بے نظیر بھٹو سے پہلی ملاقات
آمریت کا جبر دن بدن بڑھ رہا تھا۔ شہروں میں جمہوریت اور آئین کی بحالی کا مطالبہ کرنے والوں کو سرعام کوڑے مارنے کا آغاز ہوچکا تھا۔ جنرل ضیاالحق اس جمہوری جدوجہد کے رہنما ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف گھیرا تنگ کررہا تھا۔ تمام سیاسی جماعتیں جنرل ضیا الحق کی گود میں تھیں اور وہ ذوالفقار علی بھٹو کے حامیوں، آئین اور جمہوریت کی بحالی کا نعرہ لگانے والوں کو ہر روز سینکڑوں کی تعداد میں پابند سلاسل کرتا چلا جا رہا تھا۔ کسی چڑیا کو بھی جمہوریت کی بحالی کے نعرے پر گرفتار کیا جاسکتا تھا۔ کسی کی جرأت نہیں تھی کہ وہ جنرل ضیاالحق کی آمریت کے خلاف آواز بلند کرے، سوائے پاکستان پیپلزپارٹی کے کارکنوں کے۔ پورے ملک پر سکوت طاری تھا۔ آمریت نے ’’امن کی فضا‘‘ کچھ ایسی مسلط کردی تھی کہ ہر طرف ہو کا عالم تھا۔ کہیں کہیں کسی شہر کی گلیوں میں چند ایک نوجوان اکٹھے ہوتے اور نعرہ بلند کرتے ’’بھٹو کو رِہا کرو‘‘ تو اُن کو پولیس کی وردی میں ملبوس نوجوان دبوچ لیتے اور اُن کے ہمراہ سادہ کپڑوں میں خفیہ والے اور جنرل ضیا کے حامی ڈنڈے بردار جمہوریت کی بحالی کا نعرہ لگانے والوں اور بھٹو کے حامیوں پر ٹوٹ پڑتے۔ جب گرفتاری کے بعد فوجی عدالت انہیں فٹافٹ ’’دس دس کوڑے اور پانچ پانچ سال قید‘‘کی سزا سنا دیتی۔ یہ ایک نیا پاکستان تھا۔ بعد از ذوالفقار علی بھٹو پاکستان۔ جمہوریت سے اسلامی نظام کی طرف مراجعت کا آغاز ہوچکا تھا۔ ستمبر 1978ء کی ایک دوپہر اسی ہو کے عالم اور سکوت میں مجھے ذوالفقار علی بھٹو کی بیٹی سے ملنا تھا۔ اُن دنوں وہ بی بی یا محترمہ بے نظیر بھٹو نہیں بلکہ آنسہ بے نظیر کے نام سے پکاری جاتی تھیں۔ نہرکنارے فاروق لغاری کے گھر اُن سے ملاقات ہوئی۔ وہاں چند لوگ بیٹھے تھے جن میں قیوم نظامی، جہانگیر بدر، عارف اقبال بھٹی، پیر سید ناظم حسین شاہ، یونس ادیب، خالد بٹ، نور محمد قصوری، ریحان بشیر اور چند دیگر لوگ، زیادہ سے زیادہ دو درجن، مجھ سمیت سب اس فکر میں تھے کہ ذوالفقار علی بھٹوکو کیسے رِہا کروانے کے لیے جدوجہد تیز کی جائے۔ ایک نوجوان جو ابھی صرف زندگی کے سترہ برس عبور کر پایا تھا، سینے میں آتش فشاں موجزن تھا۔ جوش اور مایوسی کی عجیب کیفیت۔ جن کا رہبر پابند سلاسل ہو، ایک آمر کی قید میں ہو، وہی اس کیفیت کو سمجھ سکتے ہیں۔ آنسہ بے نظیر بھٹو نے نیلے رنگ کی شلوار قمیص پہن رکھی تھی۔ دبلی پتلی، نہایت کمزور، ایک بیٹی جو اپنے باپ کی رہائی کے لیے بے تاب تھی کہ کیسے جدوجہد برپا کی جائے، آنسہ بے نظیر گھر کے اندر سے نکلیں تو دو درجن کے قریب بھٹو کے جیالوں نے پُرجوش انداز میں نعرے بازی شروع کردی۔ ’’شرم کرو، حیا کرو۔ بھٹو کو رِہا کرو۔ فوجی آمریت ، مُردہ باد۔‘‘ ’’جیوے جیوے، بھٹو جیوے۔‘‘ گھر کے باہر دو تین سو پولیس والے بمعہ درجنوں خفیہ والوں کے جمع تھے جو گھر کے اندر موجود لوگوں کے نام جاننے کے لیے بے چین تھے۔ مجھے اس جدوجہد میں بھرپور طریقے سے شامل ہونے کا جنون تھا۔ اپنے ہیرو کی رہائی کی جدوجہد۔ مزدوروں ، کسانوں اور غریبوں کے رہبر کی جدوجہد۔ اسلامی کانفرنس کے چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو کی رہائی۔
آنسہ بے نظیر باہر آئیں ۔ قیوم نظامی نے ان چند جیالوں سے خطاب کے لیے ایک کرسی آنسہ بے نظیر بھٹو کے سامنے رکھ دی اور وہ اس پر چڑھ کر خطاب کرنے لگیں۔ ہمیں جنرل ضیا کی آمریت کے خلاف بھرپور جدوجہد کرنی ہوگی، ملک سے مارشل لاء کے خلاف، جمہوریت اور آئین کی بحالی، فوجی آمریت کے خلاف جدوجہد کو تیز کرنا ہوگا۔ اس فوجی ڈکٹیٹر کو ذوالفقار علی بھٹو کو رِہا کرنا ہوگا۔ وہ تقریر کیے جا رہی تھیں۔ ٹوٹی پھوٹی اردو اور ٹوٹے پھوٹے جملے، شکستہ آواز۔ ایک نہتی لڑکی ایک فوجی آمر کو للکار رہی تھی جس کے گرد اس کے چند غیر مسلح نہتے ساتھی تھے۔ نہتی لڑکی ایک ملٹری ڈکٹیٹر کو للکار رہی تھی، مسلح افواج کے سربراہ کو، تمام سیاسی جماعتیں جس کی جھولی میں تھیں اور امریکی سامراج کا سایۂ محبت اس ڈکٹیٹر کے سر پر۔
پُرجوش راقم کے سامنے اُن دنوں ایک ہی ایجنڈا تھا کہ ذوالفقار علی بھٹو کو کسی نہ کسی طرح رِہا کروانا ہے۔ ہاں یہ میری ہیرو ورشپ تھی۔ سترہ سال کا نوجوان ایک دلیر لیڈر کا عاشق کیوں نہ ہو، جس نے چند سال قبل لاہور ہی میں امریکی سامراج کے وزیر خارجہ ڈاکٹر ہنری کسنجر کی دھمکی کو رد کرتے ہوئے پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانے کا عزم دہرایا ہو، جس کے عشق میں کسان اور مزدور رقصاں ہوں، جس نے اُن لبوں کو جو صدیوں سے بند تھے، آزادی کی بغاوت پر آمادہ کیا ہو۔ جو اپنے لاکھوں کٹے پھٹے کپڑوں میں ملبوس حامیوں کے ہمراہ سٹیج پر دھمال ڈالتا ہو۔ وہ بہادر لیڈر جس پر قاتلانہ حملہ ہو اور وہ اپنی گاڑی سے باہر نکل آئے اور جھاڑیوں میں چھپے، جاگیرداروں کے بھیجے کرائے کے قاتلوں کو للکار کر کہے، چلائو میرے سینے پر گولی۔ وہ لیڈر جس نے اقوامِ متحدہ میں عالمی طاقتوں کو للکارتے ہوئے بے نقاب کیا ہو۔ وہ لیڈر جو 1970ء کے انتخابات میں کامیابی کے بعد بھری پریس کانفرنس میں ایک غیرملکی صحافی کے اس سوال پر کہ ’’تم ایک جاگیردار سر شاہنواز کے بیٹے اور تمہاری پارٹی ایک سوشلسٹ پارٹی، تم کیسے جاگیرداروں کے خلاف سوشلسٹ اصلاحات کرسکتے ہو؟‘‘ اس سوال پر وہ پھوٹ پھوٹ کر رو پڑے اور اپنے ساتھی معراج محمد خان کو مخاطب کرکے کہے، ’’معراج محمد خان ہرکوئی مجھے میرے والد کے حوالے سے جانتا ہے۔ انہیں بتائو کہ میں ایک غریب ماں کا بیٹا ہوں۔‘‘وہ ذوالفقار علی بھٹوجس نے اسلامی دنیا کے سارے رہنمائوں کو چند سال قبل ہی 1974ء میں لاہور میں اکٹھا کرکے جدید اسلامی تاریخ کی اہم ترین کانفرنس منعقدکی اور بحیثیت چیئرمین اسلامی کانفرنس اپنے آخری خطاب میں کہا ہو کہ ’’ہم فلسطین کو آزاد کروائیں گے۔ ہم بیت المقدس کی آزادی کے لیے جان دے دیں گے لیکن پیچھے نہیں ہٹیں گے۔‘‘ وہ لیڈر جو عوام کے لیے اٹھارہ گھنٹے کام کرتا ہو۔ جس نے اقتدار میں ایک بھی فیکٹری نہ لگائی ہو، جس کا دامن اس طرح صاف اور شفاف ہو جیسے تازہ چشمے کا پانی۔ جو خواتین کے حقوق کی جدوجہد کرتا ہو۔ سامراج کے خلاف ایک عالمی آواز ہو۔ تو اس سے عشق نہ کیا جائے تو کیا کیا جائے؟
اس لیڈر کی بیٹی کے پہلو میں کھڑا یہ نوجوان خواب دیکھ رہا تھا۔ جب آنسہ بے نظیر بھٹو نے تقریر ختم کرلی تو ایک کارکن اپنے قائد کی بیٹی کے کان میں کچھ سرگوشی کررہا تھا۔ فرطِ جذبات میں اُس کی آنکھیں پُرنم ہوگئیں۔ سرگوشی کرنے والا یہ محنت کش چند روز بعد لاہور میں احتجاج کررہا تھا۔ سرکلر روڈ سے داتا صاحب اور شاہ عالمی تک اس احتجاجی کو اس کے دوسرے ساتھی کے ہمراہ گرفتار کرنے کے لیے پولیس ناکہ لگا چکی تھی۔ ہرطرف سناٹا تھا۔ دکانیں بند اور بازار معطل کر دئیے گئے۔ عبدالرشید عاجز اور یعقوب پرویز مسیح کہ دونوں نے یہ اعلان کیا تھا کہ بھاٹی دروازے کے سامنے بھٹو کی رہائی کے لیے خود سوزی کریں گے۔ ہر طرف ہو کا عالم تھا، سناٹا تھا کہ وہ دونوں نوجوان ’’بھٹو کو رِہا کرو‘‘ کے نعرے بلند کرتے آئے اور میرے سامنے یکایک شعلوں میں بدل گئے۔ جلتے جسم راکھ ہوئے۔ اس محنت کش عبدالرشید کی سرگوشی جو وہ ذوالفقار علی بھٹو کی بیٹی کے کان میں کہہ رہا تھا، اب پورے ملک میں خبر بن چکی تھی۔ سناٹے میں خبر کہ ذوالفقار علی بھٹوکے دو جیالوں نے اپنے آپ کو نذرِ آتش کرلیا۔
جب بے نظیر بھٹو، لغاری ہائوس کے لان میں خطاب کر چکیں تو اب مجھے دیگر تین ساتھیوں کے ہمراہ آنسہ بے نظیر بھٹو کو ملنا تھا۔ صوفے پر بیٹھی کمزور جسم لڑکی جو اسی سال انتخاب لڑنے کی عمر میں داخل ہوئی تھی، ہمیں دیکھ کر بڑی خوش ہوئی۔ نور محمد قصوری، ریحان بشیر اور میں۔ بے نظیر نے کہا کہ آپ سب کو بھٹوکی رہائی کے لیے جدوجہد تیز کرنا ہوگی۔ وقت تیزی سے گزر رہا ہے۔ اور پھر وہ بولتی رہیں۔ یہ راقم کی اپنے رہنما کی بیٹی سے پہلی ملاقات تھی۔ اُن دنوں ایک ہی اخبارتھا، مساوات جو پی پی پی کی خبریں دیتا تھا، باقی سب اخبار جنرل ضیا کی عظمت کے گن گاتے تھے۔ دوسرے دن اس ملاقات کی خبر مساوات میں بمعہ تصویر چھپی۔ بے نظیر بھٹو سے میری پہلی ملاقات۔ اور اس ہفتے راقم نے بے نظیر بھٹو کے بیٹے بلاول سے ملاقات کی۔ وقت بہت بدل چکا۔ زمانہ بدل گیا۔ ذرا غور کریں اُس ملاقات اور اِس ملاقات میں کیا کیا بدلا۔ اِس ملاقات کی چند جھلکیاں اگلے کالم میں۔