میری پوسٹنگ اغوا برائے تاوان سیل کراچی میں تھی آفس ٹائم ختم ہونے پر گھر جانے کا سوچ رہا تھا کہ ایس پی ہیڈ کواٹر مسٹر منیر فھلپوٹو کا فون آیا کہ میں ایک دوست کے ساتھ ایک کیس کے سلسلے میں مشورہ اور مدد کیلئے آرہا ہوں، ایس پی ہیڈ کواٹر مُنیر فھلپوٹو کے ساتھ ایک اور ایس پی اکبر وگن صاحب جن کی پوسٹنگ کراچی سے باہر خیرپور ضلع میں تھی اُن کے بھائی کے قتل کی خبر دو دن پہلے میں آخبار میں دیکھ چُکا تھا۔ اُن کا بھائی اصغروگن ٹی ایم او تھا جو بوٹ بیسن پر کے ایف سی کے سامنے ایک فلیٹ میں رہتا تھا، واقع والے دن وہ ایک دوست کے فون کال پر گھر کی چپل میں بیوی کو سامنے کے ایف سی سے واپس آنے کا کہہ کر نگل گئے دوسرے دن ڈفینس کے ایک مصروف علائقہ میں ایک خالی پلاٹ سے اُن لاش مل گئی تھی۔ ایس پی اکبر وگن صاحب کو افسوس تھا کہ کراچی پولیس اُن سے کوئی تعاون نہیں کر رہی آنے کا مقصد یہ تھا کہ کیس کے حل میں اُن کی مدد کی جائے۔
جیسا کہ واقع کا تعلق ساؤتھ ضلع سے تھا متعلقہ ایس پی انویسٹیگیشن سے بات کرتا تو وہ بُرا مان جاتے اس لیئے تفتیش کُندہ سے بات کی۔اُس کے پاس تفصیلات غیر تسلی بخش تھیں اُس نے بتایا کہ 8/9 سال کے شیشہ صاف کرنے والے بچے نے بتایا ہے کہ ایک سفید کلر کی ویگو میں دو ملزمان اصغر وگن ٹی ایم او کوساتھ بٹھا کر لے گئے ہیں۔میں نے مقتول کے بھائی ایس پی اکبر وگن صاحب کو کہا کہ کے ایف سی چلتے ہیں وہاں صفائی والے گواہ بچے سے بات کرتے ہیں،
کے ایف سی پر شیشہ والا بچہ موجود تھا، میں نے بچے سے اُس کے عمر کا خیال رکھتے ہوے ایک والد کی طرح کچھ سوالات کیئے تاکہ بچہ پولیس کے خوف کے بغیر مجھ سے بات کرے، بچے نے دو کام کی باتیں بتائیں ایک یہ کہ وہ دونوں ملزمان کو شناخت کر سکتا ہے۔ دوسرا یہ کہ سفید ویگو کا ڈرائیور سائیڈ کا شیشہ سرے ے تھا ہی نہیں۔
یہاں سے فارغ ہوکر ہم ڈفینس میں لاش ملنے والی جگہ پہنچے، (ایک بات آج تک مجھے سمجھ نہیں آئی کہ ڈفینس میں کارنر پلاٹ آج تک خالی کیوں رکھے ہوئے ہیں، خالی پلاٹ کی ساتھ والا بنگلہ ہمیشہ مجرمان کے نشانے پر ہوتا ہے) مقتول کے بھائی ایس پی اکبر وگن صاحب نے لاش ملنے والی جگہ دکھائی ساتھ ہی ایک گاڑی کے ٹائروں کے نشان تھے، ایس پی صاحب نے بتایا کہ اسی گاڑی میں لاش یہاں پھینکے گئی ہے، تیسری بات یہ سمجھ آگئی کہ ملزمان کا تعلق ڈفینس میں قریب ہی سے ہے۔ ٹاہروں کی چوڑائی اور ٹائروں کے درمیاں کے فاصلے سے لاش پھینکے والی گاڑی ویگو نہیں لگ رہی تھی، چونکہ اُس وقت میرے پاس بھی سرکاری ویگو تھی انچی ٹیپ سے اپنی ویگو کے اگلے دونوں ٹائروں کے درمیانی فاصلے کی ناپ کرکے لاش پھیکنے والی گاڑی سے موازنہ کیا تو کافی فرق تھا میں گاڑی کے ٹائروں کے نشانات کی تصاویر لیں اور ضروری چیزیں نوٹ کیں اور ایس پی صاحب کو تسلی دی کہ میں کسی شو روم جاکر چیک کرتا ہوں کہ یہ کس گاڑی کے نشانات ہو سکتے ہیں اُن کو خدا حافظ کہا
اور سیدھا پاک ٹاور کے ساتھ والے شو روم آگیا
ونکہ دیر ہو چکی تھی شو روم بند ہوچُکے تھے وہاں موجود چوکیداروں کو اپنا تعارف کرواکر کچھ بڑی گاڑیوں کے ٹائروں کے بیچ والے حصے کی ناپ کی تو وہاں کھڑی ایک ٹنڈرا جیپ سے موازنہ ہو گیا یہاں تک کہ ٹائروں کے گروپ بھی جو موقعے پر پائے گئے لی ہو ئی تصاویر سے ملتے تھے، اب کافی کام آسان ہو گیا تھا کیونکہ ویگو گاڑیاں تو ہزاروں ہیں ٹنڈرا جیپ پاکستان میں استعمال اسلئے کم ہوتی ہے کہ یہ گاڑی امریکا میں بنتی ہے اور لیفٹ ہینڈ بنتی ہے،کراچی میں تو صرف انگلیوں پر گننے جتنی ٹنڈرا چلتی ہیں ان میں سے ملزمان کی ٹنڈرا کو ڈھونڈنا کوئی مشکل کام نہیں تھا۔
میں تسلی سے گھر چلا گیا اور کچھ کام فون پر ہی مختلف آفسران کے ذمے لگا دیئے، ایک کو ایکسائیز آفس ، دوسرے کو کسٹم، تیسرے کو ٹریکر کمپنیز سے صرف ٹنڈرا کی تفصیلات لانے کو کہا، اب مجھے صرف ایک چیز کنفیوز کر رہی تھی، شیشہ صاف کرنے والے بچے نے بتایا تھا کہ گاڑی کا ڈرائیور سائیڈ والا شیشہ سرے تھا ہی نہیں، مجھے دوسرے دن دو پہر ہونے کا شدت سے انتظار تھا تا کہ بچے سے صحیح معلومات لی جائیں تاکہ ویگو اور ٹنڈرا کا کنفیوز ن دور کیا جائے،
دوسرے دن تیں بجے میں کے ایف سی پہنچا تو بچے کو موجود دیکھ کر تسلی ہوئی، بچہ میری گاڑی دیکھ کر بھاگتا ہوا آیا کیونکہ کل میں نے اُس کی جیب میں دو ھزار زبردستی ڈال دیئے تھے۔ بچے کو میں نے کہا کہ بیٹا دوسری طرف سے آ کر اگلی سیٹ پر بیٹھ جائے بچہ بخوشی اگلی سیٹ پر آگیا میں نے بچے سے کہا کہ بیٹا مُلزماں کی ویگو کہاں کھڑی تھی عیں اُسی جگہ میری ویگو کو پارک کروائے۔ بچے کی رہنمائی میں میں نے گاڑی پارک کی، پھر گاڑی سے اُتر کر بچے کو کہا وہ اچھی طرح یاد کرکے بتائے کہ کس طرف کا سائیڈ مرر ویگو میں نہیں تھا ؟ بچے نے بڑے وصوق سے بتایا کہ آپ کی گاڑی کا اسٹیرنگ سیدھے ہاتھ پر ہے اُس گاڑی کا اسٹیرنگ اُلٹے ہاتھ پر تھا اور ڈرائیور سائیڈ کا شیشہ سرے سے تھا ہی نہیں۔ میں نے کچھ جیب خرچ بچے کے جیب میں ڈال دیا اور دفتر کی طرف روانہ ہو گیا، راستے میں اپنے بیٹے محراب خان کو فون کیا کہ وہ دفتر آجائے کیونکہ اُسے گاڑیوں کے متعلق زیادہ معلومات ہیں کہ کون سی چیز کہاں ملتی ہے۔ اُس کو میں نے ساری بات بتاکر کہا کہ مارکیٹ جاکر مجھے چیک کرکے بتائے کہ کراچی میں ٹنڈرا کا اسپیئر پارٹس کا ڈیلر کون ہے اور لیفٹ سائڈ کے مرر کے متعلق معلومات لے۔
میں دفتر سے اُٹھ کر سی سی ٹی وی چیک کرنے کیلئے پہلے سی پی او پہر کمانڈ اینڈ کنٹرول گیا مگر مایوس واپس آگیا، کمیشن مافیا نے اربوں روپیہ سے ناکارہ نظام لگائے ہیں، میں واپس گھر آگیا وہاں محراب خان نے بتایا کہ ٹنڈرا کا سیلز اور اسپئر پارٹس کا دفتر دبئی میں ہے میں نے ایک دوست کے ذمے لگا دیا ہے وہ کل ٹنڈرا کے شو روم جکر معلومات لے گا میں نے اپنے بیٹے کو کہا کہ وہ اپنے دوست کو سمجھائے کہ وہ شو روم والوں سے بات کرے کہ کراچی سے ہم نے ٹنڈرا کا مرر آرڈر کیا ہے وہ ابھی تک ڈلیور نئیں ہوا میں نے اندھیرے میں تیر مارا تھا- دوسرے دن ٹنڈرا شو روم سے محراب خان کے دوست کا فون آیا کہ شو روم والوں نے آمریکا آرڈر کر دیا ہے اور کراچی سے فلان دکان والے نے ایک لیفٹ سائیڈ مرر کا آرڈر کیا ہے اُس نے دکان والے کا فون نمبر میسج کر دیا۔
کیس حل ہو چُکا تھا میں نے ایک آفسر کے ذمے لگایا کہ وہ اِنکم ٹیکس کا آفسر بن کر دکان والے سے پچھلے دو ماہ کے آرڈر بُک کے رجسٹر کی فوٹو کاپی لے آئے۔ آفسر کو نہیں بتایا کہ کس سلسلے میں فوٹو کاپی منگائی جارہی ہے۔ ایک گھنٹے میں دکان کے رجسٹر کی فوٹو کاپی میرے سامنے تھی ٹنڈرا والے کی بدقسمتی تھی کہ رجسٹر میں اُس کے نام کیساتھ فون نمبر بھی لکھاتھا۔ نام دیکھ میں چونک گیا وہ لڑکا ایک بڑے باپ کا بیٹا تھا۔
کچہ دنوں بعد اُس وقت کے ڈی ایس پی کلفٹن ضمیر عباسی صاحب کے تعاون سے ٹنڈرا والا گاڑی اور قتل میں استعمال شدہ پسٹل سمیت پیزا ہٹ ڈیفینس سے گرفتار ہوگیا۔
مُلزم نے بتایا کہ میں متوفی ٹی ایم او کو نہیں جانتا تھا۔ میں اپنے فلان دوست کے ساتھ برگر کھانے کے ایف سی بوٹبیسن رُکا میرا دوست کے ایف سی سے آرڈر لے آیا اور مجھے بتایا کہ کے ایف سی کے باہر وہ سامنے ٹی ایم او بیٹھا ہے اُس کی وجہ سے مجھے 20 لاکھ کا نقصان ہوا ہے اتنے میں ٹی ایم او اپنے دوست سے خدا حافظ کہ کر اپنے فلیٹ میں جانے کیلئے جیسا ہی گاڑی کے سامنے سے گذرا میرے دوست نے اُسے آواز دے کر گاڑی کی پچھلی سیٹ پر بیٹھنے کو کہا اور ٹی ایم او بھی خاموشی کے ساتھ ٹنڈرا میں بیٹھ گیا میرے دوست نے ٹی ایم او سے موبائل فون لے کر آف کردیا( موبائل فون کے رکارڈ کے مطابق موبائل باربی کیو ٹو نائیٹ کے پاس بند ہوا تھا) ٹی ایم او کو ملزمان ڈیفنس میں ایک دوست کے بنگلے پر لے گئے وہاں اُس کو ہاتھ باندھ کر ایک کمرے بند کر دیا۔ ملزمان دوست کے ساتھ رات دیر تک شراب پیتے رہے۔ گھر جانے سے پہلے وہ لوگ کمرے میں گئے ٹی ایم او کو پسٹل سے فائرنگ کرکے ہلاک کردیا اور لاش ٹنڈرا میں ڈال کر خالی پلاٹ میں پھینک کر گھر چلے گئے۔
متوفی کو قتل کرنے کا کوئی سبب نہیں تھا۔ یہاں تک کہ مقتول قاتلوں کو جانتا تک نہیں تھا۔ ایک ملزم کراچی کے ایک ایم این اے کا فرنٹ مین تھا ملزم کو ایک ٹی ایم او نے آفر دی کہ کیاماڑی ٹائون میں پوسٹنگ کرا دے وہ 70 لاکھ دے گا، ملزم نے ایم این اے صاحب کو 50 لاکھ کی آفر دی مگر متوفی ٹی ایم او نے اُسی ایم این اے سے ڈیل کرکے دوسرے ٹی ایم او کو وہاں پوسٹ کرادیا اور ملزم کے 20 لاکھ مارے گئے۔ وہی رنجش مقتول کو قبل ازوقت قبر میں لے گئی۔
ایک ہی مہینے میں ہماری ساری محنت رائگاں چلی گئی۔ چونکہ ملزمان بااثر اورمالدار لوگ تھے انھوں نے متوفی پارٹی سے ڈیل کرکے کیس ختم کرا دیا اور جیل سے رہا ہوگئے اس کیس کا افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ ڈیل کرنے والے رشتے داروں کو ٹی ایم او کی بیوہ اور معصوم بچوں کا کوئی خیال نہ آیا وہ تو ساری عمر کیلئے رُل گئے۔