امریکہ کی سپریم کورٹ کا ایک چیف جسٹس ہوتا تھا وارن برگر ۔ وہ سترہ سال امریکی سپریم کورٹ کا چیف جسٹس رہا ۔ بہت دلچسپ اور نرالا شخص ۔ اس کے زمانے میں امریکی سپریم کورٹ کو برگر کورٹ کہا جاتا تھا ۔ لِنڈا گرین اپنی کتاب
“just a journalist” میں لکھتی ہے کہ یہ عجیب و غریب قسم کا جج تھا ۔ اس نے حدیبیہ والا کیس reject کرنے والے ججوں کی طرح کسی قسم کی رپورٹنگ پر پابندی لگا دی ہوئ تھی جب تک فیصلہ نہ ہو جائے ۔ کسی بھی لیک پر اپنے سٹاف کی سرزنش کرتا اور اکثر بدل دیتا تھا ۔
اسے ۱۹۶۹ میں رچرڈ نکسن نے جج اور چیف لگایا اور ۱۹۷۴میں اس نے نکسن کو ہی ڈس لیا ، یہ کہ کر کہ صدر کو ٹیپ ریکارڈنگ کوئ privilege حاصل نہیں ہے ۔ نکسن نے فیصلہ آتے ہی فورا استعفی دے دیا ۔ برگر کورٹ نے ہی مشہور زمانہ abortion کہ حق میں کیس کا فیصلہ کیا ۔ برگر اکثر باقی برادر ججوں سے مختلف فیصلہ دینے کا شوق فرماتا تھا ۔ مجھے اس سے ایک میرا دوست یاد آ گیا ، جب ہم کوئ کولڈ ڈرنک منگواتے تھے تو وہ مختلف منگواتا اور اگر ہم دوکاندار کی آسانی کہ لیے اس کی چؤائس والی کہ دیتے تو وہ پھر چوائس بدل لیتا ۔ برگر بھی اکثر dissent کرتا ۔ کچھ لوگ تو اس پر یہاں تک تبصرہ کرتے کہ ۔
“It all started with hamburger “
برگر بہت بڑی امریکیوں کہ لیے مصیبت بنا رہا ۔ جب اس نے ۱۹۸۶ میں امریکی آئین کی دو صدویں جشن لیڈ کرنے کے لیے تیاریوں کا فیصلہ کیا ، تو ریگن نے مناسب موقع جانا اس سے نجات کا اور اس کی جگہ سکیلیا کو جج لگایا ۔ سکیلیا کہ ۲۰۱۶ میں مرنے پر ٹرمپ نے اس کی جگہ Gorsuch کو بنوایا ۔ یہ سیٹ کوئ ۳۹۱ دن خالی رہی تھی ۔ اب بھی نئے جسٹس کینیڈی کی جگہ پچھلے کافی دنوں خالی ہے اور امریکی جمہوریت حالات جنگ میں ہے ۔ لبرل اور قدامت پسند دونوں نے اسے زندگی موت کا فیصلہ بنا لیا ہے ۔ لاکھوں ڈالر خرچ ہو رہے ہیں دونوں طرف سے ۔ کیونکہ اگر ٹرمپ کا نامزد Kavanaugh لگ جاتا ہے تو پھر قدامت پسندوں کو پانچ ۔ دو ، کی سپریم کورٹ میں برتری حاصل ہو جائے گی اور ہو سکتا ہے abortion پر پابندی لگ جائے ۔ لبرل اس کو بلاک کرنے کہ لیے ۳۶ سالہ پرانا کیس لے آئے اور قدامت پسند چار درجن باسکٹ بال کی خواتین کھلاڑی ۔ ان کھلاڑیوں نے کہا کہ جناب جج کیوانو تو جزبات ہی نہیں رکھتا وہ کیسے کسی کو جنسی طور پر ہراساں کر سکتا ہے جو کہ لبرل بزریعہ ایک خاتون فورڈ ثابت کر رہے ہیں ۔
جب جانبداریاں آڑے آتی ہیں ، مقاصد پلیت ہوتے ہیں ، تو پھر قدرت ایسا ہی کرواتی ہے جو امریکہ میں اس وقت ہو رہا ہے ۔ ثاقب نثار کو جج بھی نواز شریف نے بنوایا اور چیف بھی اسی کہ وقت اور ثاقب نواز شریف کو ہی لڑ گیا ۔ اب کوئ چیز بھی نظریاتی نہیں رہی ۔ سارا کھیل پیسہ ، عہدہ اور influence کا ہے ۔ رب یا خدا ، عدل ، اور اخلاقیات اب بیچ میں سے غائب کر دیا گئے ہیں ۔ یہ ہے صیحیح AI کا کمال جناب ۔ جولائ میں واشنگٹن پوسٹ کہ ایک مضمون میں اسی مسئلہ پر لی ڈرٹمین اور جیمز وارنر نے کیا خوب لکھا ۔
“There is only one way to get out of the vicious cycle ahead of us: We need to stop thinking of the Supreme Court as the final arbiter of every controversial issue in American politics. Short of that, we must make it harder for the court to act decisively in controversial cases. This could be done by requiring an even number of justices picked by a majority and a minority in the Senate. Let the court deadlock more, and let democracy do the hard work of politics, instead of lawyers and judges”
شاید پاکستان میں شروع سے ہی ججوں کا جانبدار ہونا مسئلہ رہا ، خاص طور پر ۱۹۵۴ میں جب Doctrine of necessity لائ گئ ۔ دراصل جسٹس برگر پر بھی یہ الزام ہے کہ اس کی برگر کورٹ بہت ساری غیر ضروری اور غیر آئینی ڈاکٹرائن لائ ۔
ثاقب نثار کو بہر کیف ہم سب کو روکنا ہو گا Doctrine of National Interest لانے سے ۔ اس کہ سو دن باقی رہ گئے ہیں ، اس وقت وہ اپنی اننگز کہ آخری اوور کھیل رہا ہے ، جمہوریت پسندوں کو سارے کھلاڑی ropes پر کھڑے کرنے ہوں گے ثاقب کو کیچ آؤٹ کرنے کہ لیے ، کیونکہ اگر اس نے کوئ گیند اسٹیڈیم کہ باہر پھینک دی تو سو سال اور لگیں گے پاکستان کو واپس جمہوریت پر لانے کہ لیے۔ قدرت کا شاید فیصلہ کچھ اور ہے ۔
جیتے رہیں ۔ پاکستان پائیندہ باد