[[ Men fear thought as they fear nothing else on earth – more than ruin, more even than death. Thought is subversive and revolutionary, destructive and terrible, thought is merciless to privilege, established institutions, and comfortable habits thought is anarchic and lawless, indifferent to authority, careless of the well-tried wisdom of the ages. Thought looks into the pit of hell and is not afraid. Thought is great and swift and free, the light of the world, and the chief glory of man ]]
ترجمہ :
{{ انسان دنیا میں سب سے زیادہ سوچ سے خائف رہتا ہے، ہلاکت سے بھی زیادہ، حتیٰ کہ موت سے بھی زیادہ!
سوچ شورش اور انقلاب پسند ہے، تباہ کن اور ہولناک ہے۔ سوچ بے رحم ہے مرتبے پر، معیّن اداروں پر، آرام دہ عادات پر۔ سوچ بے نظم اور بے قانون ہے، حکومت کی ماتحت نہیں، عمر کی مجرب دور اندیشی سے بے پروا ہے۔ سوچ جہنم کی گہرائی میں جھانکتی ہے اور ڈرتی نہیں۔ سوچ عظیم ہے، سریع ہے، آزاد ہے۔ اس جہان کا نور ہے۔ اور انسان کی سب سے بڑی شان ہے۔ }}
——————————————-
برٹرینڈ رسل کا یہ مختصر اقتباس اپنے اندر مکمل کتاب رکھتا ہے، اس کے اگر اجزاء کیے جائیں تو ایک کتاب کے ابواب بن سکتے ہیں، اور ابواب کی بھی درجہ بندی کی جائے تو یہ فصول میں متشکل ہو سکتے ہیں
مذکورہ بالا پیراگراف میں سوچ اور انسان کے قریبی ملائمات، اس کا محور، ممکنہ رسائی، سرعت، آزادی، انقلابی ردّ عَمَل، پرواز، عَمَلی انطباق اور تسخیری زاویوں کا اجمالاً ذکر موجود ہے
سوچ اور انسان کا جو تعلق رسل نے بیان کیا، وہ بہت دلچسپ بھی ہے اور فکر انگیز بھی، اس سے جہاں فکر و خیال کی بلندی کا ادراک ہوتا ہے، وہیں پر اس کی ماہیت اور ہیئت کا نقشہ بھی کھنچتا چلا جاتا ہے، رسل ایک مفکر تھا، وہائٹ ہڈ کے استثناء کے ساتھ رسل اپنے عہد کا سب سے بڑا مفکر اور فلسفی تھا، اس کی زندگی تقریباً ایک صدی کو محیط ہے، تمام عمر اس کی سوچ کا مطمحِ نظر دو باتیں رہیں کہ ہمارے علم کا کتنا حصہ یقینی Guaranteed ہے اور کتنا حصہ غیر یقینی Insubstantial،
سوچ کیا ہے؟
بہتر ہے کہ پہلے Mysticism یعنی علم باطن اور Encephalology علم دماغ کا مختصر خاکہ کھینچوں تاکہ سوچ کی تخلیق Creation of imagination میں جو عوامل کارہائے پنہاں سرانجام دیتے ہیں، وہ ظاہر و بارز ہو جائیں!
انسان کی فکری استعداد کا مختلف زاویوں سے مطالعہ علم الباطن Phrenology کہلاتا ہے
اور سوچنے اور غور کرنے کی قوت کا اساسی مطالعہ Bumpology کہلاتا ہے
ان دونوں کو ملایا جائے تو کوئی سوچ جنم لیتی ہے، اس کا مرکز اور مسکن معلوم ہوتا ہے اور علم الفکر میں سوچ کے مشمولات کا اشتراکی و انسلاکی Annexes تجزیہ کیا جاتا ہے، المختصر!
سوچ اور وجدان دونوں کا تعلق انسانی قوتِ متخیلہ Idealities سے براہِ راست ہے، سوچ ایک طاقت ہے، ایک طائر ہے جو لامحدود بلندیوں پر اپنی اڑان بھرتا ہے، ایک توسنِ تیز گام ہے جو عناں تابئ راکب کا محتاج نہیں، رسل نے کہا کہ انسان سوچ سے اس قدر خائف رہتا ہے کہ اس سے بڑھ کر کائنات میں کوئی چیز بھی اسے نہیں ڈراتی، Thought سے ڈرنا کس اعتبار سے ممکن ہے؟ اس پر روشنی ڈالنے سے قبل یہ دیکھنا ہے کہ انسان سوچتا کیوں ہے؟ وہ کیا قوت ہے جو انسان کو فکر کے قعرِ حضیض میں جھونک دیتی ہے اور نتیجۃً انسان اس سے خارجی عوامل کے زیرِ اثر سہم جاتا ہے، وہ کہا کیفیت ہوتی ہے جب سوچ کا کا سمندر ساحلِ وجود سے ہمکنار ہوتا ہے، تو میرے خیال میں سوچ تب جنم لیتی ہے جب انسان پر داخلی یا خارجی کوئی عامل اپنا اثر مرتب کرے، مثلاً ایک آسودہ انسان ہے، سوچ سے تہی دماغ اور فکر سے دست کش، لیکن جونہی اس پر کوئی داخلی امر مثلاً حزن و فرحت یا خوف و خیال، اور خارجی عامل، مثلاً موسم، مناظر، ضرب و حرب اور لمسی محسوسات مسلط ہوتے ہے تو فوراً ایک مثبت یا منفی سوچ پیدا ہوتی ہے جس کے تانے بانے ان عوامل سے جا ملتے ہیں اور ایک سوچ پردۂ باطن پر ظاہر ہوتی ہے
انسان چونکہ فطرتاً ڈرپوک Poltroonish واقع ہوا ہے بلکہ خود قرآن کی سورۂ نساء آیت نمبر 28 میں اس پر شہادت Testification موجود ہے، فرمایا کہ :
خُلقَ الإنسانُ ضعیفاً
انسان کو کمزور پیدا کیا گیا ہے، اور ظاہر ہے کمزوری بے ہمتی کو مستلزم ہے، انسان کی جبلت Connature ہی دراصل اس کا طریقۂ عَمَل ہوتا ہے، انسان سوچ سے اسی لیے ڈرتا ہے کہ وہ کبھی منفی طور پر انسان پر مسلط ہو جاتی ہے
سوچ ایک اہم ذہنی عمل ہے. اس سے ہمیں تجربات، منصوبہ، تعلیم، عکاسی اور تخلیق کرنے اور منظم کرنے کے لیے مدد ملتی ہے. لیکن کبھی کبھی ہماری سوچ شاید مختلف وجوہات کی بناء پر غیر جانبدار ہوجائے اور اس کے ساتھ ساتھ ہماری خوبی پر منفی اثر پڑے
انسان موت سے بھی زیادہ ڈرتا ہے :
موت کا وقوع بلحاظِ وقت جلد ہوتا ہے اور انسان ایک ہی دفعہ حیات کے زندان سے آزاد ہو کر ایک اور منزل کا راہی بن جاتا ہے، جبکہ سوچ آکاس بیل Aerophyte کی طرح انسان کی روح کا آزار ہو کر تمام عمر یا عمر کا اکثر حصہ اسے مضمحل Shrivelled و ناچار بنا کر رکھ دیتی ہے، گویا کہ :
اس خوش نگہ کے عشق سے پرہیز کیجو میرؔ
جاتا ہے لے کے جی ہی یہ آزار، دیکھنا!
سوچ فاسد Felonious اور انقلاب پسند ہے :
سوچ ارتقاء کا وجود جنم دیتی ہے، اور ظاہر ہے جب ارتقاء اسی کی کوکھ Flank سے نمود پاتا ہے اور عَمَلی تحریکات سے اپنے افقِ مراد کو پہنچتا ہے تو سوچ انقلاب پسند ہوگی ہی، سوچ فَقَط انقلاب پسند ہی نہیں بلکہ اس کی محرِّک بھی ہے، فاسِد اس جِہَت سے کہ ہر ارتقائی عَمَل کہنہ نظریات و عوامل کو یکسر نہ سہی مگر بیشتر روند ڈالتا ہے، اور یہ روندنا ہی دراصل فساد Aberrance ہے اور رسل کا یہ کہنا کہ Thought is Destructive and Terrible تو یہ بھی اسی زُمرے میں شامل ہے جسے میں نے اوپر ارتقاء کے حوالے سے ذکر کیا
سوچ بے رحم Relentless ہے
انسان چاہے کسی بھی عہدے کا مالک ہو، آسائشوں کے میناروں پر رقصاں ہو، آسودگی کے محلات میں محوِ استراحت ہو، سرور و فرحت کے بادۂ جانفَزا سے اس کے لب عُنّابی ہو چکے ہوں، فضائے مسرت سے اس کا نَفَس نَفَس عطر کش ہو، لیکن!!
کبھی اچانک قلبی، اضطراری اور غیر ارادی سوچ بے محابا در آتی ہے اور وہ بھی یوں کہ انسان مستقلاً اس کے لیے مستعد بھی نہیں ہوتا، اس لیے کہا کہ سوچ ظالم ہے، بے رحم ہے، سفّاک ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کسی بھی عہدے، عمر، عادت اور قانون کی پروا نہیں کرتی، اسی لیے رسل نے سوچ کو Anarchic and Lawless کہا ہے، مزید رسل نے کہا کہ یہ کسی حکومت کے حیطۂ حکمرانی سے بھی ماوراء ہے Indifferent to Authority کا یہی مفہوم بنتا ہے،
آزمودہ دور اندیشی سے بے پروا ہے :
سوچ کا معیار اور انفرادیت عمر کے ساتھ ساتھ تبدیل ہو جاتی ہے، یہ بحث بھی ایک فلسفیانہ نکتے کی مرہونِ منت ہے جسے فلسفۂ فکر کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا، میر تقی میر کہتے ہیں کہ :
شیب میں فائدہ تامل کا
سوچنا تب تھا جب جوانی تھی
اس شعر میں وہی بات مذکور ہے جو ابھی میں نے بیان کی، مزید ایک اور جگہ کہتے ہیں کہ :
اب کیا کریں کہ آیا آنکھوں میں جی ہمارا
افسوس پہلے ہم نے ٹک سوچ کر نہ دیکھا
نیز غالب کا کہنا ہے کہ :
مجھے معلوم ہے جو تو نے میرے حق میں سوچا ہے
کہیں ہو جائے جلد اے گردشِ گردونِ دوں، وہ بھی!
مذکورہ بالا تینوں اشعار میں سوچ کا ربط کسی نہ کسی زمانے کے ساتھ جُڑا ہوا ضرور ہے
رسل کا یہ کہنا کہ Thought looks into the pit of hell and is not afraid، بہت اہمیت کا حامِل ہے، سوچ جہنُّم میں دیکھتی ہے لیکن کسی طرح کا ڈر محسوس نہیں کرتی، سوچ کا دیکھنا دراصل سوچنا ہی ہے، جہنُّم مہالک و مضرات سے استعارہ بھی ہو سکتی ہے، جیسے راقم کا شعر ہے کہ :
دنیا جہنم کرنے والے
خُلدِ بریں کے ہیں سب خواہاں
یہاں جہنُّم سے مراد دنیا میں دنگا فساد برپا کرنا ہے، ایسے ہی رسل کے مذکورہ بالا اقتباس میں بھی Pit of hell کا معنیٰ یہی ہے، اس کے علاوہ Thought is not afraid کا معنیٰ بھی واضح ہے
سوچ عظیم ہے، سریع ہے، آزاد ہے :
کسی بند کی پروا نہیں کرتی، ایک لمحے میں پائے سَمَک سے بامِ فَلَک تک رسائی پا لیتی ہے اور اگلے ایک لمحے میں وہاں سے وراء اور پھر وراء الوراء پہنچ جاتی ہے، سوچ کی سریع السیر ایسی کہ مکاں کیا، لامکاں پر بھی حکومت کرتی ہے، آزادی ایسی کہ دنیا کی کوئی طاقت اسے محکوم نہیں کر سکتی، اس جہان کا نور ہے اور انسان کی سب سے بڑی شان ہے، یعنی متاع ہے، اس کی عظمت ایسی کہ بقولِ پیر نصیر الدین شاہ گیلانی :
شاعر و فلسفی و شاہ و حکیم و قاضی
حافظ و محتسب و میر و خطیب و قاری
مطرب و ساقی و سلطان و گدا و صوفی
مفتی و حاکم و استاد و ادیب و ہادی
سب تیرے لطف و عنایات سے فرزانے ہیں
تو اگر اِن سے بچھڑ جائے ،یہ دیوانے ہیں
اور
غالب و مومن و فردوسی و میر و سعدی
حافظ و رومی و عطار و جنید و شبلی
خسرو جامی و خیام و انیس و عرفی
آدم و یونس و یحییٰ و نبی اور ولی
اِ ن کی گفتار کی پرواز کی سرحد تو ہے
غایتِ جنبشِ لب ہائے محمد تو ہے(ﷺ)
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...