برٹرینڈرسل کی داستان
برٹرینڈرسل کا پورانام برٹرینڈ آرتھر ولیمز رسل تھا۔برٹرینڈ رسل انسانی تاریخ کا ایک عظیم انسان،محقق،مورخ ،ماہر طبعیات،ماہر ریاضیات،فلسفی ،مفکر،دانشور اور افسانہ نگار تھا ۔رسل 18 مئی 1876کو برطانیہ کے علاقے ویلز میں پیدا ہوئے ۔رسل کے والد سر جان رسل برطانیہ کے وزیر اعظم رہے۔ان کا تعلق طبقہ اشرافیہ اور کٹر مذہبی گھرانے سے تھا ۔لیکن رسل مرتے دم تک غیر مذہبی اور ملحد رہے ۔برسل نے فلسفے،سائنس ،تاریخ ،مذہب ،خدا ،سیاست ،معاشرت ،جنگ ،امن،سیکس ،قانون،انسانی ہمدردی پر علمی اور تحقیقی حوالے سے سینکڑوں کتابیں لکھی ۔ویت نام جنگ کی وجہ سے ہمیشہ امریکہ کے مخالف رہے ۔رسل انسانیت کے ساتھ دوستی کی پاداش میں بہت عرصے تک پابند سلاسل بھی رہے ۔رسل کو 1950 میں ادب کے نوبل ایوارڈ سے بھی نوازا گیا ۔رسل مغرب کے وہ پہلے انسان دوست دانشور تھے جنہوں نے سائنسی ،غیر مذہبی طریقہ کار سے مغرب میں انسانیت دوستی کا پرچار کیا ۔وہ تمام دنیا میں ایک محبوب دانشور کے طور پر جانے جاتے تھے ۔بطور ایک سائنسدان انہوں نے ایٹمی سائنسدانوں کو انسانیت کا دشمن اور قاتل قرار دیا ۔وہ کہا کرتے تھے کہ دنیا اگر تباہ ہوئی تو اس تباہی کے زمہ دار ایٹمی سائنسدان ہوں گے ۔ رسل 2 فروری 1970 کو جہان فانی سے کوچ کر گئے ۔برٹرینڈ رسل کی کتاب فلسفہ مغرب کی تاریخ کو بیسویں صدی کی عظیم ترین کتابوں میں شمار کیا جاتا ہے۔یہ فلسفے کی وہ واحد کتاب ہے جس میں مغربی خیالات کے ساتھ ساتھ فلسفے کے بنیادی مسائل کی بھی سائنسی انداز میں وضاحت کی گئی ہے ۔رسل کی اس کتاب کے بارے میں دنیا کے عظیم ترین فلسفیوں کا کہنا ہے کہ تاریخ دانوں نے تاریخ پر بڑی بڑی عظیم کتابیں تحریر کی ،لیکن تاریخ انسانیت میں ایک بھی تاریخ دان فلاسفر نہ تھا ۔فلاسفر اور دانشور رسل نے جیسے فلسفہ مغرب کی تاریخ تحریر کی ،ایسی تحریر کبھی نہ لکھی گئی اور نہ ہی رہتی دنیا تک لکھی جاسکے گی ۔مجھے بزات خود فلسفے سے کوئی زیادہ محبت اور عشق نہیں ہے ۔میں ہمیشہ فلاسفی کو فولوسفی کہتا ہے ۔لیکن رسل کی کتاب ہسٹری آف ویسٹرن فلاسفی یعنی فسفہ مغرب کی تاریخ ایک کتاب نہیں بلکہ آرٹ کا نمونہ ہے ۔اور آرٹ ہمیشہ تخلیقی صلاحیتوں سے ہی جنم لیتا ہے ۔یہ کتاب خوبصورت جمالیاتی حسن کا مجموعہ ہے ۔تاریخ کی اس کتاب کی نظم و ترتیب میں جو جمالیاتی حسن شناسی ہے اس کی کوئی مثال نہیں ۔کاش پاکستان اور بھارت کی تاریخ بھی رسل جیسا کوئی دانشور لکھتا ،اگر ایسا ہوجاتا تو کبھی بھی پاکستان اور بھارت کے درمیان دشمنی اور نفرت کا عنصر نہ ہوتا ۔بدقسمتی یہ رہی کہ ہندوستان کی تاریخ ہمیشہ تاریخ دانوں نے لکھی ،ان میں سے کوئی بھی تاریخ دان فلاسفر یا دانشور نہ تھا ۔یہ صرف تاریخ دان تھے ۔تاریخ دان کی بدقسمتی یہ ہوتی ہے کہ وہ صرف تاریخ دان ہوتا ہے ۔تاریخ دان کبھی بھی معاشرے میں دوڑتے پھرتے نظریات اور خیالات کو سمجھ نہیں سکتا ۔وہ صرف تاریخ لکھنا جانتا ہے ۔معاشرے کی بصیرت ،شعور اور نظریاتی کیفیات سے ناواقف ہوتا ہے ۔مغرب اس حوالے سے خوش نصیب ہے کہ اسے انقلابی اور غیر مذہبی رسل جیسا عظیم انسان دستیاب ہوا ۔رسل نے ہمیشہ تاریخ اور فلسفے کا خوبصورت اور انسان دوست بیانیہ تحریر کیا ،اس لئے ان کی تحریروں کی وجہ سے مغرب میں انسان دوستی کارویہ نشوونما پایا ۔مغربی فلسفے کی ترقی میں برٹرینڈ رسل نے عظیم کردار ادا کیا ۔برٹرینڈ رسل کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ صرف ایک دانشور انسان تھا ،نہ وہ ولی تھا ،نہ وہ یسوع مسیح تھا اور نہ ہی بدھا ۔رسل نے ہمیشہ منفرد،باغیانہ ،انقلابی اور الٹی بات کی ۔جب اس نے کہا وہ عیسائی نہیں ہے تو اس کی وضاحت فلسفیانہ انداز میں کی کہ وہ کیوں عیسائی نہیں ہے ؟جب اس نے کہا کہ وہ ملحد ہے تو اس کی وضاحت فلسفیانہ انداز میں کی کہ وہ ملحد کیوں ہے؟ دنیا کے تمام باعلم انسانوں نے اس کی وضاحت کو تسلیم کیا ،شدید تنقید بھی کی ،لیکن کسی نے رسل کے ساتھ دشمنی نہیں کی ۔رسل کہتا ہے اچھی اور بہترین زندگی وہ ہے جس میں محبت ہے ،انسان دوستی ہے ،تعاون اور برداشت ہے ،اچھی زندگی وہ ہے جس میں رقص ہے ،جمالیاتی زوق و شوق ہے ۔ وہ کہتا ہے بہترین زندگی وہ ہے جس میں انسانیت ہے ۔وہ کہتا ہے کمال ہے وہ زندگی جس میں علم ہے ،فکر ہے ،دانش اور بصیرت اور شعور ہے ۔وہ کہتا ہے اس دنیا کی انسانیت کا سب سے بڑا مسئلہ ہی یہی ہے کہ بے وقوفوں اور جاہلوں کو اپنی جہالت پر یقین اور ایمان ہے ۔جبکہ دنیا کے تمام انسان شکوک و شبہات سے لبریز ہیں ،اس لئے انسانیت کے درمیان ہم آہنگی اور باہمی تعاون کا فقدان ہے ۔وہ کہتا ہے کہ جب انسان پیدا ہوتا ہے تو وہ کچھ نہیں جانتا ،لیکن وہ پیدائش کے وقت اسٹوپڈ یا بے وقف نہیں ہوتا ۔یہ معاشرہ اسے بے وقوف بنادیتا ہے ۔رسل کے نزدیک تعاون ہی وہ عمل ہے جو اس دنیا کی انسانیت کو زیادہ سے زیادہ عرصہ زندہ رکھ سکتا ہے۔رسل کی خاص بات یہ ہے کہ وہ خاموشی سے دنیا میں رہا ،اپنا کام کرتا رہا ،اپنی دانش اور بصیرت کو عام کرتا گیا ،وہ خاموشی سے لکھتا چلا گیا اور پھر خاموشی سے دنیا سے چلا گیا ۔یہی کسی بھی دانشور کی سب سے بڑی خصوصیت ہوتی ہے کہ وہ خاموشی سے آتا ہے ،اپنا کام ایمانداری سے کرتا ہے اور پھر سکون سے دنیا سے چلا جاتا ہے ۔رسل اس حوالے سے خود یہ کہتا ہے کہ خوش باش زندگی کے لئے ضروری ہے کہ انسان خاموش رہے ،اس کے چاروں اطراف خاموشی ،سکون اور رقص کا سماں ہو ۔یہی حقیقی انجوائے منٹ ہے ۔رسل کا کہنا ہے کہ خوف ہی دنیا کی تمام توہمات کا اہم زریعہ ہے ۔جو انسان خوف پر قابو پالیتا ہے ۔وہی کامیاب اور حقیقی انسان ہے ۔جس نے خوف پر قابو پالیا پھر اسی لمحے اس کی دنیا میں بصیرت اور شعور کی دنیا کا آغاز ہوجاتا ہے ۔وہ جو خوف زدہ ہیں ،وہ انسان نہیں ،زندہ لاشیں ہیں ۔اورانہی لاشوں کی وجہ سے دنیا میں ابتری اور مسائل ہیں ۔اس کا کہنا تھا کہ انسان کی مصیبت اور مسائل کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ انسان اپنے عقائد کے ساتھ زندہ رہنے کی کوشش کرتا ہے ۔اس کا کہنا تھا کہ وہ اپنے عقائد کےلئے نہیں مرے گا ۔اور نہ ہی عقائد کا بوجھ ساتھ لئے زندہ رہنے کی کو شش کرے گا ۔اس کے نزدیک یہی انسانیت میں گڑبڑ کی سب سے بڑی وجہ ہے ۔اس کا کہنا تھا کہ سارا مسئلہ ہی یہی ہے کہ احمق اور بے وقوف اپنی انتہا پسندی اور شدت پسندی پر مکمل طور پر یقین رکھتے ہیں ۔اور شعور والے شکوک و شبہات کی دنیا میں اٹکے ہوئے ہیں ۔شکوک و شبہات والے سیدھی بات کرنے سے کتراتے ہیں ۔جس دن شعور اور بصیرت کی دنیا سے منافقت ختم ہو گئی دنیا میں عدم برداشت ختم ہو جائے گی اور تعاون و ہم آہنگی کا دور شروع ہو جائے گا ۔ رسل کے نزدیک زندگی کے وہ اوقات جس میں انسان رقص کرتا ہے ،خوشی مناتا ہے ،زندگی کو بھرپور طریقے سے انجوائے کرتا ہے ،وہ وقت ہی بہترین وقت ہوتا ہے ۔وہی زندگی اور وہی حقیقت ہے ۔رسل کے نزدیک خوشی کا راز ہی یہی ہے کہ دنیا کی ہولناکیوں اور خطرات کے حقائق کا سامنا کیا جائے ،۔رسل کے نزدیک عظیم ترین اور بہترین امید ہی تب جنم لیتی ہے جب مسائل درپیش ہوتے ہیں ۔انسان کے مسائل کے بارے میں رسل کہتا ہے کہ زندگی کو مقابلہ بازی بنا دیا گیا ہے ،یہاں اس دنیا میں چاروں اطراف انسان ایک دوسرے کے مدمقابل ہیں ۔تمام نظریات و خیالات ایک دوسرے کے مدمقابل ہیں ۔مقابلہ بازی کی وجہ سے صرف دو ہی کام ہوتے ہیں یا انسان مجرم بن جاتا ہے یا وہ جرم کرتا ہے ۔اس دنیا میں دو ہی کام ہورہے ہیں یا انسان جرم کررہا ہے یا وہ مجرم بن رہا ہے ۔اس کے علاوہ دنیا میں کچھ نہیں اوران سب کے پیچھے انسان کا خوف اور لالچ ہے۔رسل کہتا ہے جو تعلیم انسان کو زہر آلود معاشرہ مہیا کررہا ہے اسی وجہ سے انسان کی زہانت صلاحیت ختم ہورہی ہے اور وہ آزادی اظہار کے حق سے محروم ہورہا ہے۔محب وطنی کی تعریف کرتے ہوئے رسل کہتا ہے کہ اس کا مطلب ہے انسان کو قتل کرنا یا قتل ہونا ۔ رسل کے نزدیک محب وطنی ،قوم پرستی کی وجہ سے دنیا میں انتشار اور تقسیم ہے ۔آزادی اظہار کے بارے میں رسل کہتا ہے کہ آزادی اظہار دنیا میں اس وقت وجود میں آئے گی جب دنیا کی کوئی بھی حکومت اپنے آپ کو محفوظ تصور کرے گی ،جہاں جہاں حکومت اپنے آپ کو محفوظ تصور کررہی ہے وہاں وہاں آزادی اظہار کا دور دورہ ہے اور جہاں جہاں حکومت اپنے وجود اور سیکیورٹی کے لئے تشویش میں مبتلا ہے وہاں آزادی اظہار کا کوئی تصور نہیں ۔آزادی کے بارے میں رسل کہتا ہے کہ اس کا مطلب ہے انسان جو چاہتا ہے وہ کرے ،جو سوچتا ہے وہ بولے ،آزادی انسان کا بنیادی حق ہے اور یہی وہ حق ہے جس سے انسان ہمیشہ سے محروم چلا آرہا ہے ۔جمہوریت کے بارے میں رسل کا کہنا ہے کہ جمہوریت ایک ایسا عمل ہے جس میں تمام انسان ملکر ایک ایسے انسان کا انتخاب کرتے ہیں جو تمام الزامات اپنے سر تھوپنے کی صلاحیت سے مالا مال ہو ۔جو تمام الزامات کو قبول کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔نئی نسل کو نصیحت کرتے ہوئے برٹرینڈ رسل کہتا ہے کہ وہ نئی نسل کو زندگی کے دو پہلوؤ بتاتے ہیں ۔ایک پہلوؤ دانش مندی کا ہے اور دوسرا اخلاقی پہلوؤ ہے ۔وہ کہتے ہیں دانشورانہ پہلوؤ یہ ہے کہ جب بھی نئی نسل کسی بھی ایشو پر مطالعہ کررہی ہو یا کسی بھی فلسفے کے معاملے پر مطالعہ کیا جارہا ہو ،تو اس کے لئے ضروری ہے کہ نئی نسل اپنے آپ سے سوال کرے ،خود سے پوچھیں کہ اس ایشو کے حقائق کیا ہیں ۔اس کے لئےکسی معاشرتی نظریئے سے رائے یا مدد لینے کی ضرورت نہیں ۔رائے وہی بہترین ،اعلی اور ارفع ہے جو انسان کے اندر سے ابھرتی ہے ۔وہ رائے چاہے کسی نظریئے سے الٹی اور باغیانہ کیوں نہ ہو ،اسی رائے کو حقیقی سمجھنا چاہیئے اور اسی رائے کا اظہار کرنا چاہیئے ۔یہ تونئی نسل کے لئے دانشورانہ مشورہ ہے ۔اخلاقی پہلوؤ کے حوالے سے نئی نسل کو نصیحت کرتے ہوئے رسل کہتا ہے کہ اخلاقی پہلوؤ یہ ہے کہ محبت شعور ہے ،عقل مندی دانائی ہے اور نفرت یا تعصب بے وقوفی ہے ۔یہ تمام دنیا اور انسانیت ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہے ۔اس لئے ہمیں ایک دوسرے سے محبت کرنی چاہیئے ،صبر و تحمل اور برداشت سے ایک دوسرے کی رائے سننی چاہیئے اور اس رائے کا احترام کرنا چاہیئے ۔جب ہم ایک دوسرے کے نقطہ نظر کا احترام کریں گے تو دنیا میں تعاون کی فضاء قائم ہو گی ۔ہم سب کو ایک دوسرے کے ساتھ زندہ رہنے کا آرٹ آنا چاہیئے ۔انسانی زندگی کے تسلسل کے لئے ضروری ہے کہ برداشت سیکھی جائے ۔تحمل ،برداشت اور تعاون ہی سے دنیا اور انسانیت میں بہتری اور ترقی ممکن ہے ۔اس کے سوا کوئی اور حل نہیں ہے ۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔