اس نے بے بسی سے چھت کو دیکھا اور پھر کمرے میں نظر ڈالی کمرہ دنیا کی ہر طرح کے عیش و آرام کی چیزوں سے بھرا ہوا تھا تھ۔ لیکن اس کے باوجود وہ کمرے میں اکیلا تھا، اور پلنگ پر اکیلا لیٹا کروٹیں بدل تھا ۔ اسے اس کمرے میں قید ہوے کتنے دن ہو گئے اب تو اسے یہ بھی یاد نہیں تھا۔بس اتنا یاد تھا کہ اچانک اس کی طبیعت خراب ہوئی تھی تو بہو اور بیٹے نے اسے ہسپتال میں ایڈمٹ کردیا تھا۔وہ آٹھ دس دن ہسپتال میں رہا، لیکن جب بہو بیٹے کو لگا کے ہسپتال میں کوئی افاقہ نہیں ہو رہا ہے اور ہسپتال کا بل بڑھتا ہی جا رہا ہے تو وہ اسے گھر واپس لے آئے اور تب سے وہ گھر میں ہی اکیلا تھا ۔
پہلے پہلے اسے دیکھنے آنے والوں کی بھیڑ لگی رہی لیکن بعد میں وہ بھی آنا بند ہوگئے۔ اب تو یہ حالت ہو گئی تھی کہ آٹھ دن ہو گئے تھے تھے بیٹے اور بہو نے بھی اس کے کمرے میں قدم نہیں رکھا تھا ۔ دونوں نے بچوں کو بھی منع کر دیا تھا یہ کہہ کر کہ دادا کو ایک موضی بیماری ہو گئی ہے اگر تم ان کے پاس گئے تو تمہیں بھی وہ بیماری لگ جائے گی ۔ اس وجہ سے نے بھی کمرپوتے پوتی نے بھی کمرے میں آنا چھوڑ دیا تھا تھا۔صرف ایک نوکر تھا ۔ جو اس کی دیکھ بھال کرتا تھا ۔
کمرے کی صاف صفائی ،اس کے کپڑے بدلنا اور وقت پر کھانا ،اور دوائیاں دینا ۔
اگر وہ نہ ہوتا تو وہ اکیلا کمرے میں تنہائی کے خوف سے ہی مر جاتا۔
نوکر کمرے میں آیا تو وہ کچھ اداس اداس تھا ۔
’’کیا بات ہے رامو۔ کچھ اداس دکھائی دے رہے ہو ؟ ‘‘اس نے پوچھا ۔
اس کی بات سنتے ہی وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا ۔
’’ گاوں سے ماںکا فون آیا تھا ، ماں کی طبیعت بہت خراب ہے۔ اس نے مجھے بلایا ہے ۔میں اس کی خدمت کرنے کے لئے گاؤں جانا چاہتا ہوں ہوں۔ مانا ۔ آپ مجھے اس کی اجازت نہیں دیں گے اور کہیں گے کہ اگر میں گاوں چلا گیا تو مجھے کام پر سے نکال دیں گے۔ آپ کی دیکھ بھال کرنے والا اور کوئی نہیں ہیں ۔ لیکن میں مجبور ہوں مجھےاس بات کی کوئی پروا نہیں ہے کہ کام رہے یا چھوٹ جائے ۔ میں اپنی ماں کی خدمت کرنا چاہتا ہوں ۔ ‘‘
نوکر کی بات سن کر وہ کچھ سوچ میں ڈوب گیا اوراس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ اس کی آنکھوں میں آنسو دیکھ کر نوکر نے پوچھا ۔
’’ کیا بات ہے سیٹھ جی آپ رو کیوں رہے ہیں ۔ ؟ ‘‘
’’ میری آنکھوں میں آنسو اس لیے آ گیے ہیں کہ میں سوچ رہا ہوں میرے پاس دنیا کی ہر چیز ہر عیش و آ شائش کا سامان ہے پھرئبھی میں کتنا غریب ہوں۔ اور تمھاری ماں کے پاس ایسا کچھ بھی نہیں ہو گا پھر بھی وہ کتنی امیر ہے اس کے پاس تھنارے جیسا بیٹا ہے جو میرے پاس نہیں ہے ۔ ‘‘
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...