دیش کےاکثریت سیاستدان آمریتوں کے دوران ہی سامنے آئے انکی سیاست کا آغاز فوجی جنتا کے زیر سایہ ہی ہوا مگر اس کا جواز بھی موجود ہے جب ملک میں حکومت ہی آمرانہ ہو تو آپ کو سیاست انہی کے زیر سایہ کرنی پڑتی ہے مگر بعد میں کئ سیاستدانوں نے اپنے عمل سے اس بات کاکفارا ادا کیا
بھٹوصاحب سے نوازشریف تک سب نےآمر کےزیرسایہ سیاست شروع کی مگربعد میں اپنے عمل مزاحمت کی بدولت جمہوریت پسندوں کے راہنما ٹھہرے بھٹوصاحب کی اگر مجھےقتل کیاگیا اور نوازشریف بی-بی کا میثاق جمہوریت اپنی غلطیوں کااعتراف ہی ہے یہی جمہوری سوچ ہے کاش باقی سیاستدان بھی یہی کریں
عام خیال کیا جاتاہے کہ عمران خان کی سیاست فوجی اثر سے دور رہی جبکہ حقیقت تس کے کافی برعکس ہے خان صاحب کی سیاست کاآغاز 1993میں بطور نگران سفیربرائے سیاحت کےطور پرہوا معین قریشی کی وزارت عظمی کادور تھا یاد رھے معین قریشی جنرل وحیدکاکڑ غلام اسحاق کا انتخاب تھے
معین قریشی کی کابینہ میں نوازمخالف لوگوں کوشامل کیاگیا کابینہ میں آصف زرداری بھی وزیر تھے خان صاحب انکےشانہ بشانہ اجلاس میں شامل ہوتےتھے معین قریشی کو ڈمی وزیراعظم کہا جاتاتھا سب اختیار غلام اسحاق جنرل کاکڑکےپاس تھے سوایک ڈمی وزیراعظم کےزریعےانکی سیاست شروع ہوئی
1994میں جماعت اسلامی اوردیگر مذھبی جماعتوں کے ناراض راہنماؤں کو حمیدگل نے پاسبان کے نام سے ایک تنظیم میں اکٹھاکیا خان صاحب اس تنظیم میں شامل ہوئے اور عوامی سیاست شروع کی اس تنظیم میں ملک کے مشہور لوگوں کو شامل کرنے کی کوشش کی گئ جیسےحکیم سعید ایدھی صاحب جیسےلوگ
7دسمبر1994کو ایدھی صاحب ملک سےباھرچلےگئے جہاں انہوں نےبیان دیا کچھ لوگ انکو بی-بی حکومت کےخلاف استعمال کرناچاھتےہیں اورانکو قتل کرکےکراچی میں فسادبرپاکرنا چاھتےہیں ان کےبقول انہوں نےدوسوصفحات پر مشتمل ایک ڈائری لکھ رکھی ہے جوقتل کی صورت میں قاتلوں کی نشاندہی کرےگی
ایدھی صاحب 9جنوری1995کو وطن واپس آئے بعدازاں انکشاف کیا حمیدگل عمران خان نے بی-بی حکومت کو گرانےکیلئے انکی مدد مانگی انکارکی صورت میں اغواءاور قتل کی دھمکیاں دی گئیں اسی وجہ سے ملک چھوڑناپڑا جنرل سیکرٹری تحریک انصاف عارف علوی نےاس بات کی تردیدکی تھی
1996میں تحریک انصاف کی بنیادرکھی گئ 1997کےالیکشن میں تحریک انصاف نے 132حلقوں سےالیکشن لڑا الیکشن میں شکست کےبعد طاھرالقادری سےملکر اپوزیشن اتحادبنایا کارگل واقعہ کےبعد بھارتی اخبارات میں شائع پاک آرمی مخالف اشتہارات لہرا کرفوج کومارشل لاکی دعوت دیتےتھے
30اپریل2002کو پرویزمشرف نے اپنےانتخاب کیلئے ریفرنڈم کااعلان کیا طاھر القادری عمران خان نےمشرف کی بھرپورمہم چلائی پاکستانی عوام کو مشرف کو ووٹ دینے کاکہا پی-پی ن لیگ نے ان ریفرنڈم یے بائیکاٹ کااعلان کیا مشرف کی جیت کی خوشی میں دونوں احباب نے مشرکہ جلسےسےخطاب بھی کیا
مشرف صاحب نے 10اکتوبر2002کو الیکشن کروانے کااعلان کیا خان صاحب نےبھرپورمہم چلائے مگران پریہ عیاں ہوچکاتھا کہ مقتدرحلقے ق لیگ کےساتھ ہیں اسی لئے انہوں نے درمیان میں مہم چھوڑدی مگراسکے باوجود میانوالی سےجیت گئے مشرف کےبقول یہ بھی انکی مہربانی تھی ورنہ وہ ہارچکےتھے
2011میں خان صاحب کاعروج شروع ہوا اسی دوران مقتدرحلقےنے پھرسے پرانےمہروں کوآزمایا لندن سےقادری صاحب آئے ان کااستقبال بھی عالیشان تھا انہوں نے ریاست بچانےکانعرہ لگایا خان صاحب نےکرپشن ختم کرنےکا سیاسی جماعتیں انکامقصدجان گئیں اورمعاہدے پرٹرخایاگیا یہ 2012کی ہی بات ہے
عمران چان کے مقرب خاص ہارون الرشید بارہا یہ بات لکھ چکے ہیں 2013الیکشن میں جنرل کیانی شحاع پاشانے خان صاحب کی بھرپورمددکی پاشا صاحب کوتحریک انصاف جدید کابانی بھی کہاجاتاہے یادرھے لمبرون سے خان صاحب کے تعلقات کازریعہ جنرل درانی تھے جو پاسبان کےفکری قائدتھے
خان صاحب کی سیاست بھی دیگر سیاست دانوں کی طرح فوجی سہاروں سےشروع ہوئی مگر فرق یہ ہے دیگر سیاست دان عمر کےساتھ ساتھ سیکھتے رھے اور جمہوریت کی طرف بڑھے خان صاحب کی عمر گزر چکی ہے ہم ان کاموزانہ شاید چودھری شجاعت سے بھی نہ کرسکیں اور یہی تاریخ کا المیہ ہوگا