ٹکڑے کو یوں اذیت سے دوچار دیکھ کر بلک بلک کر رو دی۔اس کے گھنگھریالے بال بھی جل چکے تھے۔آرزو کی آنکھوں میں امڈتی شناسائ کے بعد آنسووں کی جھڑی میں تمام عکس دھندلا گئے تھے۔عثمان کا کلیجہ پھٹا جا رہا تھا۔پھر ڈاکٹرز کی سر توڑ کوشش بھی اسے بچا نہ سکی۔وہ آگ جو کچن میں گیس کھلی رہ جانے سے لگی جس کی لپٹوں میں ہماری بیٹی جلی نجانے کیوں اس کی رسای نہ ذوہیب تک پہنچ سکی نہ اس کی والدہ تک۔
نجانے کتنے بین میری روح کے اندر چیخ رہے تھے اور خاموش آنسو آنکھ میں لرزاں تھے۔دل کی مانند آنکھ لہو رنگ تھی۔فضا سوگواریت لیے ہمیں تہی داماں کر گئی تھی۔
عثمان تدفین کی تیاریاں کر رہے تھے اور میں سوچ رہی تھی کہ آج پھر آرزو وداع ہو گی
https://www.facebook.com/groups/1690875667845800/permalink/1747217282211638/