بے نظیر کا قاتل مشرف ہے. بلاول
بلاول عورتوں کی طرح نعرے لگا رہا ہے. پہلے آدمی بنے پھر مجھ سے بات کرے. مشرف
مرد بننے کے لیے صرف لنگ کا ہونا کافی نہیں. سماجی معیار کے مطابق manhood کے بنیادی اجزاء میں مندرجہ ذیل خصوصیات شامل ہیں
– سنگدلی
–apathy
– اور عورتوں سےجنسی تعلقات
اگر ان اجزاء میں سے ایک بھی جز ناپید ہو تو بندہ بشر مردوں کے گروہ سے بے دخل ہو جاتا ہے.
لہذا بلاول کے مبینہ طور پر ہم جنس پرست ہونے کی بنیاد پر وقتاً فوقتاً اسے عورت ہونے کے طعنے سننے پڑ رہے ہیں. مخالفین اسے نیچا دکھانے یا اسکی توہین کرنے کے لیے بارہا حقارت سے اسے زنانہ پن کا طعنہ دیتے پائے جاتے ہیں. مذکورہ بالا بیان میں مشرف نے بھی کوئی منطقی یا معقول سیاسی ردعمل دینے کی بجائے جس طرح اس کی جنس پر حقارت سے حملہ کیا ہے وہ روایتی سماجی ذہنیت کا بہترین ثبوت ہے.
لیکن مجھے یہاں بلاول کو مرد ثابت کرنا مقصود نہیں. بلاول اگر عورتوں کی کیٹیگری میں شامل ہے تو ہم اسے خوشی سے قبول کرتے ہیں اور اسکی حساسیت، فلسفہ عدم تشدد کی بنیاد پر اسے سر آنکھوں پر بٹھاتے ہیں. مجھے زنانہ پن کی بنیادی خصوصیات "نعرہ بازی" اور "فلسفہ عدم قتل و غارت" سے غریب مشرف سمیت دیگر manhood کے متکبر متوالوں کو عورت سے متعلق ان تاریخی حقائق سے روشناس کروانا مقصد ہے جن سے وہ اپنی جہالت یا تکبر کے باعث آنکھیں موندے بیٹھے ہیں.
فیمنزم کی کتابوں میں درج ہے کہ مرد فلسفیوں کا گمان ہے کہ وہ اس کائنات کی تشریح مکمل کر چکے ہیں اور اس دنیا کے حقیقی علوم پر دسترس حاصل کر چکے ہیں. لیکن انہیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ عورت کے نقطہ نظر سے اس کائنات کی تشریح ہونا باقی سے جس سے اب تک عورت کو باز رکھا گیا ہے. لہٰذا اس کائنات کے تمام دریافت شدہ زاویے اور ثابت شدہ علوم ادھورے اور نامکمل ہیں جب تک کہ عورت کا نقطہ نظر سامنے نہیں آتا.
مجھے قدیم تاریخ کا زیادہ علم نہیں. اور مذہبی بحث سے تو مکمل توبہ کر چکی ہوں. میری تحقیق پچھلی ایک صدی پر محیط انسانی تاریخ کے اہم سیاسی واقعات پر مشتمل ہے جس کے چیدہ چیدہ معاملات کا مختصر بیان حاضر ہے..
آپکو 1917 کا سوشلسٹ انقلاب تو یاد ہی ہوگا جس کے بارے میں آپکو نرگسیت ذدہ انقلابی بتاتے ہوئے لینن ٹراٹسکی اور مارکس جیسے بڑے بڑے آدمیوں کے نام گنواتے ہوں گے. لیکن کوئی آپ کو یہ نہیں بتائے گا کہ اس انقلاب کی بنیاد عورتوں کے نعروں سے ہوئی تھی.
جی ہاں یہ عالمی جنگ کی متاثرہ روسی عورتیں ہی تھیں جو عالمی جنگ کے خلاف نعرے بازی کرتی ہوئی چوک چوراہوں میں اکٹھی ہوئیں. جن کی اس پر امن تحریک کو ایڈونچر، apathy اور قتال کے دلدادہ آدم زادوں نے ہائی جیک کر لیا اور دنیا نے دوسری جنگ عظیم تک بارود کی جھنکار پر خون میں لتھڑی manhood کا ننگا ناچ دیکھا..
اور وہ بھی عورتیں ہی تھیں جن کے نازک دل کواس دنیا کی سفاکی پر رحم آیا اور وہ دوسری جنگ عظیم کے خاتمے کے حق میں جمع ہوئیں . کسی کو معلوم ہے کہ ویتنام میں امریکی armed adventure کے خلاف کون امریکہ میں باہر نکلا؟ جی ہاں نعرے لگاتی ہوئی عورتیں نکلیں..
پیارے مگر بے چارے مشرف ذرہ نگاہ اٹھا کر ایران کی جانب بھی دیکھو. یہ عورتیں ہی ہیں جو سماجی و سیاسی جبر کے خلاف اپنے سکارف کے جھنڈے بنا کر خمینی کی کرسیوں پر چڑھ بیٹھی ہیں. اور مجھے پورا اعتماد اور یقین ہے کہ انتہا پسندی اور دہشت گردی کی موجودہ عفریت جسکا جنم manhood کی کوکھ سے ہوا اسکے ساتھ اختتام عورت کے گداز مرمریں بانہوں پر لہراتے ست رنگے دوپٹوں کے جھنڈوں سے ہو گا. یہی کائنات کا مقدر ہے اور یہی ہونا چاہیے. ایرانی عورتوں نے اسکا عندیہ دے دیا ہے. تم اپنے غرور تکبر رعونت کی مسند اٹھا کر تاریخ کے جھروکوں میں جھانک کر دیکھو تمہیں تاریخ کی ہر بڑی اور مثبت تبدیلی کے پیچھے عورت کی عملی کاوش نظر آئے گی.
اور تمھارا شکریہ تم نے انجانے میں ایک سچ اگل دیا. تمھارا شکریہ کہ تم نے بے خیالی میں یہ تسلیم کر لیا کہ نعرہ عورت کی روایت ہے.
جی ہاں حقیقت یہی ہے کہ نعرہ عورت کی ایجاد ہے اور ہمیں اس ایجاد پر فخر ہے.
اوشو کہتا ہے کہ جنگیں لڑی تو مردوں نے ہیں لیکن اسکا خمیازہ عورتوں نے بھگتا ہے.
اگر بلاول کا دل اپنے شہیدوں کے غم میں عورتوں کی طرح گداز ہو گیا ہے. اگر وہ گولی کے جواب میں نعرے لگانے پر یقین رکھتا ہے تو میں ملک کی تمام عورتوں کی طرف سے خصوصاً سندھ کی ان سر پھری متوالی اور باغی عورتوں کی طرف سے جنہوں نے اپنی بیٹیوں کے نام بے نظیر رکھ چھوڑے ہیں کی طرف سے اسے امن کا زنانہ نوبل پرائز دیتی ہوں.
تمھیں تمھاری طاقت اور بندوق مبارک. ہم بلاول جیسی عورتوں کو ساتھ لے کر نعروں اور قلم سے اس کائنات کی تشریح کریں گے اور تم سے بہتر کریں گے. ہم نعرہ لگائیں گے اور اس دھرتی پر راج کریں گے اور تم گولی چلاؤ گے اور دم دبا کر بھاگ جاؤ گے
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔