’’یوسف رضا گیلانی نے گرم جوشی سے ہاتھ ملایا اور مجھے بیلٹ باندھنے کا حکم دے دیا۔ میں نے ہنس کر بیلٹ باندھی اور ساتھ ہی عرض کیا ’’آپ بھی اپنی بیلٹ پر نظر رکھیں‘‘ ۔ انہوں نے اپنی بیلٹ کی طرف دیکھا، پھر میری طرف دیکھا اور ہنس کر بولے ’’ فکر نہ کریں۔ میں سیّد ہوں اور سید ہمیشہ اپنی بیلٹ کا خیال رکھتے ہیں‘‘۔
یہ اقتباس ایک معروف کالم نگار (اور محترم دوست) کی تحریر سے ہے جو وزیراعظم کے ساتھ ہوائی جہاز میں تھے۔ جناب یوسف رضا گیلانی کا یہ فقرہ کہ … میں سید ہوں اور سید ہمیشہ اپنی بیلٹ کا خیال رکھتے ہیں‘‘۔ پرسوں سے رہ رہ کر یاد آ رہا ہے۔ میں نے جس وقت سے وزیراعظم کا وضع کردہ قاعدہ کلیّہ سنا ہے کہ ’’گرفتار کرنے والا گرفتار کس طرح ہو سکتا ہے‘‘ اور جس وقت سے جناب بابر اعوان کو وزیراعظم کی یہ تلقین سنی ہے کہ …ع
’’بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست‘‘
اس وقت سے وزیراعظم کا یہ فقرہ جو انہوں نے جہاز میں اپنی بیلٹ کے بارے میں کہا تھا، سر پر ہتھوڑے کی طرح برس رہا ہے۔ کیا قانون کے بارے میں اور احتساب کے بارے میں جناب وزیراعظم کا رویہ اتنا سرسری ہے؟ ۔
لیکن قانون اور احتساب کے بارے میں امیر المومنین سیدنا علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہ، کا رویہ اس قدر سنجیدہ تھا کہ جب وہ مشکلات میں گھرے ہوئے تھے اور زندگی ان کے لئے کٹھن ہو چکی تھی، اس وقت بھی وہ اصولوں سے بال برابر انحراف کرنے کے لئے تیار نہ تھے!۔
یہ وہ زمانہ تھا جب مصر بھی آپ کی حدودِ خلافت سے باہر ہو چکا تھا۔ جو علاقے آپ کی امارت میں تھے، ان میں بھی امن اور سکون نہیں تھا۔ حالات غیر یقینی صورتحال اختیار کر چکے تھے جب حالات اتنے نازک ہوں تو حکمران اصولوں کی پرواہ کہاں کرتے ہیں ! ان کی تو کوشش ہوتی ہے کہ زیادہ سے زیادہ حمایتی اکٹھے کریں اور دام و درم سے وفاداریاں خریدنے کی کوشش کریں، لیکن خلیفۂ راشد اور عام حکمران میں اتنا ہی فرق ہوتا ہے جتنا آسمان اور زمین میں ہوتا ہے۔ آپ کے مقرر کردہ بصرہ کے گورنر حضرت عبداللہ بن عباس نے جو آپ کے چچا زاد بھائی بھی تھے، بصرہ کے بیت المال سے اپنی ذات کے لئے کچھ رقم لی جس کی واپسی میں غیرمعمولی تاخیر ہوگئی، بیت المال کے افسر اعلیٰ ابو الاسود ان کے پیچھے لگے ہوئے تھے اور مسلسل رقم کی واپسی کا تقاضا کر ہے تھے (غور کیجئے، صوبے کا افسرِ خزانہ، صوبے کے گورنر کا ماتحت نہیں بلکہ براہ راست خلیفہ کو جواب دہ ہے۔ مالیات اور انتظامیہ کی یہ تقسیم حضرت عمر فاروق نے کی تھی اور حضرت علیؓ نے اسے جاری رکھا۔ جب ابنِ عباسؓ نے رقم واپس نہ کی تو ابو الاسود نے امیر المومنین کو مراسلہ لکھا۔
امّابعد۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو دیانت دار ولی بنایا ہے۔ ہم نے آپ کی آزمائش کی اور آپ کو زبردست امین اور رعایا کا خیرخواہ پایا۔ رعایا کو آپ بہت کچھ دیتے ہیں اور خود ان کی دنیا سے اپنا ہاتھ روکتے ہیں۔ چنانچہ آپ نہ ان کا مال کھاتے ہیں اور نہ ان کے معاملات میں رشوت سے آپ کا کوئی تعلق! آپ کے بھائی اور آپ کے گورنر آپ کے علم اور اطلاع کے بغیر وہ رقم کھا گئے جو ان کے ہاتھ میں تھی میں یہ بات آپ سے مخفی نہیں رکھ سکتا۔ خدا کا فضل آپ کے شامل حال رہے۔ ادھر توجہ فرمائیے اور مجھے اپنی رائے لکھیے۔ والسّلام !۔
آپ کا کیا خیال ہے حضرت علی کرم اللہ وجہ، کو کیا کرنا چاہئے تھا؟ یہ وہ زمانہ تھا جب ایک ایک فرد حضرت علی کرم اللہ وجہ، کے لئے قیمتی تھا تو پھر کیا آپ چشم پوشی کرتے؟ کیا آپ یہ فکر کرتے کہ کہیں باز پرس سے چچا زاد بھائی آزردہ خاطر نہ ہوجائے اور حمایت کرنا چھوڑ نہ دے؟ تو کیا آپ معاملے کو التواء میں ڈال دیں گے؟ کہ جب امن ہو گا اور حالات قرار پکڑیں گے تو افسر خزانہ کے سرکاری مکتوب پر غور کیا جائے گا؟۔
نہیں! جو امین ہو اور سچا ہو اور جو صرف زبانی دعوے کرنے والا نہ ہو اور جو آخرت کی باز پرس سے ڈرتا ہو وہ چشم پوشی نہیں کرتا، سرکاری خزانہ کسی کی جاگیر نہیں، نہ کبھی تھا اور نہ آج ہے! امیر المومنین نے امیر خزانہ ابوا لاسود کو جواب لکھا… ’’امّا بعد! میں نے تمہارے خط کامطلب سمجھا۔ تمھارے جیساآدمی امت اور امام دونوں کے لئے خیر خواہ ہے، تم نے حق کی حمایت کی اور ناحق سے روگردانی کی! میں نے تمہارے صاحب کو اس بارے میں لکھا ہے اور تمہارے خط کا تذکرہ نہیں کیا، تمہاری موجودگی میں ایسی باتیں ہوں جن پر غور کرنے میں امت کی فلاح ہو تو مجھے ضرور مطلع کرنا۔ تمہیں یہی کرنا چاہئے اور یہی تمہارا فرض ہے! والسّلام
آپ نے اسی وقت بصرہ کے گورنر کو لکھا…‘‘ اماّ بعد! مجھے تمہارے بارے میں ایک بات کا پتہ چلا ہے اگر وہ سچ ہے تو تم نے اپنے رب کو خفا کیا۔ اپنی امانت برباد کی اور اپنے امام کی نافرمانی کی اور مسلمانوں کے خائن بنے۔ مجھے معلوم ہوا ہے کہ تم نے زمین کو بنجر کر دیا اور جو رقم تمہارے قبضے میں تھی وہ کھا گئے۔ پس میرے سامنے حساب پیش کرو اور جان لو کہ اللہ کا حساب لوگوں کے حساب سے زیادہ سخت ہے۔ والسّلام‘‘۔
سیاسی اور عسکری کشمکش عروج پر ہے۔ حمایتیوں کی سخت ضرورت ہے۔ لیکن حضرت علیؓ کی ترجیحات کچھ اور ہی ہیں۔ رب کی نافرمانی نہ کی جائے، امانت برباد نہ کی جائے اور مسلمانوں کے مال میں خیانت سے بچا جائے! لیکن ابنِ عباس نے جواب میں صرف یہ لکھا… امّا بعد! آپ کو جو اطلاع ملی وہ غلط ہے۔ اور میں اپنے زیر تصرف رقم کا اوروں سے زیادہ منتظم اور محافظ ہوں۔ خدا آپ پر مہربان ہو۔ آپ بدگمانوں کی باتوں میں نہ آئیں۔ والسّلام!۔
ایسا گول مول جواب امیر المومنین کو کس طرح مطمئن کر سکتاتھا! آپ نے جواب میں لکھا… اما بعد۔ میں تم سے اس وقت تک درگزر نہیں کر سکتا جب تک تم مجھ کو یہ نہ بتا دو کہ تم نے جزیہ کی کتنی رقم کہاں سے لی اور کس مد میں اس کو خرچ کیا۔ اگر تم کو امانت سونپی گئی ہے تو اللہ سے ڈرو۔ میں نے تم سے اس کی حفاظت چاہی تھی یہ دولت جس کا بڑا حصہ تم نے سمیٹ لیا ہے حقیر ہے لیکن اس کی ذمہ داری بڑی سخت ہے! والسّلام۔
حضرت ابنِ عباس نے رقم واپس نہ کی اور مکہ مکرمہ چلے گئے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہ نے انہیں پھر لکھا
… ’’امّابعد میں نے تم کو اپنی امانت میں شریک بنایا تھا۔ میرے گھر والوں میں تم سے زیادہ بھروسہ کے لائق کوئی آدمی نہ تھا جو میری ہمدردی کرتا۔ میری تائید کرتا اور امانت مجھے واپس کرتا لیکن تم نے دیکھا کہ اب بھائی کے وہ دن نہیں رہے۔ دشمن حملہ آور ہے۔ لوگوں کی دیانت خراب اور امت فتنوں سے دوچار ہو چکی ہے تو تم نے بھی آنکھیں پھیر لیں۔ چھوڑنے والوں کے ساتھ تم نے بھی اس کا ساتھ چھوڑ دیا اور بری طرح اس کو بے یارومددگار کر دیا۔ غداروں کے ساتھ تم نے بھی مجھ سے بے وفائی کی۔ نہ ہمدردی کی نہ امانت واپس کی گویا جہاد میں تمہارے پیش نظر اللہ نہ تھا! تم کو اپنے خدا کی طرف سے کوئی رہنمائی نہ تھی یا پھر تم محمدﷺ کی امت کے ساتھ ان کی دنیا حاصل کرنے کے لئے چل چل رہے تھے گویا تم جنت کے مال سے لوگوں کی غفلت کے منتظر تھے اور جیسے ہی موقع ملا دوڑ پڑے۔ جست لگائی اور جس قدر دولت لے سکے، ایک لاغر بکری کو خون خون کر دینے والے تیز بھیڑیے کی طرح جھپٹ لیا۔ سبحان اللہ ! کیا قیامت پر تمہارا ایمان نہیں ہے؟ اور کیا بعد میں بری طرح حساب نہیں ہوگا؟ اور کیا تم جانتے نہیں کہ ناجائز کھاتے ہو اور ناجائز پیتے ہو۔ اللہ سے ڈرو۔ قوم کا مال واپس کردو۔ اگر تم نے ایسا نہیں کیا تو بخدا اگر مجھے موقع ملا تو میں تمہارا انصاف کروں گا اور حق حقدار تک پہنچاؤں گی ظالم کو ماروں گا اور مظلوم کا انصاف کروں گا۔ والسّلام۔
امیر المومنین نے ابن عباسؓ کو دوبارہ اپنے ساتھ ملانے کے لئے کوئی جرگہ بھیجا نہ کوئی سیاست کھیلی! وہ اپنے مؤقف سے سرِ مْو نہ ہٹے۔ انہیں اس بات کی ذرہ بھر پرواہ نہیں تھی کہ ان کے طرف دار کم ہو جائیں گے۔ فکر تھی تو حشر کے دن کی اور اسی دن سے وہ اپنے چچا زاد بھائی کو ڈرا رہے تھے۔ وہ ہر حال میں قوم کا مال خزانے میں واپس لانا چاہتے تھے اور پھر برملا اعلان فرما رہے تھے کہ جب بھی موقع ملا وہ انصاف کریں گے۔
یہ تھا قانون اور احتساب کے بارے میں ایک ایسے حکمران کا رویہ جو مسلمانوں کے لئے سراپا اخلاص تھے لیکن یہ رویہ اس حکمران کا ہو سکتا ہے جو عید کے دن سوکھی روٹی کھا رہا ہو، جس کے لباس پر، پیوند ہوں اور جس کا دامن اقربا پروری اور لالچ سے پاک ہو۔
وہ جو قوم کے خون پسینے کی کمائی کو اپنا مال سمجھیں وہ قانون اور احتساب کے بارے میں ایسا رویہ کہاں رکھ سکتے ہیں! تعجب ہے کہ لوگ پھر بھی ان کے ساتھ تعلق کا دعویٰ کرتے ہیں جو قوم کی ایک ایک پائی کے لئے خود کو جواب دہ سمجھتے تھے۔ اللہ کے سامنے جواب دہ اور لوگوں کے سامنے بھی جواب دہ!۔